(مرفوع) حدثنا عبيد الله بن معاذ، حدثنا ابي، حدثنا محمد بن عمرو، حدثنا عمرو بن مسلم الليثي، قال: سمعت سعيد بن المسيب، يقول:سمعت ام سلمة، تقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم": من كان له ذبح يذبحه فإذا اهل هلال ذي الحجة فلا ياخذن من شعره ولا من اظفاره شيئا حتى يضحي"، قال ابو داود: اختلفوا على مالك، وعلى محمد بن عمرو في عمرو بن مسلم، قال بعضهم: عمر واكثرهم قال: عمرو، قال ابو داود: وهو عمرو بن مسلم بن اكيمة الليثي الجندعي. (مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُسْلِمٍ اللَّيْثِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، يَقُولُ:سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَةَ، تَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ": مَنْ كَانَ لَهُ ذِبْحٌ يَذْبَحُهُ فَإِذَا أَهَلَّ هِلَالُ ذِي الْحِجَّةِ فَلَا يَأْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِهِ وَلَا مِنْ أَظْفَارِهِ شَيْئًا حَتَّى يُضَحِّيَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: اخْتَلَفُوا عَلَى مَالِكٍ، وَعَلَى مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو فِي عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ، قَالَ بَعْضُهُمْ: عُمَرُ وَأَكْثَرُهُمْ قَالَ: عَمْرٌو، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهُوَ عَمْرُو بْنُ مُسْلِمِ بْنِ أُكَيْمَةَ اللَّيْثِيُّ الْجُنْدُعِيُّ.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس قربانی کا جانور ہو اور وہ اسے عید کے روز ذبح کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو جب عید کا چاند نکل آئے تو اپنے بال اور ناخن نہ کترے ۱؎“۔
Narrated Umm Salamah: The Prophet ﷺ as saying: If anyone has sacrificial animal and intends to sacrifice it, and he sights the new moon of Dhul-Hajjah, he must not take any of his hair and nails until he sacrifices Abu Dawud said: The name of Amr bin Muslim in the chain narrated by Malik and Muhammad bin Amr is disputed. Some say that it is Umar and the majority holds that it is Amr. Abu Dawud said: He is Amr bin Muslim bin Ukaimah al-Laithi al-Jundu'i.
USC-MSA web (English) Reference: Book 15 , Number 2785
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2791
فوائد ومسائل: قربانی کرنے والے کے لئے ضروری ہے۔ کہ ذوالحج کے ابتدائی نو دنوں میں اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔ لیکن جس نے قربانی نہ کرنی ہو۔ تو اس کے لئے ضروری نہیں۔ البتہ اگر وہ عید الاضحٰی کے دن حجامت وغیر ہ کرالے تو قربانی کی فضیلت وغیرہ سے محروم نہ رہے گا۔ جیسا کہ سابقہ روایات عبد اللہ بن عمرو بن العاص میں گزرا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2791
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4366
´باب:` ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے ذی الحجہ کے مہینے کا چاند دیکھا پھر قربانی کرنے کا ارادہ کیا تو وہ اپنے بال اور ناخن قربانی کرنے تک نہ لے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4366]
اردو حاشہ: (1) اس حدیث سے قربانی کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ جو آدمی قربانی کرنا چاہتا ہو، وہ ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد اپنے بال اور ناخن وغیرہ کاٹے نہ تراشے۔ (3)”چاند دیکھ لے۔“ مقصد یہ ہے کہ ذوالحجہ کا چاند طلوع ہو جائے ورنہ یہ ضروری نہیں کہ ہر آدمی اسے دیکھے۔ (4)”ارادہ رکھتا ہو“ گویا جو شخص قربانی کا ارادہ نہ رکھتا ہو، اس پر یہ پابندی نہیں مگر اس کے لیے بہتر ہے کہ وہ قربانی کے دن ہی حجامت بنوائے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4366
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4367
´باب:` ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص قربانی کرنا چاہے تو وہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں نہ اپنے ناخن کترے اور نہ بال کٹوائے۔“[سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4367]
اردو حاشہ: ”دس دن“ یعنی دسویں دن قربانی ذبح کرنے تک۔ قربانی ذبح کرنے کے بعد حجامت بنوا لینی چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4367
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3149
´قربانی کا ارادہ رکھنے والا شخص ذی الحجہ کے پہلے عشرے میں اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔` ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب ذی الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہو جائے اور تم میں کا کوئی قربانی کا ارادہ رکھتا ہو، تو اسے اپنے بال اور اپنی کھال سے کچھ نہیں چھونا چاہیئے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كِتَابُ الْأَضَاحِي/حدیث: 3149]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: ہاتھ نہ لگانے کا مطلب یہ ہے کہ بال نہ کاٹے اور جلد سے بال صاف نہ کرے۔ یہ پابندی ذوالحجہ کا مہینہ شروع ہونے سے عید کے دن قربانی تک ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3149
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1523
´جو قربانی کرنا چاہتا ہو وہ بال نہ کاٹے۔` ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو ماہ ذی الحجہ کا چاند دیکھے اور قربانی کرنا چاہتا ہو وہ (جب تک قربانی نہ کر لے) اپنا بال اور ناخن نہ کاٹے۔“[سنن ترمذي/كتاب الأضاحى/حدیث: 1523]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: عائشہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ کی حدیث میں تطبیق کی صورت علماء نے یہ نکالی ہے کہ ام سلمہ کی روایت کو نہی تنزیہی پر محمول کیاجائے گا۔ (واللہ اعلم)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1523
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:295
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جو شخص قربانی کرنا چاہتا ہے، وہ ذوالحجہ کا چاند طلوع ہونے کے بعد اپنے جسم کے کسی بھی حصے سے بال وغیرہ نہ کٹوائے، اور نہ ناخن تراشے۔ یادر ہے کہ ایک قربانی گھر میں موجود تمام افراد کی طرف سے کی جاتی ہے تو ان میں دنوں میں کوئی بھی فرد بال نہ کٹوائے اور نہ کوئی ناخن تراشے۔ جنھوں نے قربانی نہیں کرنی سے نے ان پر دس دنوں میں بال نہ کٹوانے کی کوئی پابندی نہیں ہے، ہاں اتنا ضرور ہے کہ جس نے قربانی نہیں کرنی، اگر وہ بھی ان دس دنوں میں بال وغیرہ نہ کٹوائے تو اسے بھی مکمل قربانی کا ثواب مل جائے گا۔ (سنن ابی داود: 2789، اسناده صحيح)
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 295
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5117
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب عشرہ ذی الحجہ شروع ہو جائے، تو تم میں سے جو شخص قربانی کرنا چاہے، وہ اپنے بالوں اور جسم کو نہ چھیڑے۔“ سفیان سے پوچھا گیا، بعض راوی اس کو مرفوع بیان نہیں کرتے ہیں، انہوں نے کہا، لیکن میں مرفوع بیان کرتا ہوں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5117]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے بعض ائمہ سعید بن المسیب، ربیعہ، احمد، اسحاق اور بعض شوافع نے عشرہ ذی الحجہ میں بالوں اور ناخنوں کے کاٹنے کو حرام قرار دیا ہے، امام شافعی کا مشہور قول یہ ہے کہ یہ نہی تنزیہی ہے، یعنی ادب و احترام سے تعلق رکھتی ہے، تاکہ حاجیوں کے ساتھ کچھ نہ کچھ مشابہت پیدا ہو جائے، امام مالک کا ایک قول ہے، کہ یہ مکروہ ہے، حرام نہیں ہے اور دوسرا قول ہے کہ مکروہ بھی نہیں ہے، حدیث کا ظاہری تقاضا یہی ہے کہ ان کاموں سے اجتناب کرنا چاہیے، جسم کے کسی حصہ سے بھی بال کسی طرح بھی زائل نہیں کرنا چاہیے اور نہ ناخنوں کو کسی طرح چھیڑنا چاہیے، امام ابن قدامہ لکھتے ہیں، مقتضي النهي التحريم وهذا يرد القياس ويبطله نہی کا تقاضا حرمت ہے اور حدیث کے مقابلہ میں قیاس اور رائے باطل ہے۔ (المغنی، ج 13، ص 363)