● صحيح البخاري | 3551 | براء بن عازب | مربوعا بعيد ما بين المنكبين له شعر يبلغ شحمة أذنه رأيته في حلة حمراء لم أر شيئا قط أحسن منه |
● صحيح البخاري | 5848 | براء بن عازب | كان مربوعا وقد رأيته في حلة حمراء ما رأيت شيئا أحسن منه |
● صحيح البخاري | 5901 | براء بن عازب | ما رأيت أحدا أحسن في حلة حمراء من النبي جمته لتضرب قريبا من منكبيه |
● صحيح مسلم | 6064 | براء بن عازب | رجلا مربوعا بعيد ما بين المنكبين عظيم الجمة إلى شحمة أذنيه عليه حلة حمراء ما رأيت شيئا قط أحسن منه |
● صحيح مسلم | 6065 | براء بن عازب | ما رأيت من ذي لمة أحسن في حلة حمراء من رسول الله شعره يضرب منكبيه بعيد ما بين المنكبين ليس بالطويل ولا بالقصير |
● جامع الترمذي | 2811 | براء بن عازب | رأيت على رسول الله حلة حمراء |
● جامع الترمذي | 3635 | براء بن عازب | له شعر يضرب منكبيه بعيد ما بين المنكبين لم يكن بالقصير ولا بالطويل |
● جامع الترمذي | 1724 | براء بن عازب | ما رأيت من ذي لمة في حلة حمراء أحسن من رسول الله له شعر يضرب منكبيه بعيد ما بين المنكبين لم يكن بالقصير ولا بالطويل |
● سنن أبي داود | 4072 | براء بن عازب | له شعر يبلغ شحمة أذنيه رأيته في حلة حمراء لم أر شيئا قط أحسن منه |
● سنن أبي داود | 4183 | براء بن عازب | ما رأيت من ذي لمة أحسن في حلة حمراء من رسول الله |
● سنن أبي داود | 4184 | براء بن عازب | له شعر يبلغ شحمة أذنيه |
● سنن النسائى الصغرى | 5235 | براء بن عازب | ما رأيت من ذي لمة أحسن في حلة من رسول الله له شعر يضرب منكبيه |
● سنن النسائى الصغرى | 5065 | براء بن عازب | ما رأيت رجلا أحسن في حلة من رسول الله له لمة تضرب قريبا من منكبيه |
● سنن النسائى الصغرى | 5234 | براء بن عازب | رجلا مربوعا عريض ما بين المنكبين كث اللحية تعلوه حمرة جمته إلى شحمتي أذنيه رأيته في حلة حمراء ما رأيت أحسن منه |
● سنن النسائى الصغرى | 5063 | براء بن عازب | ما رأيت أحدا أحسن في حلة حمراء من رسول الله وجمته تضرب منكبيه |
● سنن النسائى الصغرى | 5316 | براء بن عازب | رأيت النبي وعليه حلة حمراء مترجلا لم أر قبله ولا بعده أحدا هو أجمل منه |
● سنن ابن ماجه | 3599 | براء بن عازب | ما رأيت أجمل من رسول الله مترجلا في حلة حمراء |
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5063
´بال رکھنے کا بیان۔`
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے کسی کو لال جوڑے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا، آپ کے بال آپ کے مونڈھوں تک تھے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5063]
اردو حاشہ:
مقصود یہ ہے کہ سرخ لباس آپ پر بہت جچتا تھا کیونکہ وہ آپ کے جسمانی رنگ وروپ سے بہت زیادہ مناسبت رکھتا تھا۔ رنگ بھی سرخ وسپید اور حلہ بھی سرخ و سفید۔ 2۔ کندھوں سے، مراد مرد کے لیے بالوں کو کاٹنا ضروری ہے۔ کندھوں کے برابر کاٹے یا کانوں کے یا اس سے اوپر۔ (تفصیل دیکھئے، حدیث:5056)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5063
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5065
´بال رکھنے کا بیان۔`
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے لال جوڑے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت کسی آدمی کو نہیں دیکھا، اور میں نے دیکھا کہ آپ کے بال آپ کے مونڈھوں کے قریب تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5065]
اردو حاشہ:
عربی میں سر کے لمبے بالوں کے لیے تین الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں: وفرہ، وہ بال جو کانوں کے برابر تک ہوں، لمّه، جو کانوں اور کندھوں کے درمیان ہوں اور جمّه، وہ بال جو کندھوں سے ٹکراتے ہوں۔ پیارے رسول مکرم ﷺ کے مبارک بالوں کے بارے میں تینوں الفاظ عام استعمال کیے گئے ہیں۔ توجیہ سابقہ حدیث میں گزر چکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5065
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5234
´سر پر بال رکھنے کا بیان۔`
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم درمیانے قد کے، چوڑے مونڈھوں اور گھنی داڑھی والے تھے، آپ کے بدن پر کچھ سرخی ظاہر تھی، سر کے بال کان کی لو تک تھے ۱؎، میں نے آپ کو لال جوڑا پہنے ہوئے دیکھا اور آپ سے زیادہ کسی کو خوبصورت نہیں دیکھا۔ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5234]
اردو حاشہ:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ نے جوعنوان قائم کیا اس کا مقصد یہ مسئلہ بیان کرنا ہے کہ مرد کے لیے زلفیں چھوڑنا اور لمبے بال رکھنا جائز ہے، خواہ وہ کندھوں تک چلی جائیں، تاہم کندھوں سے نیچے بال لٹکانا مردوں کے لیے درست نہیں کیونکہ یہ عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے، نیز کندھوں سے نیچے بال لٹکانا رسو ل اللہ سے ثابت نہیں، حالانکہ آپ کے بال مبارک اکثر اوقات لمبے ہوتے تھے یعنی کانوں کی نزم کی نرم لو تک، کبھی کندھوں تک اور کبھی اس کے درمیان تک ہوا کرتے تھے۔
(2) پیارے رسول اکرم ﷺ کے مبارک بالوں کےبارے میں تفصیل حدیث:5056، 5065 میں ملاحظہ فرمائیے۔
(3) ”سرخ جوڑے میں“ عربی جوڑے کے لیے حلہ کا لفظ پولاجاتا ہے۔ یہ دو چادریں ہوتی تھیں۔ ایک تہبند کے طور پر باندھی جاتی تھی اور دوسری اوپر اوڑھ لی جاتی تھی۔ فداہ أبي ونفسي وروحي ﷺ.
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5234
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5235
´سر پر بال رکھنے کا بیان۔`
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کسی بال والے کو لباس پہنے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مونڈھوں کے قریب تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5235]
اردو حاشہ:
تفصیل کےلیے دیکھیے، حدیث: 5065
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5235
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5316
´جوڑے پہننے کا بیان۔`
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ لال جوڑا ۱؎ پہنے ہوئے اور کنگھی کیے ہوئے تھے، میں نے آپ سے زیادہ خوبصورت کسی کو نہیں دیکھا، نہ آپ سے پہلے، نہ آپ کے بعد۔ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5316]
اردو حاشہ:
حلہ دو چادروں کے جوڑے کو کہتے ہیں۔ ایک تہبند دوسری اوپر والی چادر۔ عرب میں یہ بہترین لباس سمجھا جاتا تھا۔ اگر حلہ ریشمی نہ ہو تو پہننا جائز ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5316
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3599
´مردوں کے سرخ لباس پہننے کا بیان۔`
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت بال جھاڑے اور سنوارے ہوئے سرخ جوڑے میں ملبوس کسی کو نہیں دیکھا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3599]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
امام ابن قیم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
حلھ کا مطلب تہبند اور اوڑھنے والی چادر ہے اور حلھ کا لفظ ان دونوں کے مجموعے پر بولا جاتا ہے۔
یہ سمجھنا غلط فہمی ہے کہ یہ جوڑا خالص سرخ رنگ کا تھا اورا س میں دوسرا رنگ شامل نہیں تھا۔
سرخ حلے سے مراد یمن کی دو چادریں ہوتی ہیں جو سرخ اور سیاہ دھاریوں کی صورت میں بنی ہوتی ہیں جس طرح یمن کی دوسری چادریں (لکیر دار)
ہوتی ہیں۔
یہ لباس اس نام (سرخ حلہ)
سے ان سرخ دھاریوں کی وجہ سے مشہور ہے ورنہ خالص سرخ (لباس)
سے تو سختی سے منع کیا گیا ہے البتہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے (صحیح البخاري، کتاب الصلاة، باب الصلاۃ فی الثوب الأحمر حدیث: 376)
میں ذکر کردہ حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے:
امام بخاری رحمہ اللہ اس عنوان کے ذریعے سے (سرخ کپڑا پہننے کے)
جواز کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں۔
گویا خالص سرخ رنگ کا جوڑا پہننا بھی مردوں کے لئے جائز ہے لیکن اگر کسی علاقے میں یہ رنگ عورتوں کے لئے مخصوص ہو چکا ہو تو پھر اس علاقے میں مردوں کے لئے اس سے اجتناب بہتر ہوگا کیونکہ عورتوں کی مشابہت اختیار کرنا بھی ممنوع ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3599
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1724
´مردوں کے لیے سرخ کپڑا پہننے کے جواز کا بیان۔`
براء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سرخ جوڑے میں کسی لمبے بال والے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خوبصورت نہیں دیکھا، آپ کے بال شانوں کو چھوتے تھے، آپ کے شانوں کے درمیان دوری تھی، آپ نہ کوتاہ قد تھے اور نہ لمبے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1724]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
سرخ لباس کی بابت حالات و ظروف کی رعایت ضروری ہے،
اگر یہ عورتوں کا مخصوص زیب وزینت والا لباس ہے جیسا کہ آج کے اس دور میں شادی کے موقع پر سرخ جوڑا دلہن کو خاص طور سے دیا جاتا ہے تو مردوں کا اس سے بچنا بہتر ہے،
خود نبی اکرم ﷺ کے اس سرخ جوڑے کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ کیسا تھا؟ خلاصہ اقوال یہ ہے کہ یہ سرخ جوڑا یا دیگر لال لباس جو آپ ﷺ پہنے تھے،
ان میں تانا اور بانا میں رنگوں کا اختلاف تھا،
بالکل خالص لال رنگ کے وہ جوڑے نہیں تھے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1724
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2811
´مردوں کے لیے سرخ لباس پہننے کی اجازت کا بیان۔`
جابر بن سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک انتہائی روشن چاندنی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، پھر آپ کو دیکھنے لگا اور چاند کو بھی دیکھنے لگا (کہ ان دونوں میں کون زیادہ خوبصورت ہے) آپ اس وقت سرخ جوڑا پہنے ہوئے تھے ۱؎، اور آپ مجھے چاند سے بھی زیادہ حسین نظر آ رہے تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب/حدیث: 2811]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
بعض علماء کا کہنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ سرخ لباس خالص سرخ رنگ کا نہیں تھا بلکہ اس میں سرخ رنگ کی دھاریاں تھیں،
ظاہر ہے ایسے سرخ لباس کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے۔
نوٹ:
(سند میں اشعث بن سوار قاضی اہواز ضعیف راوی ہیں،
انہوں نے اس حدیث کو براء بن عازب کی بجائے جابر بن سمرہ کی روایت بنا دی ہے،
براء بن عازب کی روایت رقم: 1724 پر گزرچکی ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2811
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3635
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے حلیہ مبارک کا بیان`
براء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کسی شخص کو جس کے بال کان کی لو کے نیچے ہوں سرخ جوڑے ۱؎ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا، آپ کے بال آپ کے دونوں کندھوں سے لگے ہوتے تھے ۲؎، اور آپ کے دونوں کندھوں میں کافی فاصلہ ہوتا تھا ۳؎، نہ آپ پستہ قد تھے نہ بہت لمبے ۴؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3635]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
آپﷺ کے بالوں کی مختلف اوقات میں کئی حالت ہوا کرتی تھی،
کبھی آدھے کانوں تک،
کبھی کانوں کے لؤوں تک،
کبھی آدھی گردن تک،
اور کبھی کندھوں کو چھوتے ہوئے۔
2؎:
مردوں کے لال کپڑے پہننے کے سلسلے میں علماء درمیان مختلف روایات کی وجہ سے اختلاف ہے،
زیادہ تر لوگ کہتے ہیں کہ آپﷺ کا یہ جوڑا ایسا تھا کہ اس کا تانہ لا ل رنگ تھا،
یہ بالکل خالص لال نہیں تھا،
کیونکہ آپﷺ نے خود خالص لال سے مردوں کے لیے منع کیا ہے،
(دیکھئے کتاب اللباس میں مردوں کے لیے لا ل کپڑے پہننے کا باب)
3؎: یعنی آپﷺ کے کندھے کافی چوڑے تھے۔
4؎:
ناٹا اور لمبا ہونا دونوں معیوب صفتیں ہیں،
آپﷺ درمیانے قد کے تھے،
عیب سے مبرا،
ماشاء اللہ۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3635
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6064
حضرت براء رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ درمیانے قد کے آدمی تھے، آپﷺ کے دونوں شانوں کا درمیانی فاصلہ کافی تھا، آپ کے جمہ بال گھنے تھےاور کانوں کی لو تک پہنچتے تھے، آپﷺ پر سرخ جوڑا تھا، میں نے رسول اللہ ﷺ سے کبھی کوئی حسین نہیں دیکھا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:6064]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
رَجل:
مرد،
آدمی۔
(2)
رَجِل:
کنگھی کیے ہوئے بال۔
(3)
مربوع:
متوسط و متعدل،
درمیانہ قد۔
(4)
بعيد ما بين منكبين:
چوڑے چکلے سینے والے۔
(5)
جمة:
کانوں کی لو تک پہنچنے والے بال،
جو کنگھی کرنے کی صورت میں کندھوں تک پہنچ جاتے ہیں اور بقول بعض وفرة:
کانوں کی لو تک۔
(6)
جمة:
کانوں کی لو سے نیچے کندھوں سے گرنے والے اور (7)
لمة:
کندھوں پر پڑنے والے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6064
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6065
حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،میں نے کسی کندھوں پر گرنے والے بالوں والی شخصیت کو سرخ جوڑے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حسین نہیں دیکھا، آپ کے بال کندھوں پر پڑتے تھے اور دونوں شانوں کا فاصلہ زیادہ تھا، نہ قد لمبا تھا اور نہ پستہ، ابوکریب نے ”شعرة“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:6065]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
سرخ جوڑا پہننا جائز ہے،
شوافع،
موالک اور محقق حنفیہ کا یہی نظریہ ہے اور بقول علامہ ظفر احمد تھانوی،
امام ابو حنیفہ کا قول یہی ہے۔
(تکملہ ج 4 ص 554)
۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6065
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3551
3551. حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نےفرمایا: نبی ﷺ میانہ قامت تھے۔ دونوں شانوں کے درمیان کشادگی تھی۔ آپ کے بال کان کی لو تک پہنچتے تھے۔ میں نے ایک دفعہ آپ کو سرخ (دھاری دار) جوڑاپہنے دیکھا۔ میں نے آپ سے زیادہ کسی کو حسین اور خوبصورت نہیں دیکھا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ کےبال کندھوں تک پہنچتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3551]
حدیث حاشیہ:
یوسف کے طریق کو خود مؤلف نے ابھی نکالا مگر مختصر طورپر۔
اس میں بالوں کا ذکر نہیں ہے، بعض روایتوں میں آپ کے بال کانوں کی لوتک، بعض روایتوں میں مونڈھوں تک، بعض روایتوں میں ان کے بیچ تک مذکور ہیں۔
ان کا اختلاف یوں رفع ہوسکتا ہے کہ جس وقت آپ تیل ڈالتے، کنگھی کرتے تو بال مونڈھوں تک آجاتے۔
خالی وقتوں میں کانوں تک یا دونوں کے بیچ میں رہتے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3551
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5848
5848. حضرت براء ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ کا قد درمیانہ تھا میں نے آپ کو سرخ جوڑے میں دیکھا۔ آپ سے زیادہ خوبصورت میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5848]
حدیث حاشیہ:
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ایک جماعت صحابہ اور تابعین کا یہ قول ہے کہ سرخ کپڑا پہننا مرد کے لیے درست ہے۔
بعضوں نے ناجائز کہا ہے۔
بیہقی نے کہا کہ صحیح یہ ہے کہ کسم کا سرخ رنگ مردوں کے لیے ناجائز ہے۔
امام شوکانی نے اہلحدیث کا مذہب یہ قرار دیا ہے کہ کسم کے علاوہ دوسرا سرخ رنگ مردوں کے لیے درست ہے اور یہی صحیح ہے حدیث میں مذکورہ سرخ جوڑے سے یہ مراد ہے کہ اس میں سرخ دھاریاں تھیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5848
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3551
3551. حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نےفرمایا: نبی ﷺ میانہ قامت تھے۔ دونوں شانوں کے درمیان کشادگی تھی۔ آپ کے بال کان کی لو تک پہنچتے تھے۔ میں نے ایک دفعہ آپ کو سرخ (دھاری دار) جوڑاپہنے دیکھا۔ میں نے آپ سے زیادہ کسی کو حسین اور خوبصورت نہیں دیکھا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ کےبال کندھوں تک پہنچتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3551]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مباارک کان کی لو سے زیادہ اور کندھوں سے کم تھے،یعنی زیادہ لمبے اور نہ بالکل چھوٹے بلکہ متوسط درجے کے تھے۔
(مسند أحمد: 108/6)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال نصف کانوں تک تھے۔
(صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 6069(2338)
حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فتح مکہ کے موقع پر مکہ تشریف لائے تو آپ کے چار گیسو تھے۔
(شمائل ترمذی ص: 44)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ آپ کے بال کانوں کی لوتک ہوتے،بعض اوقات کندھوں تک پہنچ جاتے۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ آپ بالوں کی مینڈھیاں بنالیتے پھر دایاں کان دونوں گیسوؤں کے درمیان اور بایاں کان بھی دونوں گیسوؤں کے درمیان بڑا حسین اور خوشنما منظر پیش کرتا۔
ایسا معلوم ہوتا کہ گھنے سیال بالوں کے درمیان خوبصورت کان چمک دار ستاروں کی طرح جگمگارہے ہیں۔
(دلائل النبوة: 298/1)
2۔
ان روایات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ جب بالوں میں کنگھی کرتے تو کندھوں تک پہنچ جاتے،کچھ وقت گزرنے تک کانوں کی لوتک آجاتے کیونکہ آپ کے بال شکن دار تھے۔
اگردوران سفر میں کنگھی کرنے کا موقع نہ ملتا تو گیسوؤں کی شکل اختیار کرلیتے۔
ان بالوں کی مختلف اوقات میں مختلف کیفیات ہوتی تھیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3551
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5848
5848. حضرت براء ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ کا قد درمیانہ تھا میں نے آپ کو سرخ جوڑے میں دیکھا۔ آپ سے زیادہ خوبصورت میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5848]
حدیث حاشیہ:
(1)
خالص سرخ رنگ سے رنگا ہوا لباس پہننا جائز نہیں کیونکہ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک گھاٹی سے نیچے اترے تو آپ میری طرف متوجہ ہوئے۔
آپ نے دیکھا کہ میں نے ایک چادر اوڑھی ہوئی تھی جو ہلکے سرخ رنگ کی تھی۔
آپ نے پوچھا کہ تم نے یہ کیسی چادر لی ہوئی ہے؟ آپ کی ناپسندیدگی کو میں نے محسوس کیا، پھر میں اپنے اہل خانہ کے پاس آیا تو وہ تنور جلا رہے تھے۔
میں نے اس چادر کو اس میں پھینک دیا۔
اگلے دن جب میں حاضر خدمت ہوا تو آپ نے فرمایا:
”اس چادر کا تم نے کیا کیا؟“ میں نے آپ کو صورت حال سے آگاہ کیا تو آپ نے فرمایا:
”اسے اپنے اہل خانہ میں سے کسی عورت کو دے دیتے۔
عورتوں کو اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔
“ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4066) (2)
مذکورہ بالا حدیث میں سرخ جوڑے کا ذکر ہے لیکن وہ جوڑا خالص سرخ رنگ کا نہیں تھا بلکہ اس میں سرخ رنگ کی دھاریاں تھیں جسے عربی میں "برد" کہا جاتا ہے، چنانچہ حضرت عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منیٰ میں دیکھا جب کہ آپ اپنے خچر پر بیٹھے خطبہ دے رہے تھے اور آپ نے سرخ رنگ کی دھاری دار چادر زیب تن کر رکھی تھی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے تھے جو آپ کی بات لوگوں تک پہنچا رہے تھے۔
(فتح الباري: 477/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5848
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5901
5901. حضرت براء ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے سرخ جوڑے میں ملبوس نبی ﷺ سے زیادہ کسی کو خوبصورت نہیں دیکھا (امام بخاری کہتے ہیں) میرے کچھ ساتھیوں نے مالک بن اسماعیل سے بیان کیا کہ آپ ﷺ کے بال کندھوں کے قریب لہراتے تھےابو اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے (حضرت براء ؓ کو) ایک سے زیادہ مرتبہ یہ حدیث بیان کرتے سنا وہ جب بھی یہ حدیث بیان کرتے تو مسکراتے اس کی متابعت شعبہ نے کی ہے کہ آپ ﷺ کے بال آپ کے کانوں کی لوتک تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5901]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک کا ذکر ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک کانوں کی لو سے زیادہ اور کندھوں سے کم تھے، یعنی نہ زیادہ لمبے تھے اور نہ بالکل چھوٹے بلکہ درمیانے درجے کے تھے۔
(مسند أحمد: 108/6)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال ہلکا سا خم لیے ہوتے تھے، نہ بالکل سیدھے تنے ہوئے تھے اور نہ انتہائی پیچ دار۔
(مسند أحمد: 135/3)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کانوں کی لو تک ہوتے، بعض اوقات کندھوں تک پہنچ جاتے۔
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ بال بڑھ جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی مینڈھیاں بنا لیتے۔
(دلائل النبوة: 298/1) (2)
بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک مختلف اوقات میں کم و بیش ہوتے رہتے تھے۔
جب زیادہ ہوتے تو کان کی لو سے بھی کچھ آگے چلے جاتے تھے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5901