(موقوف) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد بن سلمة، عن ابي نعامة السعدي، عن ابي نضرة، عن ابي سعيد الخدري، قال:" بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي باصحابه إذ خلع نعليه فوضعهما عن يساره، فلما راى ذلك القوم القوا نعالهم، فلما قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاته، قال: ما حملكم على إلقاء نعالكم؟ قالوا: رايناك القيت نعليك فالقينا نعالنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن جبريل عليه السلام اتاني فاخبرني ان فيهما قذرا، او قال: اذى، وقال: إذا جاء احدكم إلى المسجد فلينظر، فإن راى في نعليه قذرا او اذى فليمسحه وليصل فيهما". (موقوف) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي نَعَامَةَ السَّعْدِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:" بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِأَصْحَابِهِ إِذْ خَلَعَ نَعْلَيْهِ فَوَضَعَهُمَا عَنْ يَسَارِهِ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ الْقَوْمُ أَلْقَوْا نِعَالَهُمْ، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ، قَالَ: مَا حَمَلَكُمْ عَلَى إِلْقَاءِ نِعَالِكُمْ؟ قَالُوا: رَأَيْنَاكَ أَلْقَيْتَ نَعْلَيْكَ فَأَلْقَيْنَا نِعَالَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السلام أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي أَنَّ فِيهِمَا قَذَرًا، أَوْ قَالَ: أَذًى، وَقَالَ: إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ إِلَى الْمَسْجِدِ فَلْيَنْظُرْ، فَإِنْ رَأَى فِي نَعْلَيْهِ قَذَرًا أَوْ أَذًى فَلْيَمْسَحْهُ وَلْيُصَلِّ فِيهِمَا".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک آپ نے اپنے جوتوں کو اتار کر انہیں اپنے بائیں جانب رکھ لیا، جب لوگوں نے یہ دیکھا تو (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں) انہوں نے بھی اپنے جوتے اتار لیے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تو آپ نے فرمایا: ”تم لوگوں نے اپنے جوتے کیوں اتار لیے؟“، ان لوگوں نے کہا: ہم نے آپ کو جوتے اتارتے ہوئے دیکھا تو ہم نے بھی اپنے جوتے اتار لیے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ آپ کے جوتوں میں نجاست لگی ہوئی ہے“۔ راوی کو شک ہے کہ آپ نے: «قذرا» کہا، یا: «أذى» کہا، اور فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو وہ اپنے جوتے دیکھ لے اگر ان میں نجاست لگی ہوئی نظر آئے تو اسے زمین پر رگڑ دے اور ان میں نماز پڑھے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 4362)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/20، 92)، سنن الدارمی/الصلاة 103 (1418)، (صحیح)»
Narrated Abu Saeed al-Khudri: While the Messenger of Allah ﷺ was leading his Companions in prayer, he took off his sandals and laid them on his left side; so when the people saw this, they removed their sandals. When the Messenger of Allah ﷺ finished his prayer, he asked: What made you remove your sandals? The replied: We saw you remove your sandals, so we removed our sandals. The Messenger of Allah ﷺ then said: Gabriel came to me and informed me that there was filth in them. When any of you comes to the mosque, he should see; if he finds filth on his sandals, he should wipe it off and pray in them.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 650
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (766)
الشیخ مبشر احمد ربانی رحمہ اللہ، فوائد و مسائل، ابوداود 650
سوال:
جوتے پہن کر نماز ادا کرنا ٹھیک ہے اور کیا یہ واجب ہے؟
جواب:
جوتے اگر پاک اور صاف ستھرے ہوں، ان کے نیچے گندگی نہ لگی ہو تو پھر ان میں نماز پڑھنا درست ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا جاء احدكم المسجد فلينظر، فإن راى فى نعليه قذرا او اذى فليمسحه وليصل فيهما [أبوداؤد، كتاب الصلوة: باب الصلاة فى النعل 650] ”جب بھی تم میں سے کوئی آدمی مسجد کی طرف آئے تو وہ دیکھے اگر اس کے جوتوں میں کوئی گندگی وغیرہ لگی ہو تو اسے صاف کرے اور ان میں نماز پڑھے۔“
سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
خالفوا اليهود فإنهم لا يصلون فى نعالهم ولا خفافهم [أبوداؤد، كتاب الصلوة: باب الصلاة فى النعل 652] ”یہودیوں کی مخالفت کرو، وہ اپنے جوتوں اور موزوں میں نماز نہیں پڑھتے۔“
یہ حکم وجوب کے لیے نہیں کیونکہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ننگے پاؤں بھی اور جوتوں میں بھی نماز پڑھتے تھے۔ [أبوداؤد، كتاب الصلوة: باب الصلاة فى النعل 653]
احکام و مسائل، حدیث/صفحہ نمبر: 99
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 650
650۔ اردو حاشیہ: ➊ جوتے پہن کر یا اتار کر، نماز پڑھنا دونوں طرح جائز ہے، اگر جوتے پہنے ہوں تو ان کا پاک ہونا شرط ہے اور انہیں پاک کرنے کے لیے خشک زمیں پر رگڑ لینا ہی کافی ہے۔ ➋ نمازی اکیلا ہو اور اپنے جوتوں کو اپنے پہلو میں رکھنا چاہتا ہو تو اپنی بائیں جانب رکھے، مگر جب صف میں ہو تو اپنے پاؤں کے درمیان میں رکھے۔ ➌ نجاست آلود جوتے یا کپڑے میں نماز جائز نہیں۔ اثنائے نماز میں اسے دور کرنا ممکن ہو تو اسے دور کر دے، ورنہ نماز چھوڑ دے اور نجاست دور کرے۔ ➍ لاعلمی میں جو نماز نجس کپڑے یا جوتے میں پڑھی جا چکی ہو تو وہ صحیح ہے، اس کے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ ➎ جوتوں میں نماز تمام احادیث کی روشنی میں ایک درست عمل ہے، اس کا ثواب کی کمی بیشی سے کوئی تعلق نہیں۔ ➏ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کی خبریں جبریل امین کے ذریعے سے بتائی جاتی تھیں۔ ➐ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع، افعال عبادت میں اسی طرح ضروری ہے جیسے کہ اقوال میں۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی خصوصیت اور خوبی یہی ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کی اتباع میں کوئی پس و پیش نہ کرتے تھے اور ہر مسلمان کو ایسے ہی ہونا چاہیے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 650