سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں «أما بعد»، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص مشرک کے ساتھ میل جول رکھے اور اس کے ساتھ رہے تو وہ اسی کے مثل ہے ۱؎“۔
وضاحت: ۱؎: یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تغلیظاً اور تشدیداً فرمایا تاکہ آدمی مشرک کی صحبت سے بچے یا مراد یہ ہے کہ جب اس کے ساتھ رہے گا تو اسی کی طرح ہو جائے گا کیونکہ صحبت کا اثر یقینی طور پر پڑتا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 4621)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/السیر 42 (1605) (حسن لغیرہ) (سند میں متعدد ضعیف ہیں لیکن دوسرے طریق جس کی تخریج حاکم نے کی ہے سے تقویت پاکر یہ حسن ہے(المستدرک 1/141-142) (ملاحظہ ہو الصحیحة: 2330)»
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2787
فوائد ومسائل: ظاہری امور میں کسی کی موافقت ومطابقت لازمی طور پر اس کے ساتھ قلبی۔ ذہنی۔ اور فکر ی لگاؤ پیدا کرتی ہے۔ اور جس کسی نے کسی کی ظاہری مشابہت اختیار کی ہوئی ہو وہ یقینا اس سے دلی رغبت رکھتا ہے۔ اگرچہ ان دونوں میں زمان ومکان کا کتنا ہی فاصلہ کیوں نہ ہو۔ باہمی صحبت اور ہم وطن ہو ناخواہ کسی قدر ہو اس سے صرف اخلاق واعمال ہی نہیں بلکہ بعض اوقات اعتقادات میں بھی خرابی ہونی شروع ہوجاتی ہے۔ خواہ اس کی اثر پذیری دھیمی ہی ہو۔ اس لئے شریعت نے کفار کی صحبت اور ان کے علاقے میں مستقل رہنے یا ان کی مشابہت اختیار کرنے کو ناجائز قرار دیا ہے۔ (إفادات ابن تیمیة) ایک حدیث میں ہے۔ (من كثَّر سوادَ قومٍ فهو منهم) جو کسی قوم کی جمعیت کو بڑھائے وہ بھی انہی میں سے ہے یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے۔ جیسا کہ مسند الفردوس دیلمی کے محقق نے صراحت کی ہے۔ مسند لفردوس حدیث 5231) لیکن اس مفہوم کی بعض دوسری احادیث صحیح طور پر ثابت ہیں۔ جیسے سنن ابی دائود کی مسئلۃ الباب والی حدیث ہے۔ یا جیسے (من تشبه بقومٍ فهو منهم)(سنن أبي داود، لباس، حدیث: 4031) اسی طرح صحیح بخاری میں آیت قرآنی (إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ)(النساء97) کے شان نزول میں بتلایا گیا ہے۔ یہ کہ آیت ان مسلمانوں کی وعید میں نازل ہوئی۔ جنھوں نے مسلمان ہونے کے باوجود ہجرت نہیں کی۔ اور اپنے علاقوں میں مشرکین ہی کے ساتھ مقیم رہے۔ اور ان کی کثرت کا باعث بنے۔ تفصیل کےلئے دیکھئے۔ (صحیح البخاري، مع فتح الباري، الفتن، باب من کره أن یکثر سواد الفتن و الظلم، حدیث: 7085) لہذا ہر مسلمان پرواجب ہے کہ وہ اہل کفر وشرک کے ملکوں میں رہائش اختیار کرنے سے اجتناب کرے۔ الا یہ کہ اشد ضرورت ہو یا مقصود دعوت الی اللہ ہو تو پھر یہ صورت مستثنیٰ ہے۔ کیونکہ اس میں خیر عظیم کا پہلو ہے۔ کہ آدمی مشرکوں کو اللہ کی توحید کی دعوت دے انہیں اللہ تعالیٰ کی شریعت کی تعلیم دے تو ایسا شخص محسن ہوگا۔ اورعلم وبصیرت کے باعث خطرات سے دور بھی ہوگا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2787