ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے نہیں معلوم کہ تبع قابل ملامت ہے یا نہیں، اور نہ مجھے یہ معلوم ہے کہ عزیر نبی ہیں یا نہیں ۱؎“۔
وضاحت: ۱؎: تبع کے بارے میں یہ فرمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس وقت کا ہے جب آپ کو اس کے بارے میں نہیں بتایا گیا تھا، بعد میں آپ کو بتا دیا گیا کہ وہ ایک مرد صالح تھے۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4674
فوائد ومسائل: 1: قوم سبا کا قبیلہ حمیر اپنے بادشاہ کو تبع کہتا تھا۔ یہ قوم تکذب انبیاء اور شرک کی وجہ سے ہلاک ہوئی تھی، جیسے کی سورہ دخان میں ان کا ذکر آیا ہے: (أَهُمْ خَيْرٌ أَمْ قَوْمُ تُبَّعٍ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ أَهْلَكْنَاهُمْ إِنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ) کیا یہ (مشرقین مکہ) بہترین ہیں یا قوم تنع اور جوان سے بھی پہلے تھے؟ ہم نے ان کو ہلاک کردیا، کیونکہ وہ مجرم تھے۔ اور سورہ ق میں ہے: (وَأَصْحَابُ الْأَيْكَةِ وَقَوْمُ تُبَّعٍ كُلٌّ كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِيدِ) ایکہ (بستی) والوں نے اور قوم تبع نے (ان) سب نے (ہمارے) رسولوں کی تکذیب کی (ان سب) پر میری وعید ثابت ہو گئی، رسول اللہ ؐکے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کےدن عنداللہ اچھائی یا برائی میں کون کس درجے کا ہو گا، اس پر کچھ نہیں کہا جا سکتا، نیز یہ کہ جن اشخاص کے بارے میں قرآن میں وضاحت نہیں ان کو اپنی طرف سے نبی کا قرار دینے کی کسی کو اجازت نہیں۔ ایک تبع کے متعلق آتا ہے کہ وہ مسلمان ہو گیا تھا، اسے برا نہ کہا جائے۔
2: مستدرک حاکم اورابن عساکروغیرہ کی روایات میں عزیر کی بجائے ذوالقرنین کا ذکر ہے، نہیں معلوم وہ نبی تھا یا نہیں۔ حضرت عزیرکے متعلق مشہور ہے کہ وہ نبی تھے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4674