(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، حدثنا اسد بن موسى، حدثنا معاوية بن صالح، حدثني ضمرة، ان ابن زغب الإيادي حدثه، قال: نزل علي عبد الله بن حوالة الازدي، فقال لي: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم لنغنم على اقدامنا فرجعنا، فلم نغنم شيئا وعرف الجهد في وجوهنا فقام فينا فقال:" اللهم لا تكلهم إلي فاضعف عنهم، ولا تكلهم إلى انفسهم فيعجزوا عنها، ولا تكلهم إلى الناس فيستاثروا عليهم، ثم وضع يده على راسي او قال: على هامتي، ثم قال: يا ابن حوالة إذا رايت الخلافة قد نزلت ارض المقدسة، فقد دنت الزلازل والبلابل والامور العظام والساعة يومئذ اقرب من الناس من يدي هذه من راسك"، قال ابو داود: عبد الله بن حوالة حمصي. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي ضَمْرَةُ، أَنَّ ابْنَ زُغْبٍ الْإِيَادِيّ حَدَّثَهُ، قَالَ: نَزَلَ عَلَيَّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَوَالَةَ الْأَزْدِيُّ، فَقَالَ لِي: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِنَغْنَمَ عَلَى أَقْدَامِنَا فَرَجَعْنَا، فَلَمْ نَغْنَمْ شَيْئًا وَعَرَفَ الْجَهْدَ فِي وُجُوهِنَا فَقَامَ فِينَا فَقَالَ:" اللَّهُمَّ لَا تَكِلْهُمْ إِلَيَّ فَأَضْعُفَ عَنْهُمْ، وَلَا تَكِلْهُمْ إِلَى أَنْفُسِهِمْ فَيَعْجِزُوا عَنْهَا، وَلَا تَكِلْهُمْ إِلَى النَّاسِ فَيَسْتَأْثِرُوا عَلَيْهِمْ، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ عَلَى رَأْسِي أَوْ قَالَ: عَلَى هَامَتِي، ثُمَّ قَالَ: يَا ابْنَ حَوَالَةَ إِذَا رَأَيْتَ الْخِلَافَةَ قَدْ نَزَلَتْ أَرْضَ الْمُقَدَّسَةِ، فَقَدْ دَنَتِ الزَّلَازِلُ وَالْبَلَابِلُ وَالْأُمُورُ الْعِظَامُ وَالسَّاعَةُ يَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنَ النَّاسِ مِنْ يَدِي هَذِهِ مِنْ رَأْسِكَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَوَالَةَ حِمْصِيٌّ.
ضمرہ کا بیان ہے کہ ابن زغب ایادی نے ان سے بیان کیا کہ عبداللہ بن حوالہ ازدی رضی اللہ عنہ میرے پاس اترے، اور مجھ سے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بھیجا ہے کہ ہم پیدل چل کر مال غنیمت حاصل کریں، تو ہم واپس لوٹے اور ہمیں کچھ بھی مال غنیمت نہ ملا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے چہروں پر پریشانی کے آثار دیکھے تو ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”اللہ! انہیں میرے سپرد نہ فرما کہ میں ان کی خبرگیری سے عاجز رہ جاؤں، اور انہیں ان کی ذات کے حوالہ (بھی) نہ کر کہ وہ اپنی خبرگیری خود کرنے سے عاجز آ جائیں، اور ان کو دوسروں کے حوالہ نہ کر کہ وہ خود کو ان پر ترجیح دیں“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے سر پر یا میری گدی پر رکھا اور فرمایا: ”اے ابن حوالہ! جب تم دیکھو کہ خلافت شام میں اتر چکی ہے، تو سمجھ لو کہ زلزلے، مصیبتیں اور بڑے بڑے واقعات (کے ظہور کا وقت) قریب آ گیا ہے، اور قیامت اس وقت لوگوں سے اتنی قریب ہو گی جتنا کہ میرا یہ ہاتھ تمہارے سر سے قریب ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 5249)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/288) (صحیح)»
Narrated Abdullah ibn Hawalah al-Azdi: The Messenger of Allah ﷺ sent us on foot to get spoil, but we returned without getting any. When he saw the signs of distress on our faces, he stood up on our faces and said: O Allah, do not put them under my care, for I would be too weak to care for them; do not put them in care of themselves, for they would be incapable of that, and do not put them in the care of men, for they would choose the best things for themselves. He then placed his hand on my head and said: Ibn Hawalah, when you see the caliphate has settled in the holy land, earthquakes, sorrows and serious matters will have drawn near and on that day the Last Hour will be nearer to mankind than this hand of mine is to your head. Abu Dawud said: Abdullah bin Hawalah belongs to Hims.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2529
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (5449)
اللهم لا تكلهم إلي فأضعف عنهم ولا تكلهم إلى أنفسهم فيعجزوا عنها ولا تكلهم إلى الناس فيستأثروا عليهم إذا رأيت الخلافة قد نزلت أرض المقدسة فقد دنت الزلازل والبلابل والأمور العظام والساعة يومئذ أقرب
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2535
فوائد ومسائل: 1۔ جہاد میں اجر وثواب کے ساتھ ساتھ غنیمت کی توقع رکھنا کوئی معیوب نہیں۔ بشرط یہ کہ یہ نیت ہی اصل مقصود نہ ہو اتنا ضرور ہے کہ یہ غنیمت حاصل ہونے سے آخرت کے اجر میں کمی آجاتی ہے۔ جیسے کہ (باب في السریة تخفق) حدیث 2497) میں گزرا ہے۔
2۔ اللہ تعالیٰ نے مال کو انسان کےلئے گزران کا ایک اہم سبب بنایا ہے جب کہ حقیقی کفیل خود اللہ عزوجل ہے۔ اگر وہ اسباب مہیا نہ فرمائے۔ اور ان میں برکت نہ دے تو کائنات کے تمام افراد اور اس کے کل اسباب پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتے۔
3۔ مستقبل کے امور غیبہ کی خبریں نبی کریم ﷺکی نبوت کی صداقت کی دلیل ہیں۔ کہ فتح بیت المقدس کے بعد سے دنیا میں اور امت اسلامیہ میں مذکورہ بالاعلامات تواتر سے ظاہر ہورہی ہیں۔
2۔ قیامت ازحد قریب ہے۔ لہذا ہر انسان کو اس کی فکر کرنی چاہیے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2535