(موقوف) حدثنا احمد بن محمد بن ثابت، حدثني علي بن حسين، عن ابيه، عن يزيد النحوي، عن عكرمة، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: 0 والذين عاقدت ايمانكم فآتوهم نصيبهم 0، كان الرجل يحالف الرجل ليس بينهما نسب فيرث احدهما الآخر، فنسخ ذلك الانفال فقال تعالى:واولو الارحام بعضهم اولى ببعض سورة الانفال آية 75. (موقوف) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: 0 وَالَّذِينَ عَاقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ 0، كَانَ الرَّجُلُ يُحَالِفُ الرَّجُلَ لَيْسَ بَيْنَهُمَا نَسَبٌ فَيَرِثُ أَحَدُهُمَا الآخَرَ، فَنَسَخَ ذَلِكَ الأَنْفَالُ فَقَالَ تَعَالَى:وَأُولُو الأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ سورة الأنفال آية 75.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فرمان: «والذين عقدت أيمانكم فآتوهم نصيبهم»”جن لوگوں سے تم نے قسمیں کھائی ہیں ان کو ان کا حصہ دے دو“(سورۃ النساء: ۳۳) کے مطابق پہلے ایک شخص دوسرے شخص سے جس سے قرابت نہ ہوتی باہمی اخوت اور ایک دوسرے کے وارث ہونے کا عہد و پیمان کرتا پھر ایک دوسرے کا وارث ہوتا، پھر یہ حکم سورۃ الانفال کی آیت: «وأولو الأرحام بعضهم أولى ببعض»”اور رشتے ناتے والے ان میں سے بعض بعض سے زیادہ نزدیک ہیں“(سورۃ الانفال: ۷۵) سے منسوخ ہو گیا۔
Narrated Ibn Abbas: To those also, to whom your right hand was pledged, give their due portion. A man made an agreement with another man (in early days of Islam), and there was no relationship between the ; one of them inherited from the other. The following verse of Surat Al-Anfal abrogated it: "But kindred by blood have prior right against each other. "
USC-MSA web (English) Reference: Book 18 , Number 2915
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2921
فوائد ومسائل: فائدہ: ابتدائے ایام ہجرت میں جب مملکت اسلام مدینہ منورہ میں اپنا وجود پکڑ رہی تھی۔ تو رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین اور انصار کے مابین مواخات (بھائی چارے) کا نظام قائم فرمایا تھا۔ یعنی ایک ایک مہاجر کو ایک ایک انصاری کا بھائی بنا دیا۔ تاریخی اعتبار سے یہ ایک منفرد اور فقید المثال تجربہ تھا۔ جو نہ اس سے پہلے کبھی سننے میں آیا اور نہ شائد آئندہ کبھی ہو۔ اس مواخات کی بناء پریہ منہ بولے بھائی دوسرے نسبی قرابت داروں کی بجائے ایک دوسرے کے وارث بننے لگے۔ سورہ نساء میں اس کا ذکر اس طرح ہے۔ (وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ ۚ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ)(النساء:33) ماں باپ یا قرابت دار جو کچھ چھوڑ جایئں، اس سے ہر ایک کے ہم نے وارث مقرر کر دیے ہیں اور جن سے تم نے اپنے معاہدہ کیا ہے۔ پس ان سب کو ان کا حصہ دو، مگر وراثت کا یہ حکم تھوڑے عرصے کے بعدمنسوخ کردیا گیا۔ اور سورۃ الانفال میں فرمایا گیا۔ (وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّـهِ ۗ)(الأنفال:75) اور رشتے ناطے والے اللہ کی کتاب کے اندر ایک دوسرے کے زیادہ نزدیک ہیں۔ اسی طرح حلف کی وراثت کا ایک طریقہ یہ رائج تھا کہ اسلام سے قبل دو اشخاص یا دو قبیلوں کے درمیان ایک دوسرے کی مدد کےلئے معاہدہ اور حلف ہوتا تھا۔ اور اسلام کے بعد بھی یہ سلسلہ اسی طرح چلا آ رہا تھا۔ اسی آیت سے یہ طریقہ بھی منسوخ کر دیا گیا۔ مگر عمومی نصرت واخوت اسلامی اور وصیت کے ذریعے سے مدد کرنا باقی ہے۔ اور اس سے بھی بڑھ کرجب کوئی رشتہ دار موجود نہ ہو تو حلیف وارث ہوگا۔ بعض نے کہا کہ حلیف نہیں، بلکہ ایسے آدمی کی وراثت بیت المال میں جائے گی۔ قراءت حفص مفص میں جس کے مطابق اس وقت قرآن پڑھا جاتا ہے (عقدتْ ہے) لیکن بعض روایات میں (عاقدتْ پڑھا جاتا ہے) اس حدیث میں بھی یہ لفظ عاقدتْ ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2921