(موقوف) حدثنا محمد بن كثير، حدثنا سفيان، حدثنا جامع بن ابي راشد، حدثنا ابو يعلى، عن محمد ابن الحنفية، قال:" قلت لابي اي الناس خير بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: ابو بكر، قال: قلت: ثم من؟ قال: ثم عمر، قال: ثم خشيت ان اقول: ثم من؟ فيقول: عثمان، فقلت: ثم انت يا ابة، قال: ما انا إلا رجل من المسلمين". (موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا جَامِعُ بْنُ أَبِي رَاشِدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو يَعْلَى، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ، قَالَ:" قُلْتُ لِأَبِي أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: أَبُو بَكْرٍ، قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ عُمَرُ، قَالَ: ثُمَّ خَشِيتُ أَنْ أَقُولَ: ثُمَّ مَنْ؟ فَيَقُولَ: عُثْمَانُ، فَقُلْتُ: ثُمَّ أَنْتَ يَا أَبَةِ، قَالَ: مَا أَنَا إِلَّا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ".
محمد بن حنفیہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون تھا؟ انہوں نے کہا: ابوبکر رضی اللہ عنہ، میں نے کہا: پھر کون؟ پھر عمر رضی اللہ عنہ، پھر مجھے اس بات سے ڈر ہوا کہ میں کہوں پھر کون؟ اور وہ کہیں عثمان رضی اللہ عنہ، چنانچہ میں نے کہا: پھر آپ؟ اے ابا جان! وہ بولے: میں تو مسلمانوں میں کا صرف ایک فرد ہوں ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ علی رضی اللہ عنہ کی غایت درجہ تواضع و انکساری ہے ورنہ باجماع امت آپ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے افضل ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فضائل الصحابة 5 (6371)، (تحفة الأشراف: 10266)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/المقدمة 11 (106) (صحیح)»
Muhammad bin al-Hanafiyyah said: I said to my father: Which of the people after the Messenger of Allah ﷺ is best? He replied: Abu Bakr. I then asked: Who comes next? He said: Umar. I was then afraid of asking him who came next, and he might mention Uthman, so I said: You came next, O my father? He said: I am only a man among the Muslims.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4612
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 4629
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مقام
تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے نزدیک خلیفۂ اول سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کا بہت بڑا مقام ہے۔
جیسا کہ صحیح روایات میں آیا ہے کہ سیدنا و مولانا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
نبی ﷺ کے بعد اس امت میں سب سے بہتر ابوبکر ہیں، پھر عمر ہیں۔ رضی اللہ عنہما
اس مفہوم اور الفاظ کے معمولی اختلاف والی روایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے درج ذیل راویوں نے بیان کی ہے:
1— محمد بن علی بن ابی طالب یعنی ابن الحنفیہ رحمہ اللہ [ثقہ عالم]
2— ابو جحیفہ وہب بن عبد اللہ الخیر السوائی رضی اللہ عنہ [صحابی]
3— عبد خیر بن یزید الہمدانی الکوفی رحمہ اللہ [ثقۃ، مخضرم من کبار التابعین]
4— عبد اللہ بن سلمہ المرادی الکوفی رحمہ اللہ [صدوق، تغیر حفظہ / حدث بہ قبل اختلاطہ]
5— عمرو بن حریث بن عمرو بن عثمان المخزومی رضی اللہ عنہ [صحابی]
6— علی بن ربیعہ بن نضلہ الوالبی الکوفی رحمہ اللہ [ثقۃ]
7— نزال بن سبرہ الہلالی الکوفی رحمہ اللہ [ثقۃ]
8— ابو الجعد رافع الغطفانی الاشجعی رحمہ اللہ [صدوق و ثقہ ابن حبان والامام مسلم وقیل: ھو صحابی]
9— ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ [صحابی]
اب ان روایات کی تفصیل درج ذیل ہے:
1— محمد بن علی بن ابی طالب رحمہ اللہ سے درج ذیل راویوں نے یہ روایت بیان کی ہے:
1: ابو یعلیٰ منذر بن یعلیٰ الثوری الکوفی رحمہ اللہ [ثقہ]
صحیح بخاری (3671 وسندہ صحیح) سنن ابی داود (4629 وسندہ صحیح) مصنف ابن ابی شیبہ (12/12 ح 31936) زوائد القطیعی علیٰ فضائل الصحابۃ لاحمد بن حنبل (ح 136، وسندہ صحیح)
صحیح بخاری میں اس روایت کا متن درج ذیل ہے:
محمد بن الحنفیہ نے کہا کہ میں نے اپنے والد (سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ) سے پوچھا: رسول اللہ ﷺ کے بعد لوگوں میں کون (سب سے) بہتر ہے؟ انھوں نے فرمایا: ابو بکر۔ میں نے کہا: پھر کون ہے؟ انھوں نے فرمایا: پھر عمر ہیں۔ (مع فتح الباری 20/7)
امام دارقطنی نے فرمایا: ”وھو صحیح عنہ“ اور وہ آپ سے صحیح (ثابت) ہے۔ (کتاب العلل 4/ 124 سوال 464)
2: ابو مکین نوح بن ربیعہ الانصاری البصری رحمہ اللہ [صدوق]
کتاب السنۃ لابن ابی عاصم (1204، نسخۃ محققۃ: 1238، وسندہ حسن)
2— ابو جحیفہ وہب بن عبد اللہ الخیر السوائی رحمہ اللہ سے درج ذیل راویوں نے یہ حدیث بیان کی ہے:
1: عامر بن شراحیل الشعبی رحمہ اللہ [ثقۃ مشھور فقیۃ فاضل]
زوائد مسند الامام احمد (1/ 110 ح 878 وسندہ صحیح، 106/1 ح 834 بسند آخر وسندہ حسن) مسند احمد (1/ 106 ح 135، وسندہ صحیح علیٰ شرط مسلم)
2: زربن حبیش الاسدی الکوفی رحمہ اللہ [ثقۃ جلیل مخضرم]
زوائد مسند احمد (1/ 106 ح 833 من حدیث عاصم بن ابی النجود عنہ وسندہ حسن، 1/ 110 ح 871 وسندہ حسن)
3: عون بن ابی جحیفہ رحمہ اللہ [ثقۃ]
زوائد مسند احمد (1/ 106 ح 837 وسندہ حسن) الغیلانیات (ح 72 بسند آخر وسندہ حسن، نسخۃ اخریٰ: 68) المخلصیات (2/ 98 ح 1119، وسندہ حسن)
4: حکم بن عتیبہ الکندی الکوفی رحمہ اللہ [ثقۃ ثبت فقیہ إلا أنہ ربما دلّس]
فضائل الصحابہ للامام احمد بن حنبل (44 وسندہ صحیح، الحکم بن عتیبہ صرح بالسماع) تاریخ دمشق (44/ 202 وسندہ صحیح)
5: عبد اللہ بن ابی السفر رحمہ اللہ [ثقۃ]
تاریخ دمشق لابن عساکر (44/ 202 وسندہ حسن)
3— عبد خیر بن یزید الہمدانی رحمہ اللہ سے درج ذیل راویوں نے یہ روایت بیان کی ہے:
1: المسیب بن عبد خیر رحمہ اللہ [ثقۃ]
زوائد مسند احمد (1/ 115 ح 926 وسندہ صحیح، 1/ 125 ح 1030)
2: خالد بن علقمہ ابو حیۃ الوادعی رحمہ اللہ [صدوق]
زوائد مسند احمد (1/ 125 ح 1031، وسندہ صحیح)
3: عبد الملک بن سلع الہمدانی رحمہ اللہ [صدوق]
کتاب الشریعۃ للآجری (5/ 2319 ح 1804، وسندہ حسن) مصنف ابن ابی شیبہ (571/14 ح 37042 وسندہ صحیح)
4: طلحہ بن مصرف بن عمرو بن کعب الیامی الکوفی (ثقۃ قارئ فاضل]
المخلصیات (3/ 339 ح 2663)
5: ابراہیم بن عبد الرحمن بن عوف [ثقۃ، رضی اللہ عنہ] (فضائل الصحابۃ، زیادات القطیعی: 533 وسندہ حسن)
4— عبد اللہ بن سلمہ المرادی رحمہ اللہ [صدوق حسن الحدیث وثقہ الجمہور] ”خیر الناس بعد رسول اللہ ﷺ أبو بکر و خیر الناس بعد أبي بکر عمر“
رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے بہتر ابو بکر ہیں اور ابو بکر کے بعد سب سے بہتر عمر ہیں۔ (سنن ابن ماجہ: 106، وسندہ حسن)
عبد اللہ بن سلمہ نے یہ حدیث اختلاط سے پہلے بیان کی۔ (دیکھئے مسند الحمیدی بتحقیقی: 57)
5— سیدنا عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ ”خیر ھذہ الأمۃ بعد نبیھا أبو بکر و عمر ……“
اس امت میں نبی (ﷺ) کے بعد سب سے بہتر ابو بکر اور عمر ہیں۔ (زوائد فضائل الصحابۃ: 397 وسندہ حسن، البحر الزخار 2/ 130 ح 488، المعجم الکبیر للطبرانی 1/ 107 ح 178)
6— علی بن ربیعہ الوالبی رحمہ اللہ ”إني لأعرف أخیار ھذہ الأمۃ بعد نبیھا: أبو بکر و عمر ……“ (فضائل الصحابۃ لاحمد بن حنبل: 428 وسندہ حسن، وقاء بن ایاس الاسدی و ثقہ الجمہور فھو حسن الحدیث)
7— نزال بن سبرہ رحمہ اللہ ”ألا أخبرکم بخیر ھذہ الأمۃ بعد نبیھا ثلاثۃ، ثم ذکر أبا بکر و عمر ……“ (زوائد فضائل الصحابۃ: 429 وسندہ حسن)
8— ابو الجعد رافع الغطفان الاشجعی رحمہ اللہ ”ألا أخبرکم بخیر الناس بعد نبیکم ﷺ: أبو بکر ثم عمر“ (التاریخ الکبیر للبخاری 3/ 306 ت 1039، وسندہ حسن)
9— سیدنا ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ ”ألا أخبر کم بخیر ھذہ الأمۃ بعد نبیھا ﷺ؟ …… أبو بکر رضي اللہ عنہ …… ثم قال …… عمر“ (المعجم الکبیر للطبرانی 1/ 107 ح 177، وسندہ حسن)
روایت مذکورہ میں سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے افضل ابو بکر پھر عمر رضی اللہ عنہما ہیں۔
ان روایات میں سے ایک روایت بھی ضعیف نہیں اور یہ سب روایات باہم مل کر متواتر کے درجے پر پہنچ گئی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے متواتر قرار دیا ہے۔ (دیکھئے الوصیۃ الکبریٰ ص 40 فقرہ: 62، نظم المتناثر من الحدیث المتواتر للکتانی ص 203 ح 227)
یعنی اہل سنت کے نزدیک یہ روایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے متواتر ہے۔
………… اصل مضمون …………
اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (جلد 6 صفحہ 51 تا 54) للشیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
تحقیقی و علمی مقالات للشیخ زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 4629
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4629
فوائد ومسائل: 1۔ اہل بیت کے افراد بھی اپنے طور پرحضرت ابوبکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی افضلیت اور مسلمانوں میں ان کی شہرت سے بخوبی آگاہ تھےاور اقراری بھی جیسے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے صراحت سے فرمایا۔ 2۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک متواضع شخصیت تھے۔ ان میں تکبر اور تعلی نہیں تھی۔ 3۔ تفضیل صحابہ کے حوالے سے فطری طور پر لوگوں میں ایک احساس موجود تھا۔ لیکن اس پر کوئی جھگڑا موجود نہ تھا۔ بعد میں فتنہ پروازوں نے اپنے مقاصد کے حصول اور مسلمانوں میں تفرقہ اور جدال پیدا کرنے کے لیے اس عقائد سے تعلق رکھنے والا ایک اہم نزاعی موضوع بنالیا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4629