عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب حاکم (قاضی) خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے اور درستگی کو پہنچ جائے تو اس کے لیے دوگنا اجر ہے، اور جب قاضی سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے اور خطا کر جائے تو بھی اس کے لیے ایک اجر ہے ۱؎“۔ راوی کہتے ہیں: میں نے اس حدیث کو ابوبکر بن حزم سے بیان کیا تو انہوں نے کہا: مجھ سے اسی طرح ابوسلمہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے بیان کیا ہے۔
وضاحت: ۱؎: یعنی جب حاکم یا قاضی نے فیصلہ کرنے میں غور و خوض کر کے قرآن و حدیث اور اجماع سے اس کا حکم نکالا تو اگر اس کا فیصلہ صحیح ہے تو اس کے لیے دوگنا اجر و ثواب ہے، اور اگر فیصلہ غلط ہے تب بھی اس پر اس کو ایک ثواب ہے، اور کوشش کے بعد غلطی اور چوک ہونے پر وہ قابل مؤاخذہ نہیں ہے، اسی طرح وہ مسئلہ جو قرآن و حدیث اور اجماع امت میں صاف مذکور نہیں اگر اس کو کسی مجتہد عالم نے قرآن اور حدیث میں غور کر کے نکالا اور حکم صحیح ہوا تو وہ دوگنے اجر کا مستحق ہو گا، اور اگر مسئلہ میں غلطی ہوئی تو ایک اجر کا مستحق ہوا، لیکن شرط یہ ہے کہ اس عالم میں زیر نظر مسئلہ میں اجتہاد کی اہلیت و استعداد ہو۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الاعتصام 21(7352)، صحیح مسلم/الأقضیة 6 (1716)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 3 (2314)، (تحفة الأشراف: 15437، 10748)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/198، 204) (صحیح)»
Narrated Buraidah: The Prophet ﷺ as saying: "Judges are of three types, one of who will go to Paradise and two to Hell. The one who will go to Paradise is a man who knows what is right and gives judgement accordingly; by a man who knows what is right and acts tyrannically in his judgement will go to Hell; and a man who gives judgement for people when he is ignorant will go to Hell. " Abu Dawud said: On this subject this is the soundest tradition, that is m the tradition of Ibn Buraidah: Judges are of three types.
USC-MSA web (English) Reference: Book 24 , Number 3567
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (7352) صحيح مسلم (1716)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3574
فوائد ومسائل: فائدہ: یہ خوش خبری اس قاضی کے لئے ہے۔ جو صاحب علم ہے اجتہاد کرتا ہے۔ اس منصب کی ذمہ داریوں سے خوب واقف ہے۔ اللہ سے ڈرتا ہے۔ اور اس عہدے کا طلب گار نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3574
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2314
´اجتہاد کر کے صحیح فیصلہ تک پہنچنے والے حاکم کے اجر و ثواب کا بیان۔` عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جب حاکم فیصلہ اجتہاد سے کرے اور صحیح بات تک پہنچ جائے تو اس کو دہرا اجر ملے گا، اور جب فیصلہ کی کوشش کرے اور اجتہاد میں غلطی کرے، تو اس کو ایک اجر ملے گا۔“ یزید بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کو ابوبکر بن عمرو بن حزم سے بیان کیا تو انہوں نے کہا: اسی طرح اس کو مجھ سے ابوسلمہ نے بیان کیا ہے، اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2314]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) اجتہاد کے لفظی معنی کوشش کرنا ہیں۔ یہاں یہ مطلب ہے کہ دلائل وشواہد کی روشنی میں اخلاص کےساتھ پیش آمدہ مسئلے میں صحیح موقف تک پہنچنے کے لیے پوری توجہ اورکوشش سے سوچ بچار کی جائے اور یہ فیصلہ کرنے والے کا فرض ہے کہ اپنی طرف سے صحیح فیصلہ کرنے کی پوری کوشش کرے۔
(2) اس کوشش اور اجتہاد کے نتیجے میں صحیح بات سمجھ میں آ جانا اللہ کا فضل ہے جس کے نتیجے میں حق دار کو اس کا حق مل جاتا ہے یا مسئلہ پوچھنے والے کو صحیح مسئلہ معلوم ہو جاتا ہے۔ اور مسلمان کو فائدہ پہنچانا ایک نیکی ہے لہٰذا اجتہاد کرنے والے کو اس کا بھی ثواب ملتا ہے۔ یہ ثواب اللہ کی خاص رحمت ہے۔ (3) جس شخص سے اجتہاد میں غلطی ہو جائے اور اس کے نتیجے میں کسی کو غلط مسئلہ بتایا جائے یا حق دار اپنے حق سے محروم ہو جائے تو اجتہاد کرنے والے قاضی یا عالم کو گناہ نہیں ہو گا کیونکہ اس نے صحیح بات سمجھنےکی پوری کوشش کی ہے لہٰذا اسےاس کوشش کا ثواب بہر حال ملے گا۔
(4) اگر بعد میں آنے والوں کو معلوم ہو جائے کہ عالم سے مسئلہ معلوم کرنے میں غلطی ہوئی ہے توانہیں اپنی تحقیق کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔ اور غلطی کرنے والے عالم کےبارے میں حسن ظن رکھنا چاہیے کہ اس نے جان بوجھ کر غلط مسئلہ نہیں بتایا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2314
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4487
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، ”جب حاکم فیصلہ محنت و کوشش سے کرے، پھر فیصلہ صحیح ہو تو اسے دوہرا اجر ملے گا اور جب محنت و کوشش سے فیصلہ کرے، پھر غلطی کر جائے تو اس کو ایک اجر ملے گا۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4487]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: إجتَهَدَ: اپنی پوری صلاحیت و استعداد صرف کر دے کہ پیش آمدہ مسئلہ میں حق و صواب تک رسائی حاصل کر لے۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے اور یہ اتفاقی بات ہے کہ اگر صاحب استعداد و صلاحیت، جو فیصلہ کرنے کا اہل ہے، اگر اپنی پوری صلاحیت صرف کر کے، مکمل دیانت کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے اور فیصلہ صحیح کرتا ہے تو اس کو دو اجر ملتے ہیں، ایک اس کے اجتہاد اور محنت و کوشش پر اور دوسرا صحیح فیصلہ پر ہونے پر اور اگر غلط فیصلہ کرتا ہے تو اس کو اس کے اجتہاد کے سبب ایک اجر ملتا ہے، لیکن اگر وہ اہل نہیں ہے تو ہر صورت میں مجرم اور گناہ گار ہے، یہی صورت حال مجتہد کی ہے کہ اس کا اجتہاد صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی، اس لیے اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مختلف فیہ مسائل میں حق صرف ایک ہے، جس نے اس کو پا لیا ہے، وہ حق پر ہے اور جو اس سے چوک گیا، اس کا موقف غلط ہے، اس لیے ہر قول درست نہیں ہے اور نہ ہر قول غلط ہے، حق بہرحال اللہ کے ہاں معین ہے، ائمہ اربعہ کا یہی قول ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے، التقریر والتحبیر علامہ ابن امیر الحاج ج 3 ص 306)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4487
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7352
7352. سیدنا عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”جب حاکم اپنے اجتہاد سے کوئی فیصلہ کرے پھر وہ فیصلہ صحیح ہو تو اسے دو گناہ ثواب ملتا ہے اور اگر فیصلہ کرتے وقت اجتہاد کرے اور غلط کر جائے تو اسے صرف ایک اجر وثواب ہوتا ہے۔“ راوی کہتا ہے: میں نے یہ حدیث اب بکر بن عمرو بن حزم سے بیان کی تو انہوں نے مجھ سے ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے اسی طرح بیان کیا ہے۔ عبدالعزیز بن مطلب نے عبداللہ بن ابو بکر سے انہوں نے ابو سلمہ سے انہوں نے نبی ﷺ سے اسی طرح بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7352]
حدیث حاشیہ: یعنی مرسلاً روایت کی‘ اس کے والد نے موصولاً روایت کی تھی۔ اس حدیث سے یہ نکلا کہ ہر مسئلہ میں حق ایک ہی امر ہوتا ہے لیکن مجتہد اگر غلطی کرے تو بھی اس سے مؤاخذہ نہ ہوگا بلکہ اس کو اجر اور ثواب ملے گا۔ یہ اس صورت میں ہے جب مجتہد جان بوجھ کر نص یا اجماع کا خلاف نہ کرے ورنہ گنہگار ہوگا اور اس کی عدالت جاتی رہے گی۔ جیسے اوپر گزر چکا۔ اس حدیث سے بعضوں نے یہ بھی نکالا ہے کہ ہر قاضی مجتہد ہونا چاہئیے ورنہ اس کی قضاء صحیح نہ ہوگی۔ اہلحدیث کا یہی قول ہے اور یہی راجح ہے اور حنفیہ نے مقلد قاضی کی بھی قضا جائز رکھی ہے اور یہ کہا ہے کہ مقلد کو اپنے امام کے حکم کے برخلاف حکم دینا جائز نہیں مگر اس پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ آدمی کچھ مسائل میں مقلد ہو کچھ مسائل میں مجتہد ہو جس مسئلہ میں آدمی تمام دلائل کو اچھی طرح دیکھ لے اس میں وہ مجتہد ہو جاتا ہے اور جب اس مسئلہ میں مجتہد ہو گیا تو اب اس کو اس مسئلہ میں تقلید درست نہیں ہے بلکہ دلیل پر عمل کرنا چاہئیے۔ یہی قول حق اور یہی صواب ہے اور جس نے اس کے خلاف کیا ہے کہ دلیل معلوم ہونے پر بھی اس کے خلاف اپنے امام کے قول پر جمے رہنا چاہیے اس کا قول نا معقول اور غلط ہے۔ دلیل معلوم ہونے کے بعد دلیل کی پیروی کرنا ضروری ہے اور تقلید جائز نہیں اور اللہ تعالیٰ نے جا بجا قرآن میں ایسے مقلدوں کی مذمت کی ہے جو دلیل معلوم ہونے پر تقلید پر جمے رہتے تھے۔ یہ صریح جہالت اور نا انصافی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7352
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7352
7352. سیدنا عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”جب حاکم اپنے اجتہاد سے کوئی فیصلہ کرے پھر وہ فیصلہ صحیح ہو تو اسے دو گناہ ثواب ملتا ہے اور اگر فیصلہ کرتے وقت اجتہاد کرے اور غلط کر جائے تو اسے صرف ایک اجر وثواب ہوتا ہے۔“ راوی کہتا ہے: میں نے یہ حدیث اب بکر بن عمرو بن حزم سے بیان کی تو انہوں نے مجھ سے ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے اسی طرح بیان کیا ہے۔ عبدالعزیز بن مطلب نے عبداللہ بن ابو بکر سے انہوں نے ابو سلمہ سے انہوں نے نبی ﷺ سے اسی طرح بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7352]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حق ایک ہی ہوتا ہے۔ اسے تلاش کرنے میں اگرغلطی اور خطا ہو جائے تو تلاش حق کا ثواب ضائع نہیں ہوگا۔ یہ اس صورت میں ہے کہ جب مجتہد تلاش حق کے وقت جان بوجھ کر نص ِ صریح یا اجماع اُمت کی خلاف ورزی نہ کرے۔ اگر اس نے جان بوجھ کر خلاف ورزی کو تو گناہ گار بھی ہوگا اور اس کی عدالت بھی جاتی رہے گی۔ 2۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قاضی کو مجتہد ہونا چاہیے مقلد کی قضا جائز نہیں کیونکہ مقلد تو اپنے امام کے قول کو اختیار کرتا ہے، وہ اس خول سے باہر نہیں نکلتا، جبکہ دلیل معلوم ہو جانے کے بعد اس کے پیروی ضروری ہے، خواہ وہ اس کے امام کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نےقرآن مجید میں ایسے مقلدین کی مذمت کی ہے جو حق اور دلیل معلوم ہو جانے کےبعد بھی آبائی تقلید پر جمے رہتے ہیں۔ ایسا کرنا صریح جہالت اور واضح ناانصافی ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7352