(مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن إبراهيم الدمشقي، حدثنا الوليد. ح وحدثنا إبراهيم بن موسى الرازي، اخبرنا الوليد، وحديث عبد الرحمن اتم،حدثنا مروان بن جناح، عن يونس بن ميسرة بن حلبس، عن واثلة بن الاسقع، قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم على رجل من المسلمين، فسمعته يقول:" اللهم إن فلان بن فلان في ذمتك، فقه فتنة القبر، قال عبد الرحمن: في ذمتك، وحبل جوارك، فقه من فتنة القبر، وعذاب النار، وانت اهل الوفاء، والحمد اللهم، فاغفر له وارحمه، إنك انت الغفور الرحيم". قال عبد الرحمن، عن مروان بن جناح. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ. ح وحَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ، وَحَدِيثُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَتَمُّ،حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ جُنَاحٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ مَيْسَرَةَ بْنِ حَلْبَسٍ، عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ:" اللَّهُمَّ إِنَّ فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ فِي ذِمَّتِكَ، فَقِهِ فِتْنَةَ الْقَبْرِ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: فِي ذِمَّتِكَ، وَحَبْلِ جِوَارِكَ، فَقِهِ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ، وَعَذَابِ النَّارِ، وَأَنْتَ أَهْلُ الْوَفَاءِ، وَالْحَمْدِ اللَّهُمَّ، فَاغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ، إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ". قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ جَنَاحٍ.
واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مسلمانوں میں سے ایک شخص کی نماز جنازہ پڑھائی تو میں نے سنا آپ کہہ رہے تھے: «اللهم إن فلان بن فلان في ذمتك فقه فتنة القبر»”اے اللہ! فلاں کا بیٹا فلاں تیری امان و پناہ میں ہے تو اسے قبر کے فتنہ (عذاب) سے بچا لے“۔ عبدالرحمٰن کی روایت میں: «في ذمتك» کے بعد عبارت اس طرح ہے: «وحبل جوارك فقه من فتنة القبر وعذاب النار وأنت أهل الوفاء والحمد اللهم فاغفر له وارحمه إنك أنت الغفور الرحيم»”اے اللہ! وہ تیری امان میں ہے، اور تیری حفاظت میں ہے، تو اسے قبر کے فتنہ اور جہنم کے عذاب سے بچا لے، تو وعدہ وفا کرنے والا اور لائق ستائش ہے، اے اللہ! تو اسے بخش دے، اس پر رحم فرما، تو بہت بخشنے والا، اور رحم فرمانے والا ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجنائز 23 (1499)، (تحفة الأشراف: 11753)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/491) (صحیح)»
Narrated Wathilah ibn al-Asqa: The Messenger of Allah ﷺ led us in prayer over bier of a Muslim and I heard him say: O Allah, so and so, son of so and so, is in Thy protection, so guard him from the trial in the grave. (Abdur Rahman in his version said: "In Thy protection and in Thy nearer presence, so guard him from the trial in the grave) and the punishment in Hell. Thou art faithful and worthy of praise. O Allah, forgive him and show him mercy. Thou art the forgiving and the merciful one. " Abdur Rahman said: "On the authority of Marwan ibn Janah. "
USC-MSA web (English) Reference: Book 20 , Number 3196
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مشكوة المصابيح (1677) الوليد بن مسلم صرح بالسماع المسلسل عند ابن المنذر في الأوسط (5/441 ح 3173)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3202
فوائد ومسائل: 1۔ یہ حدیث بھی دلیل ہے کہ جنازے میں دعا بلند آواز سے پڑھی گئی تھی۔ 2۔ اس دعا میں میت اور اس کے والد کا نام بھی لیا جاسکتا ہے۔ 3۔ چاہیے کہ جنازہ کی مختلف دعایئں یاد کی جایئں اور بچوں کو یاد کرائی جایئں تاکہ یہ میت کےلئے اخلاص کے ساتھ دعا کرنے کا حق ادا ہوسکے۔ 4۔ یہ دعایئں اس وقت مقبول ہوتی ہیں۔ جب میت خود اور اس کا جنازہ پڑھنے والے کماحقہ مسلمان ہوں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3202
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابن ماجه 1499
´نماز جنازہ کی دعا` «. . . عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَأَسْمَعُهُ يَقُولُ: " اللَّهُمَّ إِنَّ فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ فِي ذِمَّتِكَ وَحَبْلِ جِوَارِكَ، فَقِهِ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ، وَعَذَابِ النَّارِ، وَأَنْتَ أَهْلُ الْوَفَاءِ وَالْحَقِّ، فَاغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ " . . . .» ”. . . ´واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کے نماز جنازہ پڑھائی، تو میں آپ کو یہ دعا پڑھتے ہوئے سن رہا تھا: «اللهم إن فلان بن فلان في ذمتك وحبل جوارك فقه من فتنة القبر وعذاب النار وأنت أهل الوفاء والحق فاغفر له وارحمه إنك أنت الغفور الرحيم»”اے اللہ! فلاں بن فلاں، تیرے ذمہ میں ہے، اور تیری پناہ کی حد میں ہے، تو اسے قبر کے فتنے اور جہنم کے عذاب سے بچا لے، تو عہد اور حق پورا کرنے والا ہے، تو اسے بخش دے، اور اس پر رحم کر، بیشک تو غفور (بہت بخشنے والا) اور رحیم (رحم کرنے والا) ہے . . .“[سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/بَابُ: مَا جَاءَ فِي الدُّعَاءِ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الْجِنَازَةِ: 1499]
فوائد و مسائل: بعض لوگ نماز جنازہ کے درود میں یہ اضافہ کرتے ہیں: «كما صليت وسلمت وباركت ورحمت .» یہ بالکل ناجائز ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعلیم نہیں دی۔ بعد میں کسی شخص نے دین میں اضافہ کرتے ہوئے یہ الفاظ گھڑے ہیں۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1499
´نماز جنازہ کی دعا۔` واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کے نماز جنازہ پڑھائی، تو میں آپ کو یہ دعا پڑھتے ہوئے سن رہا تھا: «اللهم إن فلان بن فلان في ذمتك وحبل جوارك فقه من فتنة القبر وعذاب النار وأنت أهل الوفاء والحق فاغفر له وارحمه إنك أنت الغفور الرحيم»”اے اللہ! فلاں بن فلاں، تیرے ذمہ میں ہے، اور تیری پناہ کی حد میں ہے، تو اسے قبر کے فتنے اور جہنم کے عذاب سے بچا لے، تو عہد اور حق پورا کرنے والا ہے، تو اسے بخش دے، اور اس پر رحم کر، بیشک تو غفور (بہت بخشنے والا) اور رحیم (رحم کرنے والا) ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1499]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) عذاب قبر حق ہے۔ اس لئے نبی اکرم ﷺنے میت کے لئے عذاب قبر سے پناہ کی دعا فرمائی۔ لیکن اس کا تعلق عالم غیب سے ہے۔ جس طرح ہم اللہ اور رسول ﷺ کی بتائی ہوئی دوسری بہت سی چیزوں پر بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں۔ اسی طرح عذاب قبر پربھی ایمان لاتے ہیں۔ کیونکہ وہ زندہ لوگوں کے حواس کی گرفت سے باہر ہے۔
(2) قبر کا عذاب کفر وشرک کے علاوہ دوسرے گناہوں کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے۔ مثلاً جسم اور کپڑوں کو پیشاب سے نہ بچانا اور چغلی کھانا جیسے کہ رسول اللہ ﷺنے جب قبروں میں مدفون دو شخصوں کو عذاب ہوتے سنا تو فرمایا ان دونوں کوعذاب ہورہا ہے اور عذاب بھی کسی بڑے کام کی وجہ سے نہیں ہورہا۔ (ایسا گناہ نہیں تھا جس سے بچنا بہت دشوار ہو) ہاں ایک تو اپنے پیشاب سے نہیں بچتا تھا۔ دوسرا لگائی بجھائی کرتا پھرتا تھا۔ (ایک کی بات دوسرے کو بتا کر آپس میں لڑا دیتا تھا۔)(صحیح البخاري، الوضوء، باب من الکبائر أن لا یستشر من بوله، حدیث: 216)
(3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مذکورہ دعا جنازے میں بلند آواز سے پڑھی گئی تھی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1499