(مرفوع) حدثنا حفص بن عمر النمري، حدثنا شعبة، عن سليمان بن عبد الرحمن، عن عبيد بن فيروز، قال: سالت البراء بن عازب ما لا يجوز في الاضاحي، فقال: قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، واصابعي اقصر من اصابعه، واناملي اقصر من انامله، فقال: اربع لا تجوز في الاضاحي العوراء بين عورها، والمريضة بين مرضها، والعرجاء بين ظلعها، والكسير التي لا تنقى، قال: قلت: فإني اكره ان يكون في السن نقص، قال: ما كرهت فدعه، ولا تحرمه على احد، قال ابو داود: ليس لها مخ. (مرفوع) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ فَيْرُوزَ، قَالَ: سَأَلْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ مَا لَا يَجُوزُ فِي الأَضَاحِيِّ، فَقَالَ: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَصَابِعِي أَقْصَرُ مِنْ أَصَابِعِهِ، وَأَنَامِلِي أَقْصَرُ مِنْ أَنَامِلِهِ، فَقَالَ: أَرْبَعٌ لَا تَجُوزُ فِي الأَضَاحِيِّ الْعَوْرَاءُ بَيِّنٌ عَوَرُهَا، وَالْمَرِيضَةُ بَيِّنٌ مَرَضُهَا، وَالْعَرْجَاءُ بَيِّنٌ ظَلْعُهَا، وَالْكَسِيرُ الَّتِي لَا تَنْقَى، قَالَ: قُلْتُ: فَإِنِّي أَكْرَهُ أَنْ يَكُونَ فِي السِّنِّ نَقْصٌ، قَالَ: مَا كَرِهْتَ فَدَعْهُ، وَلَا تُحَرِّمْهُ عَلَى أَحَدٍ، قَالَ أَبُو دَاوُد: لَيْسَ لَهَا مُخٌّ.
عبید بن فیروز کہتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ: کون سا جانور قربانی میں درست نہیں ہے؟ تو آپ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے، میری انگلیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں سے چھوٹی ہیں اور میری پوریں آپ کی پوروں سے چھوٹی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار انگلیوں سے اشارہ کیا اور فرمایا: ”چار طرح کے جانور قربانی کے لائق نہیں ہیں، ایک کانا جس کا کانا پن بالکل ظاہر ہو، دوسرے بیمار جس کی بیماری بالکل ظاہر ہو، تیسرے لنگڑا جس کا لنگڑا پن بالکل واضح ہو، اور چوتھے دبلا بوڑھا کمزور جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو“، میں نے کہا: مجھے قربانی کے لیے وہ جانور بھی برا لگتا ہے جس کے دانت میں نقص ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو تمہیں ناپسند ہو اس کو چھوڑ دو لیکن کسی اور پر اس کو حرام نہ کرو“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ( «لا تنقى» کا مطلب یہ ہے کہ) اس کی ہڈی میں گودا نہ ہو۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأضاحي 5 (1497)، سنن النسائی/الضحایا 4 (4374)، سنن ابن ماجہ/الأضاحي 8 (3144)، (تحفة الأشراف: 1790)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الضحایا 1(1)، مسند احمد (4/284، 289، 300، 301)، سنن الدارمی/الأضاحي 3 (1992) (صحیح)»
Narrated Ubayd ibn Firuz: I asked al-Bara ibn Azib: What should be avoided in sacrificial animals? He said: The Messenger of Allah ﷺ stood among us, and my fingers are smaller than his fingers, and my fingertips are smaller than his fingertips. He said (pointing with his fingers): Four (types of animals) should be avoided in sacrifice: A One-eyed animal which has obviously lost the sight of one eye, a sick animal which is obviously sick, a lame animal which obviously limps and an animal with a broken leg with no marrow. I also detest an animal which has defective teeth. He said: Leave what you detest, but do not make it illegal for anyone. Abu Dawud said: (By a lean animal mean) and animal which has no marrow.
USC-MSA web (English) Reference: Book 15 , Number 2796
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (1465) أخرجه النسائي (4374 وسنده صحيح) وابن ماجه (3144 وسنده صحيح) وصححه ابن خزيمة (2912 وسنده صحيح) دَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، سنن ابوداودحدیث 2802
چار جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے:
1- ایسا کانا جس کا کانا پن واضح ہو،
2- ایسا بیمار جس کی بیماری واضح ہو،
3- لنگڑا جس کا لنگڑا پن واضح ہو
4- اور بہت زیادہ کمزور جانور جو کہ ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو۔
(اس حدیث کے راوی عبید بن فیروز تابعی نے) کہا: مجھے ایسا جانور بھی ناپسند ہے جس کے دانت میں نقص ہو؟
تو سیدنا براء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمھیں جو چیز بُری لگے اُسے چھوڑ دو اور دوسروں پر اُسے حرام نہ کرو۔
(سنن ابی داود: 2802)
اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اسے ترمذی (1497) ابن خزیمہ (2912) ابن حبان (1046، 1047) ابن الجارود (481، 907) حاکم (1/ 467، 468) اور ذہبی نے صحیح قرار دیا ہے۔
معلوم ہوا کہ جس چیز کے بارے میں دل میں شبہ ہو اور اسی طرح مشکوک چیزوں سے بچنا جائز ہے۔
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
رسول اللہ ﷺ نے سینگ کٹے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے۔
مشہور تابعی امام سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے فرمایا: ایسا جانور جس کا آدھا سینگ یا اس سے زیادہ ٹوٹا ہوا ہو۔
(سنن النسائی 7/ 217، 218 ح 4382 وسندہ حسن و صححہ الترمذی: 1504)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت میں آیا ہے کہ:
رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ (قربانی کے جانور میں) آنکھ اور کان دیکھیں۔
(سنن النسائی 7/ 217 ح 4381 وسندہ حسن وصححہ الترمذی: 1503، وابن خزیمہ: 2914 وابن حبان، الاحسان: 5890 والحاکم 4/ 225 والذہبی)
خلاصہ:
ان احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ کانے، لنگڑے، واضح بیمار، بہت زیادہ کمزور، سینگ (ٹوٹے یا) کٹے اور کان کٹے جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے۔
علامہ خطابی (متوفی 388ھ) نے فرمایا:
اس (سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ) حدیث میں دلیل ہے کہ قربانی میں معمولی نقص معاف ہے۔ الخ
(معالم السنن 2/ 199 تحت ح 683)
معلوم ہوا کہ اگر سینگ میں معمولی نقص ہو یا تھوڑا سا کٹا یا ٹوٹا ہوا ہو تو اس جانور کی قربانی جائز ہے۔
نووی نے کہا:
اس پر اجماع ہے کہ اندھے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔
(المجموع شرح المہذب 8/ 404)
……… اصل مضمون ………
اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (جلد 2 صفحہ 213 اور 214) للشیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
تحقیقی و علمی مقالات للشیخ زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 213
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، سنن ابوداودحدیث 2802
چار جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے:
1- ایسا کانا جس کا کانا پن واضح ہو،
2- ایسا بیمار جس کی بیماری واضح ہو،
3- لنگڑا جس کا لنگڑا پن واضح ہو
4- اور بہت زیادہ کمزور جانور جو کہ ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو۔
(اس حدیث کے راوی عبید بن فیروز تابعی نے) کہا: مجھے ایسا جانور بھی ناپسند ہے جس کے دانت میں نقص ہو؟
تو سیدنا براء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمھیں جو چیز بُری لگے اُسے چھوڑ دو اور دوسروں پر اُسے حرام نہ کرو۔
(سنن ابی داود: 2802)
اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اسے ترمذی (1497) ابن خزیمہ (2912) ابن حبان (1046، 1047) ابن الجارود (481، 907) حاکم (1/ 467، 468) اور ذہبی نے صحیح قرار دیا ہے۔
معلوم ہوا کہ جس چیز کے بارے میں دل میں شبہ ہو اور اسی طرح مشکوک چیزوں سے بچنا جائز ہے۔
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
رسول اللہ ﷺ نے سینگ کٹے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے۔
مشہور تابعی امام سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے فرمایا: ایسا جانور جس کا آدھا سینگ یا اس سے زیادہ ٹوٹا ہوا ہو۔
(سنن النسائی 7/ 217، 218 ح 4382 وسندہ حسن و صححہ الترمذی: 1504)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت میں آیا ہے کہ:
رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ (قربانی کے جانور میں) آنکھ اور کان دیکھیں۔
(سنن النسائی 7/ 217 ح 4381 وسندہ حسن وصححہ الترمذی: 1503، وابن خزیمہ: 2914 وابن حبان، الاحسان: 5890 والحاکم 4/ 225 والذہبی)
خلاصہ:
ان احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ کانے، لنگڑے، واضح بیمار، بہت زیادہ کمزور، سینگ (ٹوٹے یا) کٹے اور کان کٹے جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے۔
علامہ خطابی (متوفی 388ھ) نے فرمایا:
اس (سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ) حدیث میں دلیل ہے کہ قربانی میں معمولی نقص معاف ہے۔ الخ
(معالم السنن 2/ 199 تحت ح 683)
معلوم ہوا کہ اگر سینگ میں معمولی نقص ہو یا تھوڑا سا کٹا یا ٹوٹا ہوا ہو تو اس جانور کی قربانی جائز ہے۔
نووی نے کہا:
اس پر اجماع ہے کہ اندھے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔
(المجموع شرح المہذب 8/ 404)
……… اصل مضمون ………
اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (جلد 2 صفحہ 213 اور 214) للشیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
تحقیقی و علمی مقالات للشیخ زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 213
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2802
فوائد ومسائل: امام نووی فرماتے ہیں۔ کہ مذکورہ بالا عیوب والے جانور یا جو اس سے بڑھ کر ہوں۔ قربانی میں قطعاً جائز نہیں۔ اور بقول علامہ خطابی معمولی عیب قابل برداشت ہے۔ کیونکہ حدیث میں واضح عیب کی ممانعت کا ذکر ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2802
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1163
´(احکام) قربانی کا بیان` سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” چار قسم کے جانور قربانی میں جائز نہیں یک چشم جانور جس کا یک چشم ہونا بالکل صاف طور پر معلوم ہو اور وہ بیمار جانور جس کی بیماری واضح ہو اور لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن نمایاں (ظاہر) ہو اور وہ جانور جو نہایت ہی بوڑھا ہو گیا ہو جس کی ہڈیوں میں گودا نہ رہا ہو۔“ اسے احمد اور چاروں نے روایت کیا ہے ترمذی اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1163»
تخریج: «أخرجه أبوداود، الضحايا، باب ما يكره من الضحايا، حديث:2802، والترمذي، الأضاحي، حديث:1497، والنسائي، الضحايا، حديث:4374، وابن ماجه، الأضاحي، حديث:3144، وأحمد:4 /300، وابن حبان (الإحسان):7 /566، حديث:5891.»
تشریح: 1. یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ مذکورہ بالا چاروں یا ان میں سے کسی ایک عیب والا جانور قربانی کے لائق نہیں۔ اور اسی طرح کا دوسرا کوئی عیب یا جو اس سے بھی قبیح ہو۔ اس کی بنا پر بھی جانور قربانی کے لائق نہیں ہوگا۔ 2. عیب کے واضح اور نمایاں ہونے کی قید اس چیز کی مقتضی ہے کہ قربانی کے جانوروں میں معمولی نوعیت کا کوئی نقص و عیب قابل گرفت نہیں۔ معاف ہے‘ قابل درگزر ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1163
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4374
´ممنوع جانوروں میں سے کانے جانور کی قربانی منع ہے۔` ابوالضحاک عبید بن فیروز کہتے ہیں کہ میں نے براء رضی اللہ عنہ سے کہا: مجھے بتائیے کہ کن کن جانوروں کی قربانی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا ہے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے (اور براء نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور کہا) میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ سے چھوٹا ہے، آپ نے فرمایا: ”چار طرح کے جانور جائز نہیں: ایک تو کانا جس کا کانا پن صاف معلوم ہو، دوسرا بیمار جس کی بیماری واضح ہو، تیسرا لنگڑا جس کا لنگڑا پن صاف ظاہر ہو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4374]
اردو حاشہ: (1) جس جانور کا کانا پن واضح ہو، اس کی قربانی جائز نہیں۔ یہی حکم دوسرے عیوب ونقائص یعنی بیمار، لنگڑے اور انتہائی لاغر وکمزور جانور کا ہے کہ اگر ان کے یہ عیوب واضح ہوں تو ان کی قربانی بھی درست نہیں ہوگی۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کمال درجے رسول اللہ ﷺ کا ادب واحترام کیا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے فعل کی نقل کرتے ہوئے جب اپنے ہاتھ کی چار انگلیوں سے قربانی کے ممنوعہ جانوروں کی بابت اشارہ کیا تو یہ بھی فرما دیا کہ میرے ہاتھ (اور انگلیوں) کا رسول اللہ ﷺ کے مبارک ہاتھ سے کوئی موازنہ ہی نہیں۔ میرا ہاتھ رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ مبارک سے، ہر لحاظ سے چھوٹا ہے۔ (3) تقرب الی اللہ کے حصول کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تندرست اور فربے جانور اور دوسری قیمتی اور پسندیدہ اشیاء ہی خرچ کرنے کو ترجیح دیا کرتے تھے، خواہ اس کے متعلق حکم شریعت نہ بھی ہو۔ (4) حدیث مذکور اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ کسی کی ذاتی پسند اور ناپسند کا دین وشریعت میں کوئی عمل دخل نہیں بلکہ شریعت خالصتاً منصوص (کتاب وسنت) سے ثابت امور کا نام ہے۔ اسی لیے حضرت براء رضی اللہ عنہ نے عبید بن فیروز سے فرمایا کہ تجھے جو جانور ناپسند ہے تو اس کی قربانی نہ کر لیکن کسی اور کو مت روک۔ یہ تیرا نہیں، شریعت مطہرہ کا کام ہے، اس لیے جس عیب کے متعلق شریعت کی نص (اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے ممانعت) نہیں، اس عیب کے ہوتے ہوئے بھی جانور کی قربانی جائز ہے۔ اور اس پر امت کا اجماع ہے۔ واللہ أعلم! (5)”کسی پر حرام نہ کر“ یعنی کسی کو حرمت کا فتویٰ نہ دے۔ معمولی نقص جو محسوس نہ ہوتا ہو، قابل درگزر ہے، البتہ قربانی کرنے والا اپنی طرف سے بہترین جانور ذبح کرے۔ سینگ اور کان کے بارے میں روایات آگے آرہی ہیں اس لیے بحث بھی وہاں ہوگی۔ إن شاء اللہ
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4374
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4375
´لنگڑے جانوروں کی قربانی منع ہے۔` عبید بن فیروز کہتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے کہا: مجھے بتائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کن کن جانوروں کی قربانی ناپسند تھی، یا آپ ان سے منع فرماتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے (اور اس طرح انہوں نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا، اور میرا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے چھوٹا ہے): ”چار جانوروں کی قربانی درست اور صحیح نہیں ہے: کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو، بیمار جس کی بیماری واضح ہو، لن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4375]
اردو حاشہ: معلوم ہوا تھوڑا بہت لنگڑا پن جو غور کیے بغیر محسوس نہ ہوتا ہو یا صرف بھاگتے ہوئے محسوس ہوتا ہو، قربانی میں عیب نہیں ہے۔ اسی طرح دوسرے عیوب غیر محسوس حد تک معاف ہیں۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4375
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3144
´کن جانوروں کی قربانی مکروہ ہے؟` عبید بن فیروز کہتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے عرض کیا: مجھ سے قربانی کے ان جانوروں کو بیان کیجئیے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا، یا منع کیا ہے؟ تو براء بن عازب رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کرتے ہوئے (جب کہ میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ سے چھوٹا ہے) فرمایا: ”چار قسم کے جانوروں کی قربانی درست نہیں: ایک کانا جس کا کانا پن واضح ہو، دوسرے بیمار جس کی بیماری عیاں اور ظاہر ہو، تیسرے لنگڑا جس کا لنگڑا پن نمایاں ہو، چوتھا ایسا لاغر اور دبلا پتلا جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو“۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كِتَابُ الْأَضَاحِي/حدیث: 3144]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) معمولی عیب جو گہری نظر سےدیکھے بغیر محسوس نہ ہوقربانی میں رکاوٹ نہیں۔
(2)(الكبيرة) کی تشریح محمد فواد عبدالباقی نے یوں کی ہے: جس کی ٹانگ ٹوٹی ہو اور وہ چلنے سے عاجز ہو۔ (حاشہ سنن ابن ماجہ) لیکن یہ صورت لنگڑا ہونے میں شامل ہے۔ نواب وحید الزمان خان نے اس کا ترجمہ دبلی کیا ہے وہ زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔ علامہ ابن کثیر ؒ نے اگرچہ (الكسير البينةالكسر) کا وہی مطلب بیان کیا ہے جو محمد فواد نے لکھا ہے۔ لیکن اس روایت میں (الكسيرة التي لاتنقي) کے الفاظ ہیں یہاں یہ معنی درست معلوم نہیں ہوتے۔ ابن اثیر ؒنے كسر کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا ہےوہ ہڈی جس پر زیادہ گوشت نہ ہو۔ (النهاية، ماده كسر) اس مناسبت سے (كسيرة) کا مطلب دبلی پتلی (بکری) زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔
(3) حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی رائے میں کان کٹا ہوا یا پھٹا ہوا ہونا ایسا عیب نہیں جو قربانی سے مانع ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3144
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1497
´جن جانوروں کی قربانی ناجائز ہے۔` براء بن عازب رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسے لنگڑے جانور کی قربانی نہ کی جائے جس کا لنگڑا پن واضح ہو، نہ ایسے اندھے جانور کی جس کا اندھا پن واضح ہو، نہ ایسے بیمار جانور کی جس کی بیماری واضح ہو، اور نہ ایسے لاغر و کمزور جانور کی قربانی کی جائے جس کی ہڈی میں گودا نہ ہو“۱؎۔ اس سند سے بھی براء بن عازب رضی الله عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأضاحى/حدیث: 1497]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ مذکورہ بالا چاروں قسم کے جانور قربانی کے لائق نہیں، عیب کے واضح اور ظاہر ہونے کی قید سے معلوم ہوا کہ معمولی نوعیت کا کوئی نقص وعیب قابل گرفت نہیں بلکہ معاف ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1497