عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے، اور جب تک جنازہ قبر میں اتار نہ دیا جاتا، بیٹھتے نہ تھے، پھر آپ کے پاس سے ایک یہودی عالم کا گزر ہوا تو اس نے کہا: ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں (اس کے بعد سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے رہنے لگے، اور فرمایا: ”(مسلمانو!) تم (بھی) بیٹھے رہو، ان کے خلاف کرو“۔
Narrated Ubadah ibn as-Samit: The Messenger of Allah ﷺ used to stand up for a funeral until the corpse was placed in the grave. A learned Jew (once) passed him and said: This is how we do. The Prophet ﷺ sat down and said: Sit down and act differently from them.
USC-MSA web (English) Reference: Book 20 , Number 3170
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (1020) ابن ماجه (1545) قال الترمذي:”غريب،وبشربن رافع ليس بالقوي في الحديث“وعبد اللّٰه بن سليمان بن جنادة ضعيف (تقريب التهذيب:3369) وأبوه منكر الحديث (تق: 2542) وللحديث شواھد ضعيفةوحديث مسلم (962) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 117
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1545
´جنازہ دیکھ کر کھڑے ہونے کا بیان۔` عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی جنازے کے پیچھے چلتے تو اس وقت تک نہ بیٹھتے جب تک کہ اسے قبر میں نہ رکھ دیا جاتا، ایک یہودی عالم آپ کے سامنے آیا، اور کہا: اے محمد! ہم بھی ایسے ہی کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھنا شروع کر دیا، اور فرمایا: ”ان کی مخالفت کرو ۱؎۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1545]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اس سے واضح ہوتا ہے کہ میت کی تدفین تک کھڑے رہنا منسوخ ہے۔ بلکہ جب میت کی چار پائی زمین پر رکھ دی جائے۔ تو ساتھ آنے والے بیٹھ سکتے ہیں۔
(2) غیرمسلموں سے امتیاز قائم کرنا اسلام کا ایک اہم اصول ہے۔ شریعت میں اس اُصول کا لحاظ عبادات میں بھی رکھا گیا ہے۔ اور دوسرے روز مرہ معاملات میں بھی، لہٰذا عیسائيوں کا بڑا دن نیا سال (یکم جنوری کو خوشی منانا) اور ہندووں کی بسنت ہولی اور دیوالی، شادی، غمی کی رسمیں مثلاً غم کے موقع پر سیاہ لباس پہننا یا بیوہ کی دوسری شادی کو معیوب سمجھنا یا شادی کے موقع پر دولیا کا دلہن کی رشتہ دار عورتوں سے بلا تکلف ملنا اور آپس میں ہنسی مذاق کرنا۔ اور اسی طرح کے دیگر معاملات اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہونے کی وجہ سے اور غیر مسلموں کے رواج ہونے کی وجہ حرام ہیں جن سے پرہیز انتہائی ضروری ہے۔
(3) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ یہی روایت سنن ابی داؤد۔ (حدیث: 3176) میں بھی مروی ہے۔ وہاں پر بھی ہمارے شیخ نے اس کو سنداًضعیف قرار دیا ہے۔ لیکن مزید لکھا ہے کہ صحیح مسلم کی روایت (962) اس سے کفایت کرتی ہے۔ لہٰذا مسئلہ اسی طرح ہے کہ بعض محققین کے نزدیک میت کودیکھ کر کھڑا ہونا منسوخ ہے۔ اور بعض کے نزدیک کھڑا ہونا مستحب ہے۔ صرف وجوب مسنوخ ہے- واللہ أعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1545