(مرفوع) حدثنا عبد العزيز بن يحيى، حدثنا محمد بن سلمة، عن محمد بن إسحاق، عن الزهري، عن عروة، عن اسامة بن زيد قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم يعود عبد الله بن ابي في مرضه الذي مات فيه، فلما دخل عليه عرف فيه الموت، قال:" قد كنت انهاك عن حب يهود"، قال: فقد ابغضهم اسعد بن زرارة فمه، فلما مات اتاه ابنه، فقال: يا رسول الله، إن عبد الله بن ابي قد مات، فاعطني قميصك اكفنه فيه، فنزع رسول الله صلى الله عليه وسلم قميصه، فاعطاه إياه. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ عَرَفَ فِيهِ الْمَوْتَ، قَالَ:" قَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ حُبِّ يَهُودَ"، قَالَ: فَقَدْ أَبْغَضَهُمْ أسْعَدُ بْنُ زُرَارَةَ فَمَهْ، فَلَمَّا مَاتَ أَتَاهُ ابْنُهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ قَدْ مَاتَ، فَأَعْطِنِي قَمِيصَكَ أُكَفِّنْهُ فِيهِ، فَنَزَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَمِيصَهُ، فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ.
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن ابی کے مرض الموت میں اس کی عیادت کے لیے نکلے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس پہنچے تو اس کی موت کو بھانپ لیا، فرمایا: ”میں تجھے یہود کی دوستی سے منع کرتا تھا“، اس نے کہا: عبداللہ بن زرارہ نے ان سے بغض رکھا تو کیا پایا، جب عبداللہ بن ابی مر گیا تو اس کے لڑکے (عبداللہ) آپ کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! عبداللہ بن ابی مر گیا، آپ مجھے اپنی قمیص دے دیجئیے تاکہ اس میں میں اسے کفنا دوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی قمیص اتار کر دے دی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 108)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/201) (حسن)» (بیہقی نے دلائل النبوة (5؍ 285) میں ابن اسحاق کی زہری سے تحدیث نقل کی ہے، نیز قمیص کا جملہ صحیحین میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود 8؍ 410)
Narrated Usamah bin Zaid: The Messenger of Allah ﷺ went out to visit Abdullah bin Ubayy during his illness of which he died. When he entered upon him, he realised death on him. He said: I used to forbid you from the love of Jews. He (Abdullah) said: Asad bin Zurarah hated them. So what (the benefited) ? When he died, his son came and said: Prophet of Allah, Abdullah bin Ubayy has died, give me your shirt, so that I shroud him in it. The Messenger of Allah ﷺ took off his shirt and gave it to him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 20 , Number 3088
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد لكن قصة القميص صحيحة ق
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن إسحاق عنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 114
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3094
فوائد ومسائل: 1۔ اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ تاہم قمیص کا قصہ صحیح ثابت ہے۔ (علامہ البانی) 2۔ مسلمان کی عیادت کےلئے جانا ایک شرعی حق ہے۔ اسی طرح کسی غلط کردارشخص کی عیادت کے لئے بھی جایا جا سکتا ہے۔ اور یہ یقینا اسلامی اخلاق ومروت کا حصہ ہے۔
3۔ اس منافق کے صاحب زادے حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک خالص مومن صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے شاید اپنے اس محب مخلص کی دلداری کےلئے اپنی قیمص عنایت فرما دی تھی۔ اور یہ عمل ایک بیٹے کا اپنے باپ کے کئے ایک ادنیٰ سا حیلہ تھا کہ شاید اس کی برکت سے اسے کچھ فائدہ ہوجائے۔ اور یہ بھی ہے کہ نبی کریم ﷺنے اس طرح سے اس منافق کے ایک احسان کا بدلہ چکایا تھا۔ کہ بدر کے موقع پر جب رسول اللہ ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ قید کرلئے گئے۔ تو ان کے پاس قمیص نہ تھی۔ تو عبداللہ بن ابی نے اپنی قمیص دی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نبی کریم ﷺ سے جب کوئی چیز مانگی جاتی تو آپ اس سے انکار نہ فرمایا کرتے تھے۔ اور یوں بھی کہا گیا ہے کہ ممکن ہے کہ یہ عمل اس وقت کا ہو جب کہ یہ حکم نازل نہ ہوا تھا۔ (وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ ۖ)(التوبہ۔ 84/9) ان منافقوں میں سے جب کوئی مر جائے تو آپ اس کا جنازہ مت پڑھیں۔ اوراس کی قبر پر بھی مت کھڑے ہوں۔ (عون المعبود)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3094