عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے بعد تمہارے اوپر ایسے حکمران مسلط ہوں گے جنہیں وقت پر نماز پڑھنے سے بہت سی چیزیں غافل کر دیں گی یہاں تک کہ اس کا وقت ختم ہو جائے گا، لہٰذا تم وقت پر نماز پڑھ لیا کرنا“، ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ان کے ساتھ بھی پڑھ لیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں اگر تم چاہو“۔ سفیان نے (اپنی روایت میں) یوں کہا ہے: ”اگر میں نماز ان کے ساتھ پاؤں تو ان کے ساتھ (بھی) پڑھ لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، تم ان کے ساتھ (بھی) پڑھ لو اگر تم چاہو“۔
وضاحت: یعنی اگر کوئی متبع سنت اپنی انفرادیت قائم رکھ سکتا ہو اور ایسے لوگوں پر حجت قائم کرتے ہوئے ان کے ساتھ شریک نہ ہوتا ہو تو جائز ہے اور اگر مل کر دوبارہ پڑھے تو بھی کوئی حرج نہیں دوسری نماز نفل ہو گی جیسے کہ پہلی احادیث میں گزرا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الصلاة 151 (1257)، (تحفة الأشراف: 5097)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/315، 329) (صحیح)»
Narrated Ubadah ibn as-Samit: After me you will come under rulers who will be detained from saying prayer at its proper time by (their) works until its time has run out, so offer prayer at its proper time. A man asked him: Messenger of Allah, may I offer prayer with them? He replied: Yes, if you wish (to do so). Sufyan (another narrator through a different chain)said: May I offer prayer with them if I get it with them? He said: Yes, if you wish to do so.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 433
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مشكوة المصابيح (621) أخرجه ابن ماجه (1257) وسنده صحيح، أبو أبَي بن امرأة عبادة بن الصامت: صحابي نزل بيت المقدس ومن قال: ’’ابن أخت عبادة‘‘ أو ’’ابن أخيه‘‘ فقد أخطأ
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 433
433۔ اردو حاشیہ: ➊ یعنی اگر کوئی متبع سنت اپنی انفرادیت قائم رکھ سکتا ہو اور ایسے لوگوں پر حجت قائم کرتے ہوئے ان کے ساتھ شریک نہ ہوتا ہو، تو جائز ہے اور اگر مل کر دوبارہ پڑھے تو بھی کوئی حرج نہیں۔ یہ نفل ہو گی جیسے اوپر کی احادیث میں گزرا ہے۔ ➋ اس حدیث کی پہلی سند میں ایک راوی ہے ”ابن اخت (بھانجا) عبادہ بن صامت۔“ جبکہ صحیح یہ ہے کہ یہ اس کی بیوی کا بیٹا ہے جیسے کہ دوسری سند میں مذکور ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 433