675. اس بات کی دلیل کا بیان کہ جس شخص کی ایک رکعت یا تین رکعات (امام کے ساتھ) چھوٹ جائیں تو امام کی اقتداء کرتے ہوئے پہلی اور تیسری رکعت میں اس کے بیٹھنے سے اس پر سہو کے دو سجدے واجب نہیں ہوتے
ضد قول من زعم ان المدرك وترا من صلاة الإمام تجب عليه سجدتا السهو، وهاتان السجدتان لو يسجدهما المصلي كانتا سجدتي العمد لا السهو؛ لان المدرك وترا من صلاة الإمام يتعمد للجلوس في الاولى والثالثة، إذ هو مامور بالاقتداء بإمامه، جالس في الموضع الذي امر بالجلوس فيه، فكيف يكون ساهيا من فعل ما عليه فعله وتعمد للفعل؟ وإذا بطل ان يكون ساهيا، استحال ان يكون عليه سجدتا السهو بإخبار النبي صلى الله عليه وسلم: إذا اتيتم الصلاة فعليكم السكينة والوقار، فما ادركتم فصلوا وما فاتكم فاقضوا او فاتموا.ضِدَّ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ أَنَّ الْمُدْرِكَ وِتْرًا مِنْ صَلَاةِ الْإِمَامِ تَجِبُ عَلَيْهِ سَجْدَتَا السَّهْوِ، وَهَاتَانِ السَّجْدَتَانِ لَوْ يَسْجُدُهُمَا الْمُصَلِّي كَانَتَا سَجْدَتَيِ الْعَمْدِ لَا السَّهْوِ؛ لِأَنَّ الْمُدْرِكَ وِتْرًا مِنْ صَلَاةِ الْإِمَامِ يَتَعَمَّدُ لِلْجُلُوسِ فِي الْأُولَى وَالثَّالِثَةِ، إِذْ هُوَ مَأْمُورٌ بِالِاقْتِدَاءِ بِإِمَامِهِ، جَالِسٌ فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي أُمِرَ بِالْجُلُوسِ فِيهِ، فَكَيْفَ يَكُونُ سَاهِيًا مَنْ فَعَلَ مَا عَلَيْهِ فِعْلُهُ وَتَعَمَّدَ لِلْفِعْلِ؟ وَإِذَا بَطَلَ أَنْ يَكُونَ سَاهِيًا، اسْتَحَالَ أَنْ يَكُونَ عَلَيْهِ سَجْدَتَا السَّهْوِ بِإِخْبَارِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَتَيْتُمُ الصَّلَاةَ فَعَلَيْكُمُ السَّكِينَةُ وَالْوَقَارُ، فَمَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا وَمَا فَاتَكُمْ فَاقْضُوا أَوْ فَأَتِمُّوا.
جناب عمرو بن وہب بیان کرتے ہیں کہ ہم سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھے تو اُن سے پوچھا گیا، کیا اس اُمّت میں سے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ بھی کسی شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کرائی ہے۔ اُنہوں نے فرمایا کہ ہاں، ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، پھر مکمّل حدیث بیان کی۔ امام صاحب کے دونوں اساتذہ کرام یہ بیان کرتے ہیں، پھر ہم سوار ہوئے (اور واپس آئے) تو ہم نے دیکھا کہ سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ لوگوں کو امامت کرارہے تھے، ایک رکعت پڑھا چکے تھے اور دوسری رکعت پڑھا رہے تھے میں نے انہیں (نبی کریم کی آمد کی) اطلاع دینی چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے منع کر دیا۔ تو ہم نے جو رکعت (اُن کے ساتھ) پالی وہ ادا کرلی اور جو فوت ہو گئی تھی وہ مکمّل کرلی۔ جناب مؤمل کی روایت میں ہے کہ جو رکعت رہ گئی تھی ہم نے وہ مکمّل کرلی۔