(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي، حدثنا عبد الرزاق، حدثنا الثوري، عن عاصم بن كليب، عن ابيه، قال: كنا مع رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، يقال له مجاشع من بني سليم فعزت الغنم فامر مناديا، فنادى ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول:" إن الجذع يوفي مما يوفي منه الثني"، قال ابو داود: وهو مجاشع بن مسعود. (مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا الثَّوْرِيُّ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُقَالُ لَهُ مُجَاشِعٌ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ فَعَزَّتِ الْغَنَمُ فَأَمَرَ مُنَادِيًا، فَنَادَى أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ:" إِنَّ الْجَذَعَ يُوَفِّي مِمَّا يُوَفِّي مِنْهُ الثَّنِيُّ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهُوَ مُجَاشِعُ بْنُ مَسْعُودٍ.
کلیب کہتے ہیں کہ ہم مجاشع نامی بنی سلیم کے ایک صحابی رسول کے ساتھ تھے اس وقت بکریاں مہنگی ہو گئیں تو انہوں نے منادی کو حکم دیا کہ وہ اعلان کر دے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فر ماتے تھے: ”جذع (ایک سالہ) اس چیز سے کفایت کرتا ہے جس سے «ثنی»(وہ جانور جس کے سامنے کے دانت گر گئے ہوں) کفایت کرتا ہے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ مجاشع بن مسعود رضی اللہ عنہ تھے۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الضحایا 12(4389)، سنن ابن ماجہ/الأضاحي 7 (3140)، (تحفة الأشراف: 11211)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/368) (صحیح)»
Narrated Asim bin Kulaib: On the authority of his father: We were with a man from the Companions of the Prophet ﷺ called Mujashi' who belonged to Banu Sulaim. There was a scarcity if goats (in those days). He commanded a man to announce (among the people); so he announced that the Messenger of Allah ﷺ used to say: A lamb may be given as full payent for that for which has full-grown animal is payment. Abu Dawud said: His name is Mujashi' bin Masud.
USC-MSA web (English) Reference: Book 15 , Number 2793
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مشكوة المصابيح (1467) وله شاھد صحيح عند الحاكم (4/226 ح 7538)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2799
فوائد ومسائل: صحیح احادیث کے مطابق ایک سالہ بکری (جزع) کا جواز غالباً تین صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کےلئےثابت ہوا ہے۔ ایک حضرت ابو بردہ بن نیاررضی اللہ تعالیٰ عنہ جس کا بیان درج ذیل حدیث میں آرہا ہے۔ اور دوسرے مذکورہ بالا حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور تیسرے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2799
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3140
´قربانی کے لیے کون سا جانور کافی ہے؟` کلیب کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے بنی سلیم کے مجاشع نامی ایک شخص کے ساتھ تھے، بکریوں کی قلت ہو گئی، تو انہوں نے ایک منادی کو حکم دیا، جس نے پکار کر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”(قربانی کے لیے) بھیڑ کا ایک سالہ بچہ دانتی بکری کی جگہ پر کافی ہے۔“[سنن ابن ماجه/كِتَابُ الْأَضَاحِي/حدیث: 3140]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ثنيه يا مسنه اس جانور کو کہتے ہیں کہ جس کے دودھ کے دانت ٹوٹ کر دو نئے دانت آجائیں۔
(2) جذعه اس جانور کو کہتے ہیں جس کے دودھ کے دانت نہ ٹوٹے ہوں۔
(3) مذکورہ بالا حدیث اور ام بلال ؒسے مروی حدیث: بھیڑ کے جذعے کی قربانی کرو اس لیے کہ اس کی قربانی جائز ہے۔ (مسند احمد: 2/368) سے معلوم ہوتا ہے کہ عام حالات میں بھی بھیڑ کا جذعه قربانی کیا جاسکتا ہے البتہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت جوکہ صحیح مسلم (1963) میں ہے، کی رو سے مسنه (دودانتا) جانور قربانی کرنا افضل ہے۔ جیساکہ حافظ ابن حجر ؒ اس کی بابت فتح الباری میں لکھتے ہیں: امام نووی ؒ نے جمہور علماء سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے اس حدیث کو افضلیت پر محمول کیا ہے۔ دیکھیے: (فتح الباري: 1/ 20) نیز راجح قول کے مطابق جذعه صرف بھیڑ میں جائز ہے یعنی دنبہ اور چھترا دیگر جانوروں کے اس عمر کے بچوں کی قربانی کرنا جائز نہیں۔ اس مسئلے کی تفصیل کے لیے اگلی حدیث کے فوائد میں بحث دیکھی جا سکتی ہے۔
(4) شیخ زہیت شاویش لکھتے ہیں: بھیڑ، بکری اور گائے میں مسنہ وہ ہوتا ہے جو تیسرے سال میں لگ جائےاور اونٹوں میں جو چھٹے سال میں لگ جائے۔ بھیڑ کے جذعے کے متعلق علمائے لغت اور اکثر علماءکا مشہور اور راجح قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ (بھیڑ کا بچہ) ہے جو پورے سال کا ہوجائے۔ امام شوکانی امام نووی حافظ ابن حجر ؒ اور دیگر علماء نے یہی فرمایا ہے۔ (حاشہ ضعیف سنن ابن ماجہ) لیکن یہ بات حتمی نہیں الگ الگ ملکوں کی الگ الگ آب وہوا کی وجہ سے اس میں فرق بھی ہوسکتا ہےاس لیے اصل اعتبار بکرے، گائے، بیل اور اونٹ میں دو دانتا ہونا ہے اور دنبہ چھترے کا ایک سالہ ہونا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3140