(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي، حدثنا عبد الرزاق، عن ابن جريج، قال: اخبرني ابو الزبير، ان عبد الرحمن بن الصامت ابن عم ابي هريرة اخبره، انه سمع ابا هريرة، يقول:" جاء الاسلمي إلى نبي الله صلى الله عليه وسلم فشهد على نفسه انه اصاب امراة حراما اربع مرات كل ذلك يعرض عنه النبي صلى الله عليه وسلم، فاقبل في الخامسة، فقال: انكتها؟ قال: نعم، قال: حتى غاب ذلك منك في ذلك منها؟ قال: نعم، قال: كما يغيب المرود في المكحلة والرشاء في البئر؟ قال: نعم، قال: فهل تدري ما الزنا؟ قال: نعم اتيت منها حراما ما ياتي الرجل من امراته حلالا، قال: فما تريد بهذا القول؟ قال: اريد ان تطهرني، فامر به فرجم، فسمع النبي صلى الله عليه وسلم رجلين من اصحابه، يقول احدهما لصاحبه: انظر إلى هذا الذي ستر الله عليه فلم تدعه نفسه حتى رجم رجم الكلب، فسكت عنهما ثم سار ساعة حتى مر بجيفة حمار شائل برجله، فقال: اين فلان وفلان؟ فقالا: نحن ذان يا رسول الله، قال: انزلا فكلا من جيفة هذا الحمار، فقالا: يا نبي الله من ياكل من هذا؟ قال: فما نلتما من عرض اخيكما آنفا اشد من اكل منه، والذي نفسي بيده إنه الآن لفي انهار الجنة ينقمس فيها". (مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الصَّامِتِ ابْنَ عَمِّ أَبِي هُرَيْرَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ:" جَاءَ الْأَسْلَمِيُّ إِلَى نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَهِدَ عَلَى نَفْسِهِ أَنَّهُ أَصَابَ امْرَأَةً حَرَامًا أَرْبَعَ مَرَّاتٍ كُلُّ ذَلِكَ يُعْرِضُ عَنْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقْبَلَ فِي الْخَامِسَةِ، فَقَالَ: أَنِكْتَهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: حَتَّى غَابَ ذَلِكَ مِنْكَ فِي ذَلِكَ مِنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: كَمَا يَغِيبُ الْمِرْوَدُ فِي الْمُكْحُلَةِ وَالرِّشَاءُ فِي الْبِئْرِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَهَلْ تَدْرِي مَا الزِّنَا؟ قَالَ: نَعَمْ أَتَيْتُ مِنْهَا حَرَامًا مَا يَأْتِي الرَّجُلُ مِنَ امْرَأَتِهِ حَلَالًا، قَالَ: فَمَا تُرِيدُ بِهَذَا الْقَوْلِ؟ قَالَ: أُرِيدُ أَنْ تُطَهِّرَنِي، فَأَمَرَ بِهِ فَرُجِمَ، فَسَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلَيْنِ مِنْ أَصْحَابِهِ، يَقُولُ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: انْظُرْ إِلَى هَذَا الَّذِي سَتَرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فَلَمْ تَدَعْهُ نَفْسُهُ حَتَّى رُجِمَ رَجْمَ الْكَلْبِ، فَسَكَتَ عَنْهُمَا ثُمَّ سَارَ سَاعَةً حَتَّى مَرَّ بِجِيفَةِ حِمَارٍ شَائِلٍ بِرِجْلِهِ، فَقَالَ: أَيْنَ فُلَانٌ وَفُلَانٌ؟ فَقَالَا: نَحْنُ ذَانِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: انْزِلَا فَكُلَا مِنْ جِيفَةِ هَذَا الْحِمَارِ، فَقَالَا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ مَنْ يَأْكُلُ مِنْ هَذَا؟ قَالَ: فَمَا نِلْتُمَا مِنْ عِرْضِ أَخِيكُمَا آنِفًا أَشَدُّ مِنْ أَكْلٍ مِنْهُ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّهُ الْآنَ لَفِي أَنْهَارِ الْجَنَّةِ يَنْقَمِسُ فِيهَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ اسلم کا ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے اپنے خلاف چار بار گواہی دی کہ اس نے ایک عورت سے جو اس کے لیے حرام تھی زنا کر لیا ہے، ہر بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا منہ اس کی طرف سے پھیر لیتے تھے، پانچویں بار آپ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”کیا تم نے اس سے جماع کیا ہے؟“ اس نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا عضو اس کے عضو میں غائب ہو گیا“ بولا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسے ہی جیسے سلائی سرمہ دانی میں، اور رسی کنویں میں داخل ہو جاتی ہے“ اس نے کہا: ہاں ایسے ہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھے معلوم ہے زنا کیا ہے؟“ اس نے کہا: ہاں، میں نے اس سے حرام طور پر وہ کام کیا ہے، جو آدمی اپنی بیوی سے حلال طور پر کرتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”اچھا، اب تیرا اس سے کیا مطلب ہے؟“ اس نے کہا: میں چاہتا ہوں آپ مجھے گناہ سے پاک کر دیجئیے، پھر آپ نے حکم دیا تو وہ رجم کر دیا گیا، پھر آپ نے اس کے ساتھیوں میں سے دو شخصوں کو یہ کہتے سنا کہ اس شخص کو دیکھو، اللہ نے اس کی ستر پوشی کی، لیکن یہ خود اپنے آپ کو نہیں بچا سکا یہاں تک کہ پتھروں سے اسی طرح مارا گیا جیسے کتا مارا جاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر خاموش رہے، اور تھوڑی دیر چلتے رہے، یہاں تک کہ ایک مرے ہوئے گدھے کی لاش پر سے گزرے جس کے پاؤں اٹھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فلاں اور فلاں کہاں ہیں؟“ وہ دونوں بولے: ہم حاضر ہیں اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اترو اور اس گدھے کا گوشت کھاؤ“ ان دونوں نے کہا: اللہ کے رسول! اس کا گوشت کون کھائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے ابھی جو اپنے بھائی کی عیب جوئی کی ہے وہ اس کے کھانے سے زیادہ سخت ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ اس وقت جنت کی نہروں میں غوطے کھا رہا ہے“۔
Narrated Abu Hurairah: A man of the tribe of Aslam came to the Prophet ﷺ and testified four times against himself that he had had illicit intercourse with a woman, while all the time the Prophet ﷺ was turning away from him. Then when he confessed a fifth time, he turned round and asked: Did you have intercourse with her? He replied: Yes. He asked: Have you done it so that your sexual organ penetrated hers? He replied: Yes. He asked: Have you done it like a collyrium stick when enclosed in its case and a rope in a well? He replied: Yes. He asked: Do you know what fornication is? He replied: Yes. I have done with her unlawfully what a man may lawfully do with his wife. He then asked: What do you want from what you have said? He said: I want you to purify me. So he gave orders regarding him and he was stoned to death. Then the Prophet ﷺ heard one of his companions saying to another: Look at this man whose fault was concealed by Allah but who would not leave the matter alone, so that he was stoned like a dog. He said nothing to them but walked on for a time till he came to the corpse of an ass with its legs in the air. He asked: Where are so and so? They said: Here we are, Messenger of Allah ﷺ! He said: Go down and eat some of this ass's corpse. They replied: Messenger of Allah! Who can eat any of this? He said: The dishonour you have just shown to your brother is more serious than eating some of it. By Him in Whose hand my soul is, he is now among the rivers of Paradise and plunging into them.
USC-MSA web (English) Reference: Book 39 , Number 4414
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (3627) عبد الرزاق صرح بالسماع عند ابن الجارود (814)
أنكتها قال نعم قال حتى غاب ذلك منك في ذلك منها قال نعم قال كما يغيب المرود في المكحلة والرشاء في البئر قال نعم قال فهل تدري ما الزنا قال نعم أتيت منها حراما ما يأتي الرجل من امرأته حلالا قال فما تريد بهذا القول قال أريد أن تطهرني
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4428
فوائد ومسائل: قرآن مجید میں اللہ تعالی نے بھی غیبت کرنے کو مسلمان مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیاہے۔ (سورة حجرات: 12) اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہےکہ غیبت کرنا کتنا قبیح فعل ہے۔ اور اگلی احادیث میں آرہا ہے کہ نبی ﷺ نے سزا یافتہ کو خیر اور اچھے الفاظ کے ساتھ یاد فرمایا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4428
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2554
´زانی کو رجم کرنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور کہا: میں نے زنا کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا، انہوں نے پھر کہا: میں نے زنا کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر منہ پھیر لیا، انہوں نے پھر کہا: میں نے زنا کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر منہ پھیر لیا، انہوں نے پھر کہا: میں نے زنا کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر منہ پھیر لیا یہاں تک کہ چار بار زنا کا اقرار کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ انہیں رجم کر دیا جائے، چنانچہ جب ان پر پتھر پڑے تو و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2554]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اقرارسے زنا کا جرم ثابت ہوجاتا ہے۔
(2) جرم کی سزا دینے کے لیے ضروری ہے کہ جرم کے ارتکاب کا علم ہو جائے اور کسی قسم کا شبہ نہ رہے۔ نبی اکرمﷺ نے اس شخص سے پوچھا تھا: کیا تجھے جنون کی شکایت تو نہیں۔ (صیحح البخاري، الحدود، باب لایرجم المجنون والمجنونة حدیث: 6815) اس کے علاوہ اس سے پوچھا تھا: شاید تونے بوسہ لیا ہو یا ہاتھ لگایا ہو یا (بری نیت سے) دیکھا ہو (اورتو اسے زنا کہہ کر زنا کی سزا کا مطالبہ کررہا ہو) ۔ اس نے کہا نہیں اے اللہ کے رسول: (صیحح البخاري، الحدود، باب ھل یقول الأمام للمقر: لعلک لمست أوغمزت، حدیث: 6824)
(3) اس واقعہ سے حضرت ماعزبن مالک کی عظمت ظاہر ہوتی ہے کہ انھوں نے محض اللہ کے ڈرسے حد کے ذریعے جان دینا قبول کی۔
(4) ضرورت کے موقع پر ایسے الفاظ کہنا جائز ہے جنھیں عام حالات میں حیا کے منافی سمجھا جاتا ہے۔
(5) حدود کانفاذ مسجد سےباہر کرنا چاہیے۔
(6) جوشخص خود اپنے جرم کا اقرتر کرے اگر وہ اس کے بعد اقرارسے منحرف ہو جائے تو اسے سزا نہیں دی جائے گی۔ اس واقعہ سے امام ترمذی نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے۔ (جامع ترمذي، الحدود، باب ما جاء فی درءالحد عن المعترف إذا رجع، حدیث: 1428)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2554