سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابي داود تفصیلات

سنن ابي داود
کتاب: لباس سے متعلق احکام و مسائل
Clothing (Kitab Al-Libas)
4. باب مَا جَاءَ فِي الأَقْبِيَةِ
4. باب: قباء کا بیان۔
Chapter: What Has Been Reported About Cloaks.
حدیث نمبر: 4028
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، ويزيد بن خالد بن موهب المعنى، ان الليث يعني ابن سعد حدثهم، عن عبد الله بن عبيد الله بن ابي مليكة، عن المسور بن مخرمة انه قال:" قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم اقبية ولم يعط مخرمة شيئا، فقال مخرمة: يا بني، انطلق بنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانطلقت معه، قال: ادخل فادعه لي، قال: فدعوته فخرج إليه وعليه قباء منها، فقال: خبات هذا لك، قال: فنظر إليه زاد ابن موهب مخرمة ثم اتفقا، قال: رضي مخرمة"، قال قتيبة، عن ابن ابي مليكة لم يسمه.
(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَيَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مَوْهَبٍ الْمَعْنَى، أَنَّ اللَّيْثَ يَعْنِيَ ابْنَ سَعْدٍ حَدَّثَهُمْ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ أَنَّهُ قَالَ:" قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبِيَةً وَلَمْ يُعْطِ مَخْرَمَةَ شَيْئًا، فَقَالَ مَخْرَمَةُ: يَا بُنَيَّ، انْطَلِقْ بِنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ، قَالَ: ادْخُلْ فَادْعُهُ لِي، قَالَ: فَدَعَوْتُهُ فَخَرَجَ إِلَيْهِ وَعَلَيْهِ قِبَاءٌ مِنْهَا، فَقَالَ: خَبَأْتُ هَذَا لَكَ، قَالَ: فَنَظَرَ إِلَيْهِ زَادَ ابْنُ مَوْهَبٍ مَخْرَمَةُ ثُمَّ اتَّفَقَا، قَالَ: رَضِيَ مَخْرَمَةُ"، قَالَ قُتَيْبَةُ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ لَمْ يُسَمِّهِ.
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ قبائیں تقسیم کیں اور مخرمہ کو کچھ نہیں دیا تو مخرمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: بیٹے! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلو چنانچہ میں ان کے ساتھ چلا (جب وہاں پہنچے) تو انہوں نے مجھ سے کہا: اندر جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے لیے بلا لاؤ، تو میں نے آپ کو بلایا، آپ باہر نکلے، آپ انہیں قباؤں میں سے ایک قباء پہنے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مخرمہ رضی اللہ عنہ سے) فرمایا: میں نے اسے تمہارے لیے چھپا کر رکھ لیا تھا تو مخرمہ رضی اللہ عنہ نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا آپ نے فرمایا: مخرمہ خوش ہو گیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الہبة 19 (2599)، الشہادات 11 (2127)، الخمس 11 (3127)، اللباس 12 (5800)، 42 (5862)، الأدب 82 (6132)، صحیح مسلم/الزکاة 44 (1058)، سنن الترمذی/الأدب 53 (2818)، سنن النسائی/الزینة 45 (5326)، (تحفة الأشراف: 11268)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/328) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Al-Miswar bin Makhramah: The Messenger of Allah ﷺ distributed outer garments with full-length sleeves but did not give Makhramah anything. Makhramah said: Go with us to the Messenger of Allah ﷺ. So I went with him and he said: Enter and call him for me. I then called him. He came out to him and he had an outer garment with full-length sleeves over him from those garments. He said: I kept it for you. He looked at it, meaning Makhramah according to the addition of Ibn Mawhab. The agreed version then says: He said: Makhramah was pleased. Ibn Qutaibah said: From Ibn Abi Mulaikah, but he did not name it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 33 , Number 4017


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2599) صحيح مسلم (1058)

   صحيح البخاري5800مسور بن مخرمةخبأت هذا لك
   صحيح البخاري6132مسور بن مخرمةخبأت هذا لك
   صحيح البخاري2599مسور بن مخرمةخبأنا هذا لك
   صحيح البخاري3127مسور بن مخرمةخبأت هذا لك
   صحيح البخاري2657مسور بن مخرمةخبأت هذا لك
   صحيح مسلم2431مسور بن مخرمةخبأت هذا لك
   صحيح مسلم2432مسور بن مخرمةخبأت هذا لك
   جامع الترمذي2818مسور بن مخرمةخبأت لك هذا
   سنن أبي داود4028مسور بن مخرمةخبأت هذا لك
   سنن النسائى الصغرى5326مسور بن مخرمةخبأت هذا لك

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4028 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4028  
فوائد ومسائل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت اور ان کا مزاج خوب سمجھتے تھے اور ان کی خوبی خیال رکھتے تھے۔
آج بھی اور تاقیامت تمام امت کے بالعموم اور مذہبی رہنماوں کے لئے بالخصوص اپنے رفقائے کار کے لئے بھی رسول اللہ ؐکی ذات بہترین نمونہ ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4028   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5326  
´قباء (کوٹ، اچکن) پہننے کا بیان۔`
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبائیں تقسیم کیں اور مخرمہ کو کچھ نہیں دیا تو مخرمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: بیٹے! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلو، چنانچہ میں ان کے ساتھ گیا، انہوں نے کہا: اندر جاؤ اور آپ کو میرے لیے بلا لاؤ، چنانچہ میں نے آپ کو بلا لایا، آپ نکل کر آئے تو آپ انہیں میں سے ایک قباء پہنے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا: اسے میں نے تمہارے ہی لیے چھپا رکھی تھی، مخرمہ نے اسے دیکھا اور پہن لی [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5326]
اردو حاشہ:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ نے جو ترجمۃ الباب قائم کیا ہے اس کا مقصد یہ مسئلہ بیان کرنا ہے کہ چوغہ لمبی اور کھلی قمیص اور اوور کوٹ پہننا جائز اور درست ہے البتہ اس میں یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ مرد جب ایسا لباس پہنیں تو ان کے ٹخنے ہر صورت میں ننگے ہونے چاہییں کیونکہ مردوں کے لیے ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا حرام اور ناجائز ہے۔
(2) مخرمہ رضی اللہ عنہ نابینے تھے اس لیے وہ اپنے بیٹے کے ہمراہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے غریب اور نابینے صحابی کی دلجوئی فرمائی اور انہیں قبا پیش فرمائی اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ یہ ہم نے تمہارے لیے چھپا رکھی تھی تاکہ اس کی تالیف قلب ہو۔ صلی اللہ علیہ وسلم کثیرا کثیرا۔
(3) بعض لوگوں نے حضرت مسور کے صحابی ہونے کا انکار کیا لیکن اس حدیث سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے۔ یہ حدیث حضرت مسور رضی اللہ عنہ صحابی ہونے کی صریح دلیل ہے۔ واللہ أعلم۔
(4) قبا قمیص کی طرح ہوتی ہے مگر قمیص سے لمبی اور کھلی ہوتی ہے اوور کوٹ کی طرح اس کے بٹن نہیں ہوتے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5326   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2432  
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قبائیں آئیں تو مجھے میرے باپ مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےکہا، مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلو امید ہے آپ ہمیں بھی ان میں سے کوئی عنایت فرما دیں گے، میرے باپ نے دروازہ پر کھڑے ہو کر گفتگو کی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی آواز پہچان لی اور آپﷺ قباء لے کر نکلے اور آپﷺ اسے اس کی خوبیاں بتلاتے ہوئے فرما رہے تھے میں نے یہ تمھارے لیے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2432]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کے مزاج اور طبیعت کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کی دلجوائی اور مدارات فرماتے کہ بلاوجہ ان کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے،
حضرت مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزاج میں کچھ حدت و شدت تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آمد کا مقصد سمجھ کر اس کو بات کرنے کا موقعہ ہی نہیں دیا اور پہلے ہی اسے ایک قبا عنایت فرما دی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2432   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3127  
3127. حضرت عبداللہ بن ابو ملیکہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ریشمی، جبے بطور ہدیہ بھیجے گئے جن میں سونے کے بٹن لگے ہوئےتھے۔ آپ نے وہ اپنے پاس موجود صحابہ کرام ؓ میں تقسیم کردیے اور ان میں سے ایک جبہ حضرت مخرمہ بن نوفل ؓ کے لیے الگ کررکھا۔ وہ آئے اور ان کے ہمراہ ان کا بیٹا مسور بن مخرمہ ؓ بھی تھا۔ وہ دروازے پر کھڑے ہوگئے اور اپنے بیٹے سے کہا کہ آپ ﷺ کومیری خاطر بلا لائے۔ نبی کریم ﷺ نے ان کی آواز سنی تو ایک جبہ لے کر باہر تشریف لائے اور سونے کے بٹنوں سمیت وہ جبہ مخرمہ ؓکے آگے رکھ دیا اور فرمایا: اے مخرمہ! میں نے یہ تمہارے لیے چھپا رکھا تھا۔ اے مخرمہ! میں نے تمہارے لیے یہ چھپا کررکھ لیا تھا۔ حضرت مخرمہ ؓ ذرا تیز طبیعت کے آدمی تھے۔ ابن علیہ نے یہ حدیث ایوب کے واسطے سے (مرسل ہی) بیان کی ہے۔ اور حاتم بن وردان نے کہا: ہم سے ایوب نے، ان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3127]
حدیث حاشیہ:
حاتم بن وردان کی روایت کو خود امام بخاری ؒنے ''باب شهادة الأعمی'' میں وصل کیا ہے۔
مخرمہ ؓ میں طبعی غصہ تھا۔
جلدی سے گرم ہوجاتے جیسے اکثر تنگ مزاج لوگ ہوتے ہیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام یا بادشاہ اسلام کو کافر لوگ جو تحفے تحائف بھیجیں ان کا لینا امام کو درست ہے۔
اور اس کو اختیار ہے کہ جو چاہے خود رکھے جو چاہے جس کو دے‘ اغیار کے تحائف قبول کرنا بھی اس سے ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3127   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2599  
2599. حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے کچھ قبائیں تقسیم کیں لیکن حضرت مخرمہ ؓ کو آپ نے کوئی قبانہ دی جس پر حضرت مخرمہ ؓ نے کہا: بیٹے!تم رسول اللہ ﷺ کے پاس میرے ہمراہ چلو۔ میں ان کے ہمراہ چلا گیا۔ پھر انھوں نے کہا: اندر جاؤ اور آپ ﷺ کو میرے پاس بلا لاؤ۔ مسور ؓ کہتے ہیں: میں آپ ﷺ کو بلا لایا۔ جب آپ باہر تشریف لائے تو ان قباؤں میں سے ایک قبا آپ کے پاس تھی، آپ نے فرمایا: ہم نے یہ قباتیرے لیے چھپا رکھی تھی۔ حضرت مسور کا بیان ہے کہ مخرمہ ؓ اسے دیکھ کر خوش ہوگئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2599]
حدیث حاشیہ:
بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے۔
والد نے کہا اب مخرمہ راضی ہوا۔
ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ جب آپ نے وہ اچکن مخرمہ ؓ کو دی تو ان کا قبضہ پورا ہوگیا۔
جمہور کے نزدیک ہبہ میں جب تک موہوب لہ کا قبضہ نہ ہو اس کی ملک پوری نہیں ہوتی اورمالکیہ کے نزدیک صرف عقد سے ہبہ تمام ہوجاتا ہے۔
البتہ اگر موہوب لہ اس وقت تک قبضہ نہ کرے کہ واہب کسی اور کو وہ چیز ہبہ کردے تو ہبہ باطل ہوجائے گا۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2599   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2657  
2657. حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ کے پاس ریشمی قبائیں آئیں تو میرے باپ مخرمہ ؓ نے مجھ سے کہا: ہمیں آپ ﷺ کی خدمت میں لے چلو ممکن ہے آپ ﷺ ہمیں ان قباؤں میں سے کوئی قباعطا فرمائیں چنانچہ میرے والد آ پ ﷺ کے دروازے پر جا کر کھڑے ہوگئے اور کچھ باتیں کرنے لگے تو نبی کریم ﷺ نے ان کی آواز پہچان لی۔ نبی کریم ﷺ جب باہر تشریف لائے تو آپ کے ہاتھ میں ایک قبا تھی۔ آپ اس کا حسن و جمال میرے باپ کو دکھانے لگے، نیز آپ نے فرمایا: میں نے یہ تمہارے لیے چھپا رکھی تھی۔ میں نے یہ تمہارے لیے چھپا رکھی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2657]
حدیث حاشیہ:
حافظ صاحب ؒ فرماتے ہیں:
فإن فیه أنه اعتمد علی صوته قبل أن یری شخصه۔
یعنی اس حدیث سے مسئلہ یوں ثابت ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت مخرمہ ؓ کی صرف آواز سنتے ہی ان پر اعتماد کرلیا اور آپ ﷺ باہر تشریف لے آئے تو معلوم ہوا کہ اندھا بھی آواز سنے تو شہادت دے سکتا ہے اگر اس کی آواز پہچانتا ہو۔
اس سے آنحضرت ﷺ کی غرباء پروری بھی ظاہر ہے کہ آپ غریبوں کا کس حد تک خیال فرماتے تھے۔
صلی اللہ علیه وسلم
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2657   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6132  
6132. حضرت عبداللہ بن ابی ملکیہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کو ریشمی کوٹ بطور ہدیہ پیش کیے گئے جنہیں سونے کے بٹن لگے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے وہ کوٹ اپنے صحابہ کرام میں تقسیم کر دیے اور ان میں سے ایک حضرت مخرمہ ؓ کے لیے علیحدہ کر لیا۔ جب حضرت مخرمہ ؓ آئے تو آپ نے فرمایا: میں نے تیرے لیے یہ کوٹ چھپا رکھا تھا۔ (راوی حدیث) ایوب نے کہا کہ آپ ﷺ نے وہ کوٹ اپنے کپڑے میں چھپا رکھا تھا اور اسے سونے کے بٹن دکھا رہے تھے کیونکہ وہ ذرا سخت مزاج آدمی تھے اس حدیث کو حماد بن زید بھی ایوب کے واسطے سے روایت کیا ہے حاتم بن وردان نے کہا: ہمیں ایوب نے ابن ابی ملکیہ سے بیان کیا، انہوں نے حضرت مسور ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ کے پاس چند کوٹ بطور تحفہ آئے۔۔۔۔ (پھر اسی طرح حدیث بیان کی)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6132]
حدیث حاشیہ:
اس سند کے بیان کرنے سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ حماد بن زید اورابن علیہ کی روایتیں بظاہر مرسل ہیں مگر فی الحقیقت موصول ہیں کیونکہ حاتم بن وردان کی روایت سے یہ نکلتا ہے کہ ابن ابی ملیکہ نے اس کو مسور بن مخرمہ سے روایت کیا ہے جو صحابی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6132   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2599  
2599. حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے کچھ قبائیں تقسیم کیں لیکن حضرت مخرمہ ؓ کو آپ نے کوئی قبانہ دی جس پر حضرت مخرمہ ؓ نے کہا: بیٹے!تم رسول اللہ ﷺ کے پاس میرے ہمراہ چلو۔ میں ان کے ہمراہ چلا گیا۔ پھر انھوں نے کہا: اندر جاؤ اور آپ ﷺ کو میرے پاس بلا لاؤ۔ مسور ؓ کہتے ہیں: میں آپ ﷺ کو بلا لایا۔ جب آپ باہر تشریف لائے تو ان قباؤں میں سے ایک قبا آپ کے پاس تھی، آپ نے فرمایا: ہم نے یہ قباتیرے لیے چھپا رکھی تھی۔ حضرت مسور کا بیان ہے کہ مخرمہ ؓ اسے دیکھ کر خوش ہوگئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2599]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہبہ میں دوسرے کی ملکیت اس وقت ثابت ہو گی جب وہ ہبہ اس کے قبضے میں آ جائے، اس سے پہلے پہلے اس میں تصرف نہیں کیا جا سکتا۔
غلام اور منقولات پر قبضے کا یہی طریقہ ہے کہ وہ موہوب لہ کی طرف منتقل کر دیے جائیں جیسا کہ رسول اللہ ؤنے وہ قبا حضرت مخرمہ ؓ کے حوالے کی تو ان کا قبضہ مکمل ہوا۔
جمہور کا یہی موقف ہے۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ صرف عقد سے ہبہ تمام ہو جاتا ہے۔
اگر قبضے سے پہلے ہبہ کرنے والا کسی اور کو ہبہ کر دے تو ایسا کرنا صحیح نہیں۔
لیکن یہ موقف محل نظر ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2599   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2657  
2657. حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ کے پاس ریشمی قبائیں آئیں تو میرے باپ مخرمہ ؓ نے مجھ سے کہا: ہمیں آپ ﷺ کی خدمت میں لے چلو ممکن ہے آپ ﷺ ہمیں ان قباؤں میں سے کوئی قباعطا فرمائیں چنانچہ میرے والد آ پ ﷺ کے دروازے پر جا کر کھڑے ہوگئے اور کچھ باتیں کرنے لگے تو نبی کریم ﷺ نے ان کی آواز پہچان لی۔ نبی کریم ﷺ جب باہر تشریف لائے تو آپ کے ہاتھ میں ایک قبا تھی۔ آپ اس کا حسن و جمال میرے باپ کو دکھانے لگے، نیز آپ نے فرمایا: میں نے یہ تمہارے لیے چھپا رکھی تھی۔ میں نے یہ تمہارے لیے چھپا رکھی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2657]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں صراحت ہے کہ حضرت مخرمہ رسول اللہ ﷺ کے دروازے پر کھڑے باتیں کر رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ ان کی آواز سن کر باہر تشریف لائے اور ریشمی حلہ ان کے حوالے کیا۔
(2)
حافظ ابن حجر ؓ لکھتے ہیں؛ اس حدیث سے مسئلہ یوں ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی شخصیت دیکھے بغیر صرف آواز سنتے ہی انہیں پہچان لیا اور باہر تشریف لے آئے۔
اس سے معلوم ہوا کہ نابینا آدمی آواز سن کر گواہی دے سکتا ہے بشرطیکہ آواز کو پہچانتا ہو۔
اس پر یہ اعتراض بے محل ہے کہ آپ نے اس وقت تک اسے قبا نہ دی جب تک اسے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں لیا کیونکہ رسول اللہ ﷺ کو اس شخصیت دیکھنے سے پہلے ہی اس کی آواز سے یقین ہو گیا تھا۔
امام بخاری ؒ کا مقصود بھی یہی ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2657   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3127  
3127. حضرت عبداللہ بن ابو ملیکہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ریشمی، جبے بطور ہدیہ بھیجے گئے جن میں سونے کے بٹن لگے ہوئےتھے۔ آپ نے وہ اپنے پاس موجود صحابہ کرام ؓ میں تقسیم کردیے اور ان میں سے ایک جبہ حضرت مخرمہ بن نوفل ؓ کے لیے الگ کررکھا۔ وہ آئے اور ان کے ہمراہ ان کا بیٹا مسور بن مخرمہ ؓ بھی تھا۔ وہ دروازے پر کھڑے ہوگئے اور اپنے بیٹے سے کہا کہ آپ ﷺ کومیری خاطر بلا لائے۔ نبی کریم ﷺ نے ان کی آواز سنی تو ایک جبہ لے کر باہر تشریف لائے اور سونے کے بٹنوں سمیت وہ جبہ مخرمہ ؓکے آگے رکھ دیا اور فرمایا: اے مخرمہ! میں نے یہ تمہارے لیے چھپا رکھا تھا۔ اے مخرمہ! میں نے تمہارے لیے یہ چھپا کررکھ لیا تھا۔ حضرت مخرمہ ؓ ذرا تیز طبیعت کے آدمی تھے۔ ابن علیہ نے یہ حدیث ایوب کے واسطے سے (مرسل ہی) بیان کی ہے۔ اور حاتم بن وردان نے کہا: ہم سے ایوب نے، ان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3127]
حدیث حاشیہ:

ریشمی جبوں کا مذکورہ ہدیہ مشرکین کی طرف سے آیاتھا جو رسول اللہ ﷺ کے لیے حلال تھا۔
مال فے کی طرح اس قسم کے تحائف کی تقسیم بھی رسول اللہ ﷺ کی صوابدید پر موقوف تھی۔
آپ نے جسے چاہا عطا کردیا اور جسے چاہا اسے دوسروں پر ترجیح دےدی۔
لیکن اس قسم کے تحائف کاتبادلہ رسول اللہ ﷺ کے بعد دوسرے حکمرانوں کے لیے جائز نہیں کیونکہ انھیں یہ ہدایا بطور رشوت دیئے جاتےہیں۔

حضرت مخرمہ ؓ کی طبیعت میں کچھ تیزی تھی۔
وہ جلد غصے میں آجاتے تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ انھیں جبے کی خوبصورتی بتارہے تھے کہ تاکہ وہ خوش خوش واپس جائیں اور تنگ مزاجی کا مظاہرہ نہ کریں۔
(عمدة القاري: 457/10)

شارح بخاری ابن منیر ؒ کہتے ہیں:
اس عنوان سے ان لوگوں کی تردید مقصود ہے جن کا دعویٰ ہے کہ ہدیہ صرف ان لوگوں کے لیے ہوتا ہے جو مجلس میں موجود ہوں دوسروں کے لیے نہیں ہوتا۔
(فتح الباري: 272/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3127   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5800  
5800. حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے چند قبائیں تقسیم کیں اور حضرت مخرمہ ؓ کو کچھ نہ دیا تو انہوں نے کہا: بیٹے! میرے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس چلو، چنانچہ میں اپنے والد محترم کے ساتھ گیاَ۔ انہوں نے مجھے کہا: تم اندر جاؤ اور آپ ﷺ سے میرا ذکر کرو۔ میں نے آپ ﷺ سے اپنے والد کا ذکر کیا تو آپ باہر تشریف لائے جبکہ انھی قباؤں میں سے ایک قبا ساتھ لیے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا؛ یہ قبا میں نے تمہارے لیے چھپا رکھی تھی۔ حضرت مخرمہ ؓ نے اسے دیکھا تو کہنے لگے: مخرمہ راضی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5800]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ قبائیں ریشمی تھیں۔
حدیث کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پہنا تھا۔
حافظ ابن حجر نے فرمایا ہے کہ شاید اس وقت ریشم پہننا مردوں کے لیے حلال ہو گا، یا آپ نے بطور حفاظت اس قبا کو اپنے اوپر ڈالا ہو گا۔
اسے پہننا نہیں کہتے جیسا کہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو آپ کے پاس قبا تھی۔
(المستدرك للحاکم: 390/3، حدیث: 6074، و فتح الباري: 332/10) (2)
اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے اور ان کے مزاج کو بخوبی سمجھتے تھے۔
دینی رہنماؤں کو اس سے سبق لینا چاہیے اور اپنے رفقائے کار کا خیال رکھنا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5800   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6132  
6132. حضرت عبداللہ بن ابی ملکیہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کو ریشمی کوٹ بطور ہدیہ پیش کیے گئے جنہیں سونے کے بٹن لگے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے وہ کوٹ اپنے صحابہ کرام میں تقسیم کر دیے اور ان میں سے ایک حضرت مخرمہ ؓ کے لیے علیحدہ کر لیا۔ جب حضرت مخرمہ ؓ آئے تو آپ نے فرمایا: میں نے تیرے لیے یہ کوٹ چھپا رکھا تھا۔ (راوی حدیث) ایوب نے کہا کہ آپ ﷺ نے وہ کوٹ اپنے کپڑے میں چھپا رکھا تھا اور اسے سونے کے بٹن دکھا رہے تھے کیونکہ وہ ذرا سخت مزاج آدمی تھے اس حدیث کو حماد بن زید بھی ایوب کے واسطے سے روایت کیا ہے حاتم بن وردان نے کہا: ہمیں ایوب نے ابن ابی ملکیہ سے بیان کیا، انہوں نے حضرت مسور ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ کے پاس چند کوٹ بطور تحفہ آئے۔۔۔۔ (پھر اسی طرح حدیث بیان کی)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6132]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لوگوں کے ساتھ برتاؤ بہت اچھا ہوتا تھا، اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا تو بہت خیال رکھتے تھے۔
حضرت مخرمہ رضی اللہ عنہ کی طبیعت میں کچھ سختی تھی، اس سختی کے اثرات ان کی زبان پر تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چند ریشمی کوٹ آئے تو آپ نے انہیں اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں تقسیم کر دیا۔
چونکہ حضرت مخرمہ کی طبیعت سے واقف تھے، اس لیے آپ نے ان کے لیے ایک کوٹ علیحدہ کر دیا، ادھر حضرت مخرمہ رضی اللہ عنہ کو پتا چلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ریشمی کوٹ آئے ہیں لیکن مجھے محروم کر دیا گیا ہے تو اپنے بیٹے حضرت مسور رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آئے اور اپنے بیٹے سے کہا:
جاؤ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا کر لاؤ۔
حضرت مسور رضی اللہ عنہ پر یہ بات بہت گراں گزری کہ میں ان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا کر لاؤں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں بیٹھے باپ بیٹے کی گفتگو سن رہے تھے۔
آپ اٹھے اور کوٹ لے کر باہر آئے اور حضرت مخرمہ رضی اللہ عنہ کو اس کے محاسن دکھائے پھر انہیں عنایت کر دیا اور فرمایا:
میں نے آپ کے لیے اسے پہلے ہی علیحدہ کر دیا تھا۔
چنانچہ حضرت مخرمہ راضی ہو گئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رواداری کی یہ بہت اعلیٰ مثال ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6132   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.