(موقوف) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا عبد الواحد بن زياد، حدثنا خصيف، حدثنا مقسم مولى ابن عباس، قال: قال ابن عباس رضي الله عنهما: نزلت هذه الآية:" وما كان لنبي ان يغل سورة آل عمران آية 161 في قطيفة حمراء، فقدت يوم بدر، فقال بعض الناس: لعل رسول الله صلى الله عليه وسلم اخذها فانزل الله عز وجل: وما كان لنبي ان يغل سورة آل عمران آية 161 إلى آخر الآية"، قال ابو داود: يغل مفتوحة الياء. (موقوف) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا خُصَيْفٌ، حَدَّثَنَا مِقْسَمٌ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ:" وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَّ سورة آل عمران آية 161 فِي قَطِيفَةٍ حَمْرَاءَ، فُقِدَتْ يَوْمَ بَدْرٍ، فَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ: لَعَلّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَهَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَّ سورة آل عمران آية 161 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: يَغُلَّ مَفْتُوحَةُ الْيَاءِ.
مقسم مولیٰ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ہے کہ آیت: «وما كان لنبي أن يغل»”نبی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ خیانت کرے۔۔۔“(سورۃ آل عمران: ۱۶۱) ایک سرخ چادر کے متعلق نازل ہوئی جو بدر کے دن گم ہو گئی تھی تو کچھ لوگوں نے کہا: شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لے لیا ہو تب اللہ تعالیٰ نے: «وما كان لنبي أن يغل» نازل کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «يغل» یا کے فتحہ کے ساتھ ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/تفسیر سورة آل عمران 17 (3009)، (تحفة الأشراف: 6487) (صحیح)»
Narrated Abdullah ibn Abbas: The verse "And no Prophet could (ever) be false to his trust" was revealed about a red velvet. When it was found missing on the day of Badr, some people said; Perhaps the Messenger of Allah ﷺ has taken it. So Allah, the Exalted, sent down "And no prophet could (ever) be false to his trust" to the end of the verse. Abu Dawud said: In the word yaghulla the letter ya has a short vowel a.
USC-MSA web (English) Reference: Book 31 , Number 3960
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (3009) خصيف: ضعيف انوار الصحيفه، صفحه نمبر 141
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3971
فوائد ومسائل: (يَغُلَّ) فعل مضارع معلوم (مصدر غلول) کا ترجمعہ اوپرذکر ہواہے۔ جبکہ اس کی دوسری قراءت بصورت مضارع مجہول یعنی یا پرپیش اور غین پر زبر کے ساتھ ہے۔ اس قراءت میں اس کا ترجمعہ ہوگا: نبی کا یہ مقام نہیں کہ اس کی خیانت کی جائے۔ اگر اسے مصدر اغلال سے سمجھا جائے تو اس کا مفہوم ہوگا: نبی کا یہ مقام نہیں کہ اس کی طرف خیانت کی نسبت کی جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3971