جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر پر بیٹھنے ۱؎، اسے پختہ بنانے، اور اس پر عمارت تعمیر کرنے سے منع فرماتے سنا ہے ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: قبر پر بیٹھنے سے مراد حاجت کے لئے بیٹھنا ہے، اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ مطلق بیٹھنا مراد ہے کیونکہ اس میں صاحب قبر کا استخفاف ہے۔ ۲؎: قبر پر بیٹھنے سے صاحب قبر کی توہین ہوتی ہے اور قبر کو مزین کرنے اور اس پر عمارت بنانے سے اگر ایک طرف فضول خرچی ہے تو دوسری جانب اس سے لوگوں کا شرک میں مبتلا ہونے کا خوف ہے، کیونکہ قبروں پر بنائے گئے قبے اور مشاہد شرک کے مظاہر و علامات میں سے ہیں۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3225
فوائد ومسائل: قبر کے عین اوپر بیٹھنا یا اظہار غم میں اس کا مجاور بن جانا حرام ہے۔ ایسے ہی اسے پختہ کرنا یا اس پر قبہ وغیرہ بنانا حرام ہے۔ کسی ضرورت کے تحت قبر کے پاس بیٹھ جانے میں کوئی حرج نہیں۔ (دیکھئے حدیث 3212)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3225
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2029
´قبر اونچی کرنے کے حکم کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ قبر پر قبہ بنایا جائے یا اس کو اونچا کیا جائے، یا اس کو پختہ بنایا جائے، سلیمان بن موسیٰ کی روایت میں ”یا اس پر لکھا جائے“ کا اضافہ ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2029]
اردو حاشہ: (1)”عمارت“ یعنی قبر کو عمارت کی طرح اونچا بنانا یا قبر کے ارد گرد عمارت بنانا، خواہ قبر کی حفاظت کے لیے ہو یا زائرین کی سہولت کے لیے، بہرصورت منع ہے کیونکہ اس طرح قبر دیر تک باقی رہے گی۔ بعد میں آنے والوں کو تنگی ہوگی، نیز یہ قبر کی پوجا پاٹ کا سبب ہے۔ آج کل ایسی قبریں مجرموں اور نشیٔ لوگوں کا اڈہ بنی ہوئی ہیں۔ (2)”اضافہ“ قبر سے نکلنے والی مٹی کے علاوہ اور مٹی ڈالنا منع ہے کیونکہ اس طرح قبر شرعی حد سے بلند ہو جائے گی اور اسے ختم ہونے میں دیر لگے گی۔ یا اس سے مراد ضرورت سے زیادہ لمبی چوڑی قبر بنانا ہے، یہ بھی منع ہے کیونکہ اس سے جگہ تنگ ہوگی اور دوسرے لوگوں کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی، نیز بے مقصد جگہ ضائع ہوگی۔ (3) تحصیص، یعنی چونے وغیرہ سے پختہ کرنا کیونکہ اس سے مضبوطی اور پائیداری ہوتی ہے جبکہ شریعت کا منشا یہ ہے کہ قبر کچھ دیر کے لیے رہے، پھر ختم ہو جائے تاکہ آنے والوں کے لیے جگہ خالی ہو۔ بعض علماء نے مٹی کے ساتھ قبر لیپنے کی اجازت دی ہے مگر اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مٹی قبر کی مٹی کے علاوہ نہ ہو بلکہ قبر ہی کی مٹی پر پانی ڈال کر ہاتھ پھیر دیا جائے، البتہ اگر کوئی قبر بیٹھ کر گڑھا بن جائے تو اسے الگ مٹی سے پر کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ مجبوری ہے۔ (4)”لکھا جائے“ مثلاً: نام و نسب اور پتہ وغیرہ یا تاریخ وفات یا قرآن مجید کی آیات یا احادیث وغیرہ، گویا کچھ بھی لکھنا منع ہے کیونکہ یہ چیز قبر کو عرصۂ دراز تک باقی رکھنے کا سبب بنے گی۔ قرآن مجید وغیرہ لکھنا، اس لیے بھی منع ہے کہ قبر میں ٹوٹ پھوٹ ہوتی رہتی ہے اور یہ الفاظ مقدسہ کی بے حرمتی کا سبب بنے گی، نیز متعلقین کو تو قبر بغیر کتابت کے بھی معلوم ہوتی ہے اور عوام الناس کو اس اعلان کا کوئی فائدہ نہیں، لہٰذا لکھنا فضول ہے بلکہ ریا کاری ہے۔ (5) عوام الناس میں کسی چیز کا رائج ہو جانا اس کے جواز کی دلیل نہیں جبکہ وہ صریح فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہو جیسے مندرجہ بالا چیزیں۔ شرک بھی تو ہر دور میں محبوب عوام رہا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2029
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2030
´قبر پر عمارت بنانے کے حکم کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پختہ بنانے ۱؎ یا اس پر عمارت بنانے ۲؎ یا اس پر کسی کے بیٹھنے ۳؎ سے منع فرمایا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2030]
اردو حاشہ: ”بیٹھنے سے منع فرمایا“ کیونکہ اس میں صاحب قبر کی بے حرمتی ہے یا بطور سوگ بیٹھنے سے روکا ہے یا مجاور بن کر بیٹھنا مراد ہے۔ بعض نے اس سے قضائے حاجت کے لیے بیٹھنا مراد لیا ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ مندرجہ بالا تمام صورتیں منع ہیں۔ اسی طرح قبر پر ٹیک لگانا بھی منع ہے کیونکہ اس میں بھی صاحب قبر کی بے حرمتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2030
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2031
´قبروں کو پختہ بنانے کے حکم کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پختہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2031]
اردو حاشہ: اس زمانے میں جو کام چونے سے لیا جاتا تھا، آج کل وہ کام سیمنٹ سے لیا جاتا ہے، لہٰذا سیمنٹ کا استعمال بھی قبر پر منع ے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: 2029)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2031
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1562
´قبروں پر عمارت بنانے، ان کو پختہ کرنے اور ان پر کتبہ لگانے کی ممانعت۔` جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پختہ بنانے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1562]
اردو حاشہ: فائده: چونا گچ کرنا گزشتہ زمانے میں عمارت میں پختگی پیدا کرنے کاطریقہ تھا آج کل اس مقصد کےلئے سیمنٹ استعمال کیا جاتا ہے۔ قبر پر صرف قبر کے گڑھے سے نکلی ہوئی مٹی ڈالنا کافی ہے۔ مزید مٹی ڈالنا یا قبر کو پختہ کرنا منع ہے۔ اس لحاظ سے اس پر کمرہ قبے وغیرہ تعمیر کرنا بالاولیٰ منع ہوگا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1562
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1052
´قبریں پختہ کرنے اور ان پر لکھنے کی ممانعت۔` جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ قبریں پختہ کی جائیں ۱؎، ان پر لکھا جائے ۲؎ اور ان پر عمارت بنائی جائے ۳؎ اور انہیں روندا جائے ۴؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1052]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس ممانعت کی وجہ ایک تویہ ہے کہ اس میں فضول خرچی ہے کیونکہ اس سے مردے کوکوئی فائدہ نہیں ہوتا دوسرے اس میں مردوں کی ایسی تعظیم ہے جو انسان کو شرک تک پہنچادیتی ہے۔
2؎: یہ نہی مطلقاً ہے اس میں میت کا نام اس کی تاریخ وفات اورتبرک کے لیے قرآن کی آیتیں اوراسماء حسنیٰ وغیرہ لکھنا سبھی داخل ہیں۔
3؎: مثلاً قبّہ وغیرہ۔
4؎: یہ ممانعت میت کی توقیروتکریم کی وجہ سے ہے اس سے میت کی تذلیل وتوہین ہوتی ہے اس لیے اس سے منع کیا گیا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1052
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2247
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ قبر کو پختہ بنانے سے منع کیا گیا ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2247]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ علامہ تورپشتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے۔ کہ قبر کو پختہ بنانا یا اس پر خیمہ گاڑنا دونوں منع ہیں، کیونکہ ان کا فائدہ نہیں ہے اور یہ اہل جاہلیت کا وطیرہ اور عمل ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی قبر پر خیمہ لگا دیکھا تو فرمایا، اےغلام! اس کو اکھاڑ دو، میت کا عمل ہی اس کے لیے سایہ فراہم کرتا ہے اور بعض احناف نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ مال کا ضیاع ہے۔ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، میں نے مکہ کے ائمہ کو دیکھا وہ عمارت کو گرانے کا حکم دیتے تھے۔ اس لیے یہ کہنا: شروع سے لے کر اب تک امت کے صالحین اور علماء بزرگان دین کے مزارات پر گنبد بناتے چلے آئے ہیں، اس لیے (امت کے اجماع عملی سے گنبد بنانے کا جواز ثابت ہے) خلاف واقعہ ہے۔ اور دعویٰ اجماع غلط ہے۔ نیز وہ اجماع جو خلاف نص ہو قابل قبول نہیں ہے اور نہ ہی نص کے خلاف اجماع ممکن ہے۔ اسی طرح ابن عابدین نے قبر پر لکھنے کے جواز پر اجماع عملی کا دعویٰ کیا ہے۔ حالانکہ امام ابی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے ائمۃ المسلمین نے جواز کا فتویٰ نہیں دیا اور نہ ہی انہوں نے اپنی قبروں پر لکھنے کی وصیت کی ہے۔ بلکہ ان کی اکثریت نے اس کے ناجائز ہونے کا فتویٰ دیا ہے اور اپنی تصانیف میں بھی یہی لکھا ہے۔ (فتح المہلم 2/ 507) لہٰذا یہ لوگوں کا غلط عمل ہے اس کو اجماع کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ کیا اب ساری دنیا کے مسلمانوں میں سود کا چال چلن ہے تو یہ جائز ہو جائے گا۔ نیز ان حضرات نے یہ دعویٰ علماء اور صلحاء کی قبروں کے لیے کیا تھا، اب یہ وبا عام ہو گئی ہے۔ تو کیا اس کو اجماع عملی کا نام دے کر اس کے جواز کا فتویٰ دیا جائے گا۔ حالانکہ اصل حقیقت حال یہ ہے کہ ہر دور اور ہر زمانہ میں ائمہ المسلمین میں ایسے لوگ موجود رہے ہیں اور اب بھی ہیں جو ان غلط کاموں سے روکتے رہتے ہیں۔ یہی حال ان مزارات پر چادریں یا پھول چڑھانے کا ہے، اب لوگ قبروں والوں کو پکار کر اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے نذر مانتے یا نیاز چڑھاتے ہیں۔ اور یہ کام بالاجماع باطل ہے۔ (شرح صحیح مسلم سعیدی 2/ 817) تو کیا اب اس عمل کو جائز قرار دیا جائےگا۔ کیونکہ سب لوگ کر رہے ہیں۔ 2۔ جس طرح قبر کو پختہ بنانا اور اس پر عمارت تعمیر کرنا ناجائز ہے۔ اسی طرح اس پر مجاور بن کر بیٹھنا درست نہیں ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے قبر پختہ بنانا، اس پر عمارت بنانا اور بیٹھنا منع ہے۔