سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابي داود تفصیلات

سنن ابي داود
کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
Tribute, Spoils, and Rulership (Kitab Al-Kharaj, Wal-Fai Wal-Imarah)
22. باب كَيْفَ كَانَ إِخْرَاجُ الْيَهُودِ مِنَ الْمَدِينَةِ
22. باب: مدینہ سے یہود کیسے نکالے گئے۔
Chapter: How Were The Jews Expelled From Al-Madinah?
حدیث نمبر: 3000
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى بن فارس، ان الحكم بن نافع حدثهم، قال: اخبرنا شعيب، عن الزهري، عن عبد الرحمن بن عبد الله بن كعب بن مالك، عن ابيه، وكان احد الثلاثة الذين تيب عليهم، وكان كعب بن الاشرف يهجو النبي صلى الله عليه وسلم ويحرض عليه كفار قريش، وكان النبي صلى الله عليه وسلم حين قدم المدينة واهلها اخلاط منهم المسلمون والمشركون يعبدون الاوثان واليهود، وكانوا يؤذون النبي صلى الله عليه وسلم واصحابه فامر الله عز وجل نبيه بالصبر والعفو ففيهم انزل الله: ولتسمعن من الذين اوتوا الكتاب من قبلكم سورة آل عمران آية 186 الآية، فلما ابى كعب بن الاشرف ان ينزع عن اذى النبي صلى الله عليه وسلم، امر النبي صلى الله عليه وسلم سعد بن معاذ ان يبعث رهطا يقتلونه، فبعث محمد بن مسلمة وذكر قصة قتله، فلما قتلوه فزعت اليهود والمشركون فغدوا على النبي صلى الله عليه وسلم، فقالوا: طرق صاحبنا فقتل، فذكر لهم النبي صلى الله عليه وسلم الذي كان يقول: ودعاهم النبي صلى الله عليه وسلم إلى ان يكتب بينه كتابا ينتهون إلى ما فيه، فكتب النبي صلى الله عليه وسلم بينه وبينهم وبين المسلمين عامة صحيفة.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، أَنَّ الْحَكَمَ بْنَ نَافِعٍ حَدَّثَهُمْ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَكَانَ أَحَدَ الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ تِيبَ عَلَيْهِمْ، وَكَانَ كَعْبُ بْنُ الأَشْرَفِ يَهْجُو النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُحَرِّضُ عَلَيْهِ كُفَّارَ قُرَيْشٍ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ وَأَهْلُهَا أَخْلَاطٌ مِنْهُمُ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِكُونَ يَعْبُدُونَ الأَوْثَانَ وَالْيَهُودُ، وَكَانُوا يُؤْذُونَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَهُ فَأَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ نَبِيَّهُ بِالصَّبْرِ وَالْعَفْوِ فَفِيهِمْ أَنْزَلَ اللَّهُ: وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ سورة آل عمران آية 186 الْآيَةَ، فَلَمَّا أَبَى كَعْبُ بْنُ الأَشْرَفِ أَنْ يَنْزِعَ عَنْ أَذَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ أَنْ يَبْعَثَ رَهْطًا يَقْتُلُونَهُ، فَبَعَثَ مُحَمَّدَ بْنَ مَسْلَمَةَ وَذَكَرَ قِصَّةَ قَتْلِهِ، فَلَمَّا قَتَلُوهُ فَزَعَتْ الْيَهُودُ وَالْمُشْرِكُونَ فَغَدَوْا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: طُرِقَ صَاحِبُنَا فَقُتِلَ، فَذَكَرَ لَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي كَانَ يَقُولُ: وَدَعَاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَنْ يَكْتُبَ بَيْنَهُ كِتَابًا يَنْتَهُونَ إِلَى مَا فِيهِ، فَكَتَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمُسْلِمِينَ عَامَّةً صَحِيفَةً.
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (اور آپ ان تین لوگوں میں سے ایک ہیں جن کی غزوہ تبوک کے موقع پر توبہ قبول ہوئی ۱؎): کعب بن اشرف (یہودی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کیا کرتا تھا اور کفار قریش کو آپ کے خلاف اکسایا کرتا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے اس وقت وہاں سب قسم کے لوگ ملے جلے تھے ان میں مسلمان بھی تھے، اور مشرکین بھی جو بتوں کو پوجتے تھے، اور یہود بھی، وہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے صحابہ کو بہت ستاتے تھے تو اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو صبر اور عفوو درگزر کا حکم دیا، انہیں کی شان میں یہ آیت «ولتسمعن من الذين أوتوا الكتاب من قبلكم» تم ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور ان لوگوں سے جو شرک کرتے ہیں سنو گے بہت سی مصیبت یعنی تم کو برا کہیں گے، تم کو ایذا پہنچائیں گے، اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرو تو بڑا کام ہے (سورۃ آل عمران: ۱۸۶) اتری تو کعب بن اشرف جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذارسانی سے باز نہیں آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ چند آدمیوں کو بھیج کر اس کو قتل کرا دیں تو آپ نے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا، پھر راوی نے اس کے قتل کا قصہ بیان کیا، جب ان لوگوں نے اسے قتل کر دیا تو یہودی اور مشرکین سب خوف زدہ ہو گئے، اور دوسرے دن صبح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور کہنے لگے: رات میں ہمارا سردار مارا گیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے وہ باتیں ذکر کیں جو وہ کہا کرتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک بات کی دعوت دی کہ آپ کے اور ان کے درمیان ایک معاہدہ لکھا جائے جس کی سبھی لوگ پابندی کریں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور ان کے درمیان ایک عمومی صحیفہ (تحریری معاہدہ) لکھا۔

وضاحت:
۱؎: سند میں «عبدالرحمن بن عبدالله بن كعب بن مالك، عن أبيه» ہے، اس عبارت کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ عبدالرحمن کے والد عبداللہ بن کعب بن مالک ان تین اشخاص میں سے ایک ہیں جن کی غزوہ تبوک کے موقع پر توبہ قبول ہوئی حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ وہ عبدالرحمن کے والد عبداللہ کے بجائے ان کے دادا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں اور باقی دو کے نام مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہما ہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11152) (صحیح الإسناد)» ‏‏‏‏

Kaab bin Malik who was one of those whose repentance was accepted said “Kaab bin Al Ashraf used to satire the Prophet ﷺ and incited the infidels of the Quraish against him. When the Prophet ﷺ came to Madeena, its people were intermixed, some of them were Muslims and others polytheists aho worshipped idols and some were Jews. They used to hurt the Prophet ﷺ and his Companions. Then Allaah Most High commanded His Prophet to show patience and forgiveness. So Allaah revealed about them “And ye shall certainly hear much that will grieve you from those who receive Book before you”. When Kaab bin Al Ashraf refused to desist from hurting the Prophet ﷺ the Prophet ﷺ ordered Saad bin Muadh to send a band to kill him. He sent Muhammad bin Maslamah and mentioned the story of his murder. When they killed him, the Jews and the polytheist were frightened. Next day they came to the Prophet ﷺ and said “Our Companions were attacked and night and killed. ” The Prophet ﷺ informed them about that which he would say. The Prophet ﷺ then called them so that he could write a deed of agreement between him and them and they should fulfill its provisions and desist from hurting him. He then wrote a deed of agreement between him and them and the Muslims in general. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 2994


قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
الزھري عنعن
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 109

   سنن أبي داود3000كعب بن مالكأمر الله نبيه بالصبر والعفو ففيهم أنزل الله ولتسمعن من الذين أوتوا الكتاب من قبلكم الآية فلما أبى كعب بن الأشرف

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3000 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3000  
فوائد ومسائل:

یہودی مدینہ سے کیوں نکالے گئے اس کی بابت یہ ہے کہ یہ عبرانی لوگ تھے۔
جو اشوری اور رومی ظلم وجبر سے بھاگ کر حجاز میں پناہ گزیں ہوگئے تھے۔
اور طویل اقامت کے باعث ان کی وضع قطع زبان اور تہذیب بالکل عربی ہوگئی تھی۔
مدینہ منورہ میں ان کےتین قبیلے تھے۔
بنوقینقاع۔
بنو نضیر۔
اور بنوقریظہ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے مدینہ آتے ہی مہاجرین اور انصا ر کے مابین مواخات کرائی۔
اور دوسرے جانب اس شہر کے رہنے والے یہودیوں اور بت پرستوں سے ایک سیاسی معاہدہ کیا۔
کہ ہم سب مل کر اس شہر کے اندر امن و امان قائم رکھیں گے۔
اور بیرونی حملے کی صورت میں ایک دوسرے کی بھرپور مدد کریں گے۔
مگر یہودیوں نے خفیہ طور پر مسلمانوں کے خلاف عداوت کا سلسلہ اپنائے رکھا۔
قریش مکہ کے ساتھ بھی ان کے رابطے تھے۔
اور عرب کے دیگرقبائل کو بھی وہ مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتے رہتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو اذیت دینا ان کےلئے معمولی بات ہوتی تھی۔
عمومی معاہدے کو بُری طرح توڑنے بلکہ مدینہ کے دفاع کے معاہدے میں ٖغداری کے واضح ثبوتوں کے بعد اس دور کی سخت ترین سزا کی بجائے محض مدینہ کو ان کی سازشوں اور فتنہ پردازیوں سے محفوظ رکھنے کےلئے انہیں مدینہ سے جلا وطن کیا گیا۔
تفصیل کےلئے سیرت کی کتابیں دیکھئے (بالخصوص۔
الرحیق المختوم)
از جناب صفی الرحمٰن مبارک پوری۔


اسلامی معاشرے میں اللہ کے کسی نبی ؑ خصوصا آخری رسولصلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گستاخی کرنے والے کو کوئی امان نہیں اوراس کی سزا قتل ہے۔


کعب بن اشرف کا قتل غزوہ بدر کے بعد ہجرت کے تیسرے سال کی ابتداء میں ہوا تھا۔
اس کا بیان گزشتہ حدیث 2768 میں ہوا ہے۔
اور یہ ان لوگوں کو مدینہ سے نکالے جانے کی ابتداء تھی۔


اس حدیث میں جس معاہدے کا ذکر ہے۔
ممکن ہے کہ نیا ہو اور ممکن ہے کہ اس معاہدے کی تجدید ہو جو ابتدائے ہجرت میں ان کے ساتھ طے پایا تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3000   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.