ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے صحابہ میں سے کسی کو اپنے کام کے لیے بھیجتے تو فرماتے، خوشخبری دینا، نفرت مت دلانا، آسانی اور نرمی کرنا، دشواری اور مشکل میں نہ ڈالنا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجھاد 3 (1732)، (تحفة الأشراف: 9069)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/399، 407) (صحیح)»
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4835
فوائد ومسائل: قائد اور صاحبِ منصب کے لیئے خاص نبوی ہدایت یہ ہے کہ اپنے ماتحت افراد کے لیئے نرمی اور آسانی پیدا کرنے والا بنے۔ بے مقصد سختی مخالفت کا باعث بنتی ہے۔ جو نفرت لاتی ہے اور کسی بھی نظم اور اجتماعیت کے لیے سم قاتل ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4835
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4525
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے ساتھیوں میں کسی کو اپنے کسی کام کے لیے بھیجتے تو فرماتے: ”بشارت دو، نفرت نہ دلاؤ اور آسانی اور سہولت پیدا کرو اور تنگی پیدا نہ کرو۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4525]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ لوگوں کو اللہ کے فضل و کرم، نیک عمل پر عظیم اجر و ثواب اور اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کے ذریعہ دین پر عمل پیرا ہونے کا شوق اور رغبت دلانا چاہیے اور ہر وقت، اس کے غضب و مؤاخذہ اور جہنم کی دھمکی نہیں سنانی چاہیے، یعنی ایسا رویہ اختیار کرنا چاہیے کہ لوگوں کے دل میں ایمان کی محبت پیدا ہو، دین سے بیزاری اور نفرت پیدا نہ ہو کہ اس پر عمل کرنا بہت مشکل ہو، اس لیے دعوت و تبلیغ میں تدریج اور اہم بالاہم کو ملحوظ رکھ کر گناہوں سے باز رکھنے کی نرمی اور پیار کے ساتھ کوشش کرنا چاہیے، آغاز اور ابتدا میں ہی اگر نفرت پیدا ہو گئی تو پھر رخ پھیرنا مشکل ہو گا، اس لیے بچوں اور اسلام میں نئے نئے داخل ہونے والوں پر ابتدا ہی میں سختی کرنا، اسلام کے مزاج کے منافی ہے، آہستہ آہستہ تدریج کے ساتھ ان کے اندر ایمان اور عمل صالح کی محبت کو راسخ کریں، تاکہ وہ خود بخود برائیوں سے بچنے کی کوشش کریں، یہ معنی نہیں ہے کہ ان کو کسی حال میں بھی اللہ کے غضب اور پکڑ سے ڈرانا نہیں چاہیے، کیونکہ قرآن کے اندر، خود جنت کے ساتھ دوزخ کا تذکرہ، وعدہ کے ساتھ وعید کا ذکر ہے، عمل صالح کی ترغیب کے ساتھ برائیوں پر مواخذہ کو بیان کیا گیا ہے، مقصد یہ ہے کہ دین کو نفرت انگیز طریقہ سے نہ بیان کرو، اس طرح بیان کرو کہ لوگ راغب ہوں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4525
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4526
سعید بن ابی بردہ، اپنے باپ کے واسطہ سے اپنے دادا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اور معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کو یمن بھیجا تو فرمایا: ”آسانی پیدا کرنا اور تنگی پیدا نہ کرنا اور بشارت دینا اور نفرت پیدا نہ کرنا، باہمی اتفاق رکھنا اور آپس میں اختلاف نہ کرنا۔۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4526]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: سہولت و آسانی بشارت کا باعث بنتی ہے اور دقت و تنگی ونفرت پیدا کرتی ہے اور باہمی اتفاق و اتحاد لوگوں کو قریب کرتا ہے اور باہمی اختلاف انتشار لوگوں کو دور کرتا ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں جلیل القدر، صحابہ کو دین کی دعوت و تبلیغ اور اس کے مطابق لوگوں کے فیصلہ کرنے کی خاطر بھیجا تو ان کو تلقین فرمائی ہے کہ جاتے ہی مشکل اور دقت طلب کاموں کی دعوت نہ دینا، اور باہمی اتفاق و اتحاد سے رہنا، تاکہ تمہارے اختلاف سے لوگوں کے ذہنوں میں انتشار پیدا نہ ہو یا وہ اس سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4526
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3038
3038. حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت معاذ اور ابو موسیٰ ؓ کو یمن بھیجا تو (ان سے)فرمایا: ”لوگوں پر آسانی کرنا، ان پر سختی نہ کرنا، انھیں خوشخبری دینا اور نفرت نہ دلانا اور آپس میں ایک دوسرے کی موافقت کرنا باہم اختلاف نہ کرنا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3038]
حدیث حاشیہ: آیت مذکورہ فی الباب ایک ایسی کلیدی ہدایت پر مشتمل ہے جس پر پوری ملت کے تنزل و ترقی کا دار و مدار ہے۔ جب تک اس ہدایت پر عمل رہا‘ مسلمان دنیا پر حکمران رہے اور جب سے باہمی تنازع و افتراق شروع ہوا‘ امت کی قوت پارہ پارہ ہو کر رہ گئی۔ قرآن مجید کی بہت سی آیات اور احادیث نبوی کی بہت سی مرویات موجود ہیں‘ جن میں امت کو اتفاق باہمی کی تاکید کی گئی اور اتفاق و اتحاد اور مودت باہمی کے فوائد سے آگاہ کیا گیا ہے اور تنازع و افتراق کی خرابیوں سے خبر دی گئی ہے۔ خود آیت باب میں غیر معمولی تنبیہ موجود ہے کہ تنازع کا نتیجہ یہ ہے کہ تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور تم بزدل بن جاؤ گے۔ ہوا اکھڑنے کا مطلب ظاہر ہے کہ غیر اقوام کی نظروں میں بے وقعت ہو جاؤ گے اور جرأت و بہادری مفقود ہو کر تم پر بزدلی چھا جائے گی۔ دور حاضرہ میں عربوں کے باہمی تنازع کا نتیجہ سقوط بیت المقدس کی شکل میں موجود ہے کہ مٹھی بھر یہودی کروڑوں مسلمانوں کو نظر انداز کرکے مسجد اقصیٰ پر قابض بنے بیٹھے ہیں۔ حدیث معاذ کی ہدایات بھی بہت سے فوائد پر مشتمل ہیں۔ لوگوں کے لئے شرعی دائرہ کے اندر اندر ہر ممکن آسانی پیدا کرنا‘ سختی کے ہر پہلو سے بچنا‘ لوگوں کو خوش رکھنے کی کوشش کرنا‘ کوئی نفرت پیدا کرنے کا کام نہ کرنا‘ یہ وہ قیمتی ہدایات ہیں جو ہر عالم‘ مبلغ‘ خطیب‘ مدرس‘ مرشد‘ ہادی کے پیش نظر رہنی ضروری ہیں۔ ان علماء و مبلغین کے لئے بھی غور کا مقام ہے جو سختیوں اور نفرتوں کے پیکر ہیں۔ ھدام اللہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3038
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3038
3038. حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت معاذ اور ابو موسیٰ ؓ کو یمن بھیجا تو (ان سے)فرمایا: ”لوگوں پر آسانی کرنا، ان پر سختی نہ کرنا، انھیں خوشخبری دینا اور نفرت نہ دلانا اور آپس میں ایک دوسرے کی موافقت کرنا باہم اختلاف نہ کرنا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3038]
حدیث حاشیہ: رسول اللہ ﷺ اپنے حکام کو ہدایات دیتے تھے کہ وہ امور اختیار کریں جن میں لوگوں کے لیے آسانی ہو،ان کے لیے کسی قسم کی مشقت یا سختی کا پہلو نہ ہو۔ انھیں اچھی خبر دی جائیں جن سے ان کے حوصلے بلند ہوں اور ایسی باتیں نہ کی جائیں جن کی وجہ سے وہ باہمی نفرت کا شکار ہوجائیں،نیز ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کریں اور باہمی اختلاف سے بچیں کیونکہ اس سے افراتفری پھیلتی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3038
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7172
7172. سیدنا سعد بن ابو بردہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے اپنے باپ سے سنا،انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے میرے والد گرامی (ابو موسیٰ اشعری ؓ)اور معاذ بن جبل ؓ کو یمن بھیجا اور ان سے فرمایا: ”آسانی، پیدا کرنا تنگی نہ کرنا خوشخبری دینا، نفرت نہ دلانا اور آپس میں اتفاق پیدا کرنا۔“ آپ ﷺ سے سیدنا ابو موسیٰ اشعری نے پوچھا: ہمارے ملک میں شہد سے نبیذ (بتع) بنایا جاتا ہے یعنی اس کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔“ نضر ابو داود، یزید بن ہارون اور وکیع نے شعبہ سے، انہوں نے سعید سے، انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے ان کے دادا سے، انہوں نے نبی ﷺ سے یہی حدیث بیان کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7172]
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک روایت میں وضاحت ہے کہ ملک یمن دوحصوں میں تقسیم تھا،(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4341۔ 4342) بالائی حصے میں حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور نشیبی علاقے میں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تعینات کیا تھا۔ دونوں حضرات خیر سگالی کے طور پر ایک دوسرے کی ملاقات کے لیے آیا جایا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں تلقین فرمائی تھی کہ حکومتی معاملات میں ایک دوسرے سے اختلاف نہ کرنا بلکہ اتفاق واتحاد اور یکجہتی سے معاملات سرانجام دینا۔ اگرتمہارا اختلاف ہو جائے تو بحث وتمحیص سے درست رائے پر اتفاق کرلینا، بصورت دیگر حاکم اعلیٰ کے نوٹس میں لانا۔ 2۔ بہرحال اختلاف سے ہر ممکن طریقے سے بچنے کی ترغیب دی تاکہ لوگوں کو ان کے خلاف سر اٹھانے کی ہمت نہ ہو۔ (فتح الباري: 203/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7172