سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابي داود تفصیلات

سنن ابي داود
کتاب: دیتوں کا بیان
Types of Blood-Wit (Kitab Al-Diyat)
8. باب الْقَسَامَةِ
8. باب: قسامہ کا بیان۔
Chapter: Al-Qasamah.
حدیث نمبر: 4520
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبيد الله بن عمر بن ميسرة، ومحمد بن عبيد المعنى، قالا: حدثنا حماد بن زيد، عن يحيى بن سعيد، عن بشير بن يسار، عن سهل بن ابي حثمة، ورافع بن خديج:" ان محيصة بن مسعود، وعبد الله بن سهل انطلقا قبل خيبر فتفرقا في النخل، فقتل عبد الله بن سهل فاتهموا اليهود، فجاء اخوه عبد الرحمن بن سهل، وابنا عمه حويصة ومحيصة فاتوا النبي صلى الله عليه وسلم، فتكلم عبد الرحمن في امر اخيه وهو اصغرهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الكبر الكبر، او قال: ليبدإ الاكبر، فتكلما في امر صاحبهما، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يقسم خمسون منكم على رجل منهم فيدفع برمته، قالوا: امر لم نشهده كيف نحلف؟ قال: فتبرئكم يهود بايمان خمسين منهم، قالوا: يا رسول الله قوم كفار، قال: فوداه رسول الله صلى الله عليه وسلم من قبله، قال سهل: دخلت مربدا لهم يوما فركضتني ناقة من تلك الإبل ركضة برجلها"، قال حماد هذا او نحوه، قال ابو داود: رواه بشر بن المفضل ومالك عن يحيى بن سعيد، قال فيه اتحلفون خمسين يمينا وتستحقون دم صاحبكم او قاتلكم، ولم يذكر بشر دما، وقال عبدة: عن يحيى، كما قال حماد، ورواه ابن عيينة عن يحيى، فبدا بقوله: تبرئكم يهود بخمسين يمينا يحلفون، ولم يذكر الاستحقاق، قال ابو داود: وهذا وهم من ابن عيينة.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بَشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ:" أَنَّ مُحَيِّصَةَ بْنَ مَسْعُودٍ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ انْطَلَقَا قِبَلَ خَيْبَرَ فَتَفَرَّقَا فِي النَّخْلِ، فَقُتِلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلٍ فَاتَّهَمُوا الْيَهُودَ، فَجَاءَ أَخُوهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ، وَابْنَا عَمِّهِ حُوَيِّصَةُ وَمُحَيِّصَةُ فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَكَلَّمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فِي أَمْرِ أَخِيهِ وَهُوَ أَصْغَرُهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْكُبْرَ الْكُبْرَ، أَوْ قَالَ: لِيَبْدَإِ الْأَكْبَرُ، فَتَكَلَّمَا فِي أَمْرِ صَاحِبِهِمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُقْسِمُ خَمْسُونَ مِنْكُمْ عَلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ فَيُدْفَعُ بِرُمَّتِهِ، قَالُوا: أَمْرٌ لَمْ نَشْهَدْهُ كَيْفَ نَحْلِفُ؟ قَالَ: فَتُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِأَيْمَانِ خَمْسِينَ مِنْهُمْ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَوْمٌ كُفَّارٌ، قَالَ: فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قِبَلِهِ، قَالَ سَهْلٌ: دَخَلْتُ مِرْبَدًا لَهُمْ يَوْمًا فَرَكَضَتْنِي نَاقَةٌ مِنْ تِلْكَ الْإِبِلِ رَكْضَةً بِرِجْلِهَا"، قَالَ حَمَّادٌ هَذَا أَوْ نَحْوَهُ، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ وَمَالِكٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ فِيهِ أَتَحْلِفُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا وَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ أَوْ قَاتِلِكُمْ، وَلَمْ يَذْكُرْ بِشْرٌ دَمًا، وقَالَ عَبْدَةُ: عَنْ يَحْيَى، كَمَا قَالَ حَمَّادٌ، وَرَوَاهُ ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ يَحْيَى، فَبَدَأَ بِقَوْلِهِ: تُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ يَمِينًا يَحْلِفُونَ، وَلَمْ يَذْكُرِ الِاسْتِحْقَاقَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذَا وَهْمٌ مِنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ.
سہل بن ابی حثمہ اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ محیصہ بن مسعود اور عبداللہ بن سہل دونوں خیبر کی طرف چلے اور کھجور کے درختوں میں (چلتے چلتے) دونوں ایک دوسرے سے علیحدہ ہو گئے، پھر عبداللہ بن سہل قتل کر دیے گئے، تو ان لوگوں نے یہودیوں پر تہمت لگائی، ان کے بھائی عبدالرحمٰن بن سہل اور ان کے چچازاد بھائی حویصہ اور محیصہ اکٹھا ہوئے اور وہ سب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، عبدالرحمٰن بن سہل جو ان میں سب سے چھوٹے تھے اپنے بھائی کے معاملے میں بولنے چلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بڑوں کا لحاظ کرو (اور انہیں گفتگو کا موقع دو) یا یوں فرمایا: بڑے کو پہلے بولنے دو چنانچہ ان دونوں (حویصہ اور محیصہ) نے اپنے عزیز کے سلسلے میں گفتگو کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے پچاس آدمی یہودیوں کے کسی آدمی پر قسم کھائیں تو اسے رسی سے باندھ کر تمہارے حوالے کر دیا جائے ان لوگوں نے کہا: یہ ایسا معاملہ ہے جسے ہم نے دیکھا نہیں ہے، پھر ہم کیسے قسم کھا لیں؟ آپ نے فرمایا: پھر یہود اپنے پچاس آدمیوں کی قسم کے ذریعہ خود کو تم سے بچا لیں گے وہ بولے: اللہ کے رسول! یہ کافر لوگ ہیں (ان کی قسموں کا کیا اعتبار؟) چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی طرف سے دیت دے دی، سہل کہتے ہیں: ایک دن میں ان کے شتر خانے میں گیا، تو ان اونٹوں میں سے ایک اونٹنی نے مجھے لات مار دی، حماد نے یہی کہا یا اس جیسی کوئی بات کہی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے بشر بن مفضل اور مالک نے یحییٰ بن سعید سے روایت کیا ہے اس میں ہے: کیا تم پچاس قسمیں کھا کر اپنے ساتھی کے خون، یا اپنے قاتل کے مستحق ہوتے ہو؟ البتہ بشر نے لفظ دم یعنی خون کا ذکر نہیں کیا ہے، اور عبدہ نے یحییٰ سے اسی طرح روایت کی ہے جیسے حماد نے کی ہے، اور اسے ابن عیینہ نے یحییٰ سے روایت کیا ہے، تو انہوں نے ابتداء «تبرئكم يهود بخمسين يمينا يحلفون» سے کی ہے اور استحقاق کا ذکر انہوں نے نہیں کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ ابن عیینہ کا وہم ہے۔

وضاحت:
۱؎: قسامہ یہ ہے کہ جب مقتول کی نعش کسی بستی یا محلہ میں ملے اور اس کا قاتل معلوم نہ ہو تو مقتول کے ورثہ کا جس پر گمان ہو اس پر پچاس قسمیں کھائیں کہ اس نے قتل کیا ہے اگر مقتول کے ورثہ قسم کھانے سے انکار کریں تو اہل محلہ میں سے جنہیں وہ اختیار کریں ان سے قسم لی جائے گی، اگر قسم کھا لیں تو ان پر کچھ مواخذہ نہیں، اور قسم نہ کھانے کی صورت میں وہ دیت دیں، اور اگر نہ مقتول کے ولی قسم کھائیں، اور نہ ہی بستی یا محلہ والے تو سرکاری خزانہ سے اس مقتول کی دیت ادا کی جائے گی، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الصلح 7 (2702)، الجزیة 12 (3173)، الأدب 89 (6143)، الدیات 22 (6898)، الأحکام 38 (7192)، صحیح مسلم/القسامة 1 (1669)، سنن الترمذی/الدیات 23 (1442)، سنن النسائی/القسامة 2 (4714)، سنن ابن ماجہ/الدیات 28 (2677)، (تحفة الأشراف: 4644، 15536)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/القسامة 1 (1)، مسند احمد (4/2، 3)، سنن الدارمی/الدیات 2 (2398) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Sahl bin Abi Hathmah and Rafi bin Khadij: Muhayyasah bin Masud and Abdullah bin Sahl came to Khaibar and parted (from each other) among palm trees. Abdullah bin Sahl was killed. The Jews were blamed (for the murder). Abdur-Rahman bin Sahl and Huwayyasah and Muhayyasah, the sons of his uncle (Masud) came to the Prophet ﷺ. Abdur-Rahman, who was the youngest, spoke about his brother, but the Messenger of Allah ﷺ said to him: (Respect) the elder, (respect) the elder or he said: Let the eldest begin. They then spoke about their friend and the Messenger of Allah ﷺ said: Fifty of you should take oaths regarding a man from them (the Jews) and he should be entrusted (to him) with his rope (in his neck). They said: It is a matter which we did not see. How can we take oaths ? He said: The Jews exonerate themselves by the oaths of fifty of them. They said: Messenger of Allah! they are a people who are infidels. So the Messenger of Allah ﷺ paid them bloodwit himself. Sahl said: Once I entered the resting place of their camels, and the she-camel struck me with her lef. Hammad said this or (something) similar to it. Abu Dawud said: Another version transmitted by Yahya bin Saeed has: Would you swear fifty oaths and make you claim regarding your friend or your slain man ? Bishr, the transmitter, did mention blood. Abdah transmitted it from Yahya as transmitted by Hammad. Ibn Uyainah has also transmitted it from Yahya, and began with his words: The Jew will exonerate themselves by fifty oaths which they will swear. He did not mention the claim. Abu Dawud said: This is a misunderstanding on the part of Ibn Uyainah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 40 , Number 4505


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (6143) صحيح مسلم (1669)

   صحيح البخاري6142تستحقون قتيلكم بأيمان خمسين منكم قالوا يا رسول الله أمر لم نره قال فتبرئكم يهود في أيمان خمسين منهم قالوا يا رسول الله قوم كفار فوداهم رسول الله من قبله قال سهل فأدركت ناقة من تلك الإبل فدخلت مربدا لهم فركضتني برجلها
   صحيح مسلم4342تحلفون خمسين يمينا فتستحقون صاحبكم أو قاتلكم قالوا وكيف نحلف ولم نشهد قال فتبرئكم يهود بخمسين يمينا قالوا وكيف نقبل أيمان قوم كفار فلما رأى ذلك رسول الله أعطى عقله
   صحيح مسلم4343يقسم خمسون منكم على رجل منهم فيدفع برمته قالوا أمر لم نشهده كيف نحلف قال فتبرئكم يهود بأيمان خمسين منهم
   جامع الترمذي1422تحلفون خمسين يمينا فتستحقون صاحبكم قالوا وكيف نحلف ولم نشهد قال فتبرئكم يهود بخمسين يمينا قالوا وكيف نقبل أيمان قوم كفار فلما رأى ذلك رسول الله أعطى عقله
   سنن أبي داود4520يقسم خمسون منكم على رجل منهم فيدفع برمته قالوا أمر لم نشهده كيف نحلف قال فتبرئكم يهود بأيمان خمسين منهم قالوا يا رسول الله قوم كفار قال فوداه رسول الله من قبله
   سنن النسائى الصغرى4717يقسم خمسون منكم فقالوا يا رسول الله أمر لم نشهده كيف نحلف قال فتبرئكم يهود بأيمان خمسين منهم قالوا يا رسول الله قوم كفار فوداه رسول الله من قبله
   سنن النسائى الصغرى4716تحلفون خمسين يمينا وتستحقون صاحبكم أو قاتلكم قالوا كيف نحلف ولم نشهد قال فتبرئكم يهود بخمسين يمينا قالوا وكيف نقبل أيمان قوم كفار فلما رأى ذلك رسول الله أعطاه عقله

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4520 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4520  
فوائد ومسائل:
قسامہ قسم سے ماخوذ ہے اور تکرار کے ساتھ قسمیں اٹھانے کے معنی میں ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب کہیں کوئی قتل ہو جائے اور اس قاتل کا علم نہ ہو اور نہ کوئی گواہی موجود ہو، مگر مقتول کے وارث کسی شخص یا اشخاص پر قتل کا دعوی رکھتے ہوں اور اس کے کچھ قرائن بھی موجود ہوں، مثلا ان لوگوں کے مابین دشمنی ہو یا ان کے علاقے میں قتل ہواہو یا کسی کے پاس سے مقتول کا سامان ملے یا اس قسم کی دیگر علامات موجود ہوں تو مدعی لوگ پہلے پچاس قسمیں کھائیں فلاں شخص یا افراد ہمارے آدمی کے قاتل ہیں۔
اس طرح ان کا دعوی ثابت ہو گا، اگر مدعی لوگ قسمیں نہ کھائیں تو مدعاعلیہ پچاس قسمیں کھا کر برمی ہو جائیں گے۔
اگر معاملہ واضح نہ ہو سکے تو بیت المال سے اس مقتول کی دیت ادا کی جائےگی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4520   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4716  
´اس سلسلے میں سہل کی حدیث کے ناقلین کے الفاظ میں اختلاف کا ذکر۔`
سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل بن زید اور محیصہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نکلے، جب خیبر پہنچے تو کسی مقام پر وہ الگ الگ ہو گئے، پھر اچانک محیصہ کو عبداللہ بن سہل مقتول ملے، انہوں نے عبداللہ کو دفن کیا، پھر وہ، حویصہ بن مسعود اور عبدالرحمٰن بن سہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، عبدالرحمٰن ان میں سب سے چھوٹے تھے، پھر اپنے دونوں ساتھیوں سے پہلے عبدالرحمٰن بولنے ل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4716]
اردو حاشہ:
دیت دے دی بے گناہ مسلمان مقتول کا خوان رائیگاں نہیں ہوتا، اس لیے آپ نے بیت المال سے دیت ادا فرما دی۔ اس طرح جھگڑا ختم ہوگیا۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی کامل بصیرت اور معاملہ فہمی تھی ورنہ وہ دیت کے حق دار نہیں تھے کیونکہ وہ خود قسمیں کھانے کے لیے تیار نہیں تھے اور مدعی علیہم کی قسموں کو مانتے نہ تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4716   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1422  
´قسامہ کا بیان۔`
سہل بن ابو حثمہ اور رافع بن خدیج رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل بن زید اور محیصہ بن مسعود بن زید رضی الله عنہما کہیں جانے کے لیے گھر سے روانہ ہوئے، جب وہ خیبر پہنچے تو الگ الگ راستوں پر ہو گئے، پھر محیصہ نے عبداللہ بن سہل کو مقتول پایا، کسی نے ان کو قتل کر دیا تھا، آپ نے انہیں دفنا دیا، پھر وہ (یعنی راوی حدیث) حویصہ بن مسعود اور عبدالرحمٰن بن سہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، عبدالرحمٰن بن سہل ان میں سب سے چھوٹے تھے، وہ اپنے دونوں ساتھیوں سے پہلے (اس معاملہ میں آپ سے) گفتگو کرنا چاہتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الديات/حدیث: 1422]
اردو حاشہ:
وضاخت:


1؎:
بیت المال سے یا اپنے پاس سے ادا کر دی۔
 
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1422   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4342  
حضرت سہل بن ابی حثمہ اور حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن سھل ابن زید اور محیصہ بن مسعود بن زید مدینہ سے نکلے اور خیبر پر پہنچ کر الگ الگ ہو گئے، پھر بعد میں محیصہ نے عبداللہ بن سہل کو مقتول حالت میں پایا، اور اسے دفن کر دیا، پھر وہ، حویصہ بن مسعود اور عبدالرحمٰن بن سہل رضی اللہ تعالی عنہما کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور (مقتول کا بھائی عبدالرحمٰن) تینوں میں سے چھوٹا تھا۔ تو عبدالرحمٰن نے اپنے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4342]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
قسامة،
بقول قاضی عیاض،
حدیث قسامہ،
شریعت کے اصولوں میں سے ایک اصل ہے،
اور احکام کے ضابطوں میں سے ایک قاعدہ ہے،
اور بندوں کے مصالح کے ارکان میں سے ایک رکن ہے،
جسے تمام ائمہ،
صحابہ و تابعین،
اور فقہائے امصار نے قبول کیا ہے،
ائمہ اربعہ میں سے کسی نے اس کا انکار نہیں کیا،
ہاں بعض تابعین جیسے حکم بن عتیبہ،
ابو قلابہ،
سالم بن عبداللہ،
سلیمان بن یسار اور قتادہ سے قسامہ کا انکار منقول ہے،
حضرت عمر بن عبدالعزیز اور امام بخاری کی طرف سے بھی قاضی عیاض نے اس میلان کی تصریح کی ہے،
جبکہ امام بخاری کا باب القسامہ قائم کرنا اور اس میں عمر بن عبدالعزیز کا واقعہ بیان کرنا ثابت کرتا ہے کہ وہ قسامہ کے منکر نہیں تھے،
بلکہ قسامہ میں دیت لینے میں بقول حافظ ابن حجر،
امام شافعی،
کے ہمنوا تھے۔
(فتح الباری،
ج 12،
ص 297)

اور قسمیں لینے میں احناف کے ہمنوا تھے،
کہ قسمیں مدعی علیہم سے لی جائیں گی۔
(ج 12،
ص 298)

بقول مولانا زکریا،
احناف کے ہمنوا تھے،
کیونکہ احناف کے نزدیک قسامہ کی صورت میں،
قسمیں مدعی علیہ کو پڑیں گی،
اور اسے ہر صورت میں دیت ادا کرنا ہو گی،
قسامہ کے سلسلہ میں ائمہ میں،
اس کی تفصیلات میں بہت اختلافات ہیں،
اس لیے ہم صرف خلاصہ پیش کرتے ہیں:
(الف)
شوافع کے نزدیک،
اگر مقتول کسی فرد یا افراد کی مملوکہ زمین میں ملتا ہے،
کسی جنگل اور بیابان میں نہیں،
لیکن اس کے قاتل کا پتہ نہیں چلتا،
لیکن مقتول کے ورثاء کسی محلہ یا بستی کے کسی فرد معین یا معین افراد پر کسی ایسے قرینہ ثبوت (دشمنی و عناد)
کی بناء پر،
جس پر اعتماد و یقین کرنے کا امکان ہو،
شبہ کا اظہار کریں،
تو پھر قاضی ورثائے مقتول کی بات تسلیم کر کے مدعی یعنی اولیائے مقتول سے پچاس قسمیں لے گا،
جس میں وہ قاتل کا تعین کریں گے،
اور قتل کی نوعیت کو عمد ہے یا شبہ عمد یا خطا اس کی بھی وضاحت کریں گے،
اور اس کے مطابق مدعی علیہ سے قصاص یا دیت وصول کریں گے،
اور اگر اولیائے مقتول قسم اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوں،
تو پھر مدعی علیہم قسم اٹھائیں گے اور بری الذمہ ہو جائیں گے،
اگر اولیائے مقتول کے پاس ثبوت یعنی قرینہ قتل نہ ہو یعنی باہمی دشمنی عناد وغیرہ نہ ہو،
تو پھر مدعی کو بینہ پیش کرنا ہو گی یا مدعی علیہم سے قسمیں لی جائیں گی،
کہ میں نے یا ہم نے قتل نہیں کیا،
اور نہ مجھے یا ہمیں قاتل کا علم ہے،
اس طرح وہ بری الذمہ ہو جائیں گے،
اگر مدعی علیہم قسمیں نہ اٹھائیں،
تو پھر اولیائے مقتول قسمیں اٹھا کر دیت کے حقدار ہوں گے،
وگرنہ نہیں،
مالکیہ اور حنابلہ کا موقف بھی شوافع والا ہے،
لیکن بعض تفصیلات میں فرق ہے،
مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک قرینہ کی صورت میں مدعی علیہم پچاس قسمیں ہر صورت میں اٹھائیں گے،
جب اولیائے مقتول قسم نہ اٹھائیں،
اگر قرینہ نہ ہو تو مدعی علیہم ایک ہی قسم اٹھائے گا،
اگر مدعی علیہ قسم نہ اٹھائیں تو شوافع کے نزدیک اولیائے مقتول کو دوبارہ قسم اٹھانے کے لیے آمادہ کریں گے،
مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک ایسا نہیں ہو گا،
مالکیہ کے نزدیک ایسی صورت میں مدعی علیہ کو قید کیا جائے گا،
حتی کہ وہ قسم اٹھائے،
یا اقرار کرے یا پھر قید ہی میں مر جائے،
اور حنابلہ کے نزدیک ایک روایت کے مطابق دیت بیت المال سے ادا کی جائے گی،
اور دوسری روایت کی رو سے جسے ابن قدامہ نے ترجیح دی ہے،
دیت مدعی علیہ پر ہو گی۔
(ب)
ائمہ حجاز اور ائمہ احناف میں فرق۔
۔
۔
(1)
ائمہ احناف کے نزدیک پہلے قسمیں اٹھانے کا حکم مدعی علیہم کو دیا جائے گا،
اور ائمہ حجاز کے نزدیک اگر بینہ نہ ہو تو پھر قسمیں اٹھانے کا حکم پہلے اولیائے مقتول پر پیش کیا جائے گا،
اگر وہ انکار کریں،
تو پھر مدعی علیہ کو قسمیں اٹھانے کے لیے کہا جائے گا۔
(2)
ائمہ حجاز کے نزدیک دعویٰ قتل ایک معین فرد یا معین افراد کے خلاف ہو گا،
بلا تعین دعویٰ مسموع نہیں ہو گا اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک بلا تعین کسی اہل محلہ کے خلاف دعویٰ ہو سکتا ہے۔
(3)
حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک مدعی علیہم کے ذمہ،
صرف دیت ہے،
جو احناف کے نزدیک ہر صورت میں مدعی علیہ کے ذمہ ہے،
جبکہ شوافع کے نزدیک بعض صورتوں میں وہ بری الذمہ ہوں گے،
اور مالکیہ کے نزدیک قرینہ کی صورت میں،
جب قتل عمد ہو،
تو مدعی علیہ کے ذمہ قصاص ہو گا،
اور بقول علامہ عبدالقادر عودہ شہید،
قسامہ کو انسانی جان کی حفاظت و صیانت کے لیے مقرر کیا گیا ہے،
کیونکہ شریعت اسلامیہ کی شدید خواہش ہے کہ انسان کا خون رائیگاں نہ جائے اور قتل کرنے والا بعض دفعہ ایسی جگہ کا انتخاب کرتا ہے جہاں کوئی اسے دیکھ نہ سکے،
اور اس کے خلاف کوئی شہادت قائم نہ ہو سکے،
اس لیے اسلامی شریعت نے انسان کی جان کی اہمیت و حفاظت کی خاطر قسامت کا قانون مقرر کیا،
اگر حدود و قصاص والی تمام شروط کا استیفا ضروری ٹھہرایا جائے،
تو بکثرت قاتل سزا سے بچ جائیں گے،
اور لوگوں کے خون و جان محفوظ نہیں رہے گے،
لیکن اس مسئلہ کی تفصیلات میں چونکہ علمائے امت میں بہت اختلافات ہیں،
اس لیے روح شریعت اور مقاصد شریعت کو ملحوظ رکھتے ہوئے،
ائمہ کے اقوال کی روشنی میں،
نصوص شریعت کو سامنے رکھتے ہوئے،
موجودہ ظروف و احوال کے مطابق،
لوگوں کے خون و جان کی حفاظت کی خاطر،
مناسب قانون سازی کی جا سکتی ہے۔
(قسامہ کی تفصیلات کے لیے دیکھئے،
المغنی،
ج 12،
ص 188 تا 205،
باب القسامہ،
تکملہ،
ج 2 ص 275 تا 289،
القسامہ فی الفقہ الاسلامی محمد شمس مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4342   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4343  
حضرت سہل ابن ابی حثمہ اور حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ محیصہ بن مسعود اور عبداللہ بن سہل خیبر کی طرف گئے، اور کھجوروں میں بکھر گئے، عبداللہ بن سہل کو قتل کر دیا گیا، اور الزام یہود پر لگایا گیا، تو اس کا بھائی عبدالرحمٰن اور اس کے دو چچا زاد حویصہ اور محیصہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، عبدالرحمٰن نے جو تینوں میں سے چھوٹے تھے، اپنے بھائی کے واقعہ کے بارے میں گفتگو کرنا چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4343]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
رمة:
رسی جس سے قاتل باندھ کر اولیائے مقتول کے حوالہ کیا جاتا ہے۔
(2)
مربد:
باڑہ جہاں اونٹ باندھے جاتے ہیں۔
فوائد ومسائل:
بخاری شریف کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ نے پہلے بینہ پیش کرنے کے لیے کہا،
جب انہوں نے اس سے انکار کیا،
تو پھر قسمیں اٹھانے کے لیے کہا،
اس لیے بعض روایات میں بینہ پیش کرنے کا حکم ہے،
قسمیں اٹھانے کی پیشکش کا تذکرہ نہیں ہے،
اور بعض میں قسمیں اٹھانے کا ذکر ہے،
بینہ کا مطالبہ نہیں ہے،
اس لیے صحیح بات یہی ہے کہ اگر بینہ نہ ہو تو پھر قسمیں اٹھانے کا حق بھی پہلے اولیائے مقتول کو حاصل ہو گا۔
انکار کرنے پر مدعی علیہ فرد یا گروہ سے قسمیں لی جائیں گی۔
(فتح الباري،
ج 12،
ص 291)

شافعیہ،
مالکیہ،
حنابلہ،
ربیعہ،
ابو زناد،
لیث اور داود کا یہی نظریہ ہے۔
(القسامہ،
ص 85)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4343   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6142  
6142. حضرت رافع بن خدیج اور حضرت سہل بن ابی حشمہ ؓ سے روایت ہے ان دونوں نے کہا کہ عبداللہ بن سہل ؓ اور محیصہ بن مسعود ؓ خیبر میں آئے اور کھجوروں کے باغ میں جدا جدا ہو گئے۔ وہاں حضرت عبداللہ بن سہل ؓ کو قتل کر دیا گیا۔ پھر عبدالرحمن بن سہل ؓ اور مسعود کے دونوں بیٹے حویصیہ اور محیصہ ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے ساتھی کے متعلق گفتگو کرنے لگے۔ عبدالرحمن ؓ نے پہلے بات کرنا چاہی اور وہ سب سے چھوٹے تھے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: بڑے کو بات کرنے دو۔ مقصد یہ ہے کہ جو بڑا ہے وہ بات کرے۔ پھر انہوں نے اپنے ساتھی کے قتل کے متعلق بات کی تو نبی ﷺ نے فرمایا: اگر تم میں سے پچاس آدمی قسم اٹھالیں تو تم دیت کے مستحق ہوسکتے ہو؟ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم نے خود تو اس معاملے کو نہیں دیکھا۔ آپ ﷺ نے اپنی طرف سے دیت ادا کر دی۔ حضرت سہل ؓ کہتے ہیں کہ میں نے ان اونٹوں میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6142]
حدیث حاشیہ:
حدیث میں قسامت کا ذکر ہے جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔
کسی مقتول سے متعلق عینی شہادت نہ ہو تو اس کی قوم کے پچاس آدمی اپنے خیال میں قاتل کا نام لے کر قسمیں کھائیں گے کہ واللہ وہی قاتل ہے تو وہ دیت کے حق دار ہوجائیں گے، یہی قسامت ہے۔
حدیث میں ہرامر میں بڑوں کو مقدم رکھنے کا حکم ہے، باب سے یہی تعلق ہے۔
شریعت اسلامی میں قتل ناحق کا معاملہ کتنا اہم ہے اس سے یہی ظاہر ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6142   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6142  
6142. حضرت رافع بن خدیج اور حضرت سہل بن ابی حشمہ ؓ سے روایت ہے ان دونوں نے کہا کہ عبداللہ بن سہل ؓ اور محیصہ بن مسعود ؓ خیبر میں آئے اور کھجوروں کے باغ میں جدا جدا ہو گئے۔ وہاں حضرت عبداللہ بن سہل ؓ کو قتل کر دیا گیا۔ پھر عبدالرحمن بن سہل ؓ اور مسعود کے دونوں بیٹے حویصیہ اور محیصہ ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے ساتھی کے متعلق گفتگو کرنے لگے۔ عبدالرحمن ؓ نے پہلے بات کرنا چاہی اور وہ سب سے چھوٹے تھے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: بڑے کو بات کرنے دو۔ مقصد یہ ہے کہ جو بڑا ہے وہ بات کرے۔ پھر انہوں نے اپنے ساتھی کے قتل کے متعلق بات کی تو نبی ﷺ نے فرمایا: اگر تم میں سے پچاس آدمی قسم اٹھالیں تو تم دیت کے مستحق ہوسکتے ہو؟ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم نے خود تو اس معاملے کو نہیں دیکھا۔ آپ ﷺ نے اپنی طرف سے دیت ادا کر دی۔ حضرت سہل ؓ کہتے ہیں کہ میں نے ان اونٹوں میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6142]
حدیث حاشیہ:
(1)
کسی مقتول کے متعلق عینی گواہ موجود نہ ہو تو اس کی قوم کے پچاس آدمی گواہی دیں کہ اس کا قاتل فلاں شخص ہے تو وہ دیت کے حق دار ہو سکتے ہیں، یہی قسامت ہے۔
اس کی وضاحت پہلے ہو چکی ہے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے بڑے کا اکرام ثابت کیا ہے کہ اسے بات کرنے کا موقع دینا چاہیے، چنا نچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر میں بڑے آدمی کو اس لیے گفتگو کرنے کا حکم دیا کہ واقعے کی پوری طرح صورت و کیفیت واضح ہو جائے بصورت دیگر اصل دعوے دار تو مقتول کے بھائی حضرت عبدالرحمٰن تھے لیکن وہ عمر میں چھوٹے تھے۔
بہرحال ہر معاملے میں بڑوں کو مقدم رکھنے کا حکم ہے ہاں، اگر چھوٹے کے پاس ایسی معلومات ہوں جو بڑوں کے پاس نہیں ہیں تو اسے بات کرنے کا سب سے پہلے موقع دیا جائے گا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6142   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.