(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، حدثنا عبد الله بن وهب، اخبرني عاصم بن حكيم، عن يحيى بن ابي عمرو السيباني، عن عبد الله بن الديلمي، ان يعلى ابن منية، قال: آذن رسول الله صلى الله عليه وسلم بالغزو وانا شيخ كبير ليس لي خادم، فالتمست اجيرا يكفيني واجري له سهمه، فوجدت رجلا فلما دنا الرحيل اتاني فقال: ما ادري ما السهمان وما يبلغ سهمي فسم لي شيئا؟ كان السهم او لم يكن فسميت له ثلاثة دنانير، فلما حضرت غنيمته اردت ان اجري له سهمه فذكرت الدنانير، فجئت النبي صلى الله عليه وسلم فذكرت له امره فقال:" ما اجد له في غزوته هذه في الدنيا والآخرة إلا دنانيره التي سمى". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَاصِمُ بْنُ حَكِيمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي عَمْرٍو السَّيْبَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الدَّيْلَمِيِّ، أَنَّ يَعْلَى ابْنَ مُنْيَةَ، قَالَ: آذَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْغَزْوِ وَأَنَا شَيْخٌ كَبِيرٌ لَيْسَ لِي خَادِمٌ، فَالْتَمَسْتُ أَجِيرًا يَكْفِينِي وَأُجْرِي لَهُ سَهْمَهُ، فَوَجَدْتُ رَجُلًا فَلَمَّا دَنَا الرَّحِيلُ أَتَانِي فَقَالَ: مَا أَدْرِي مَا السُّهْمَانِ وَمَا يَبْلُغُ سَهْمِي فَسَمِّ لِي شَيْئًا؟ كَانَ السَّهْمُ أَوْ لَمْ يَكُنْ فَسَمَّيْتُ لَهُ ثَلَاثَةَ دَنَانِيرَ، فَلَمَّا حَضَرَتْ غَنِيمَتُهُ أَرَدْتُ أَنْ أُجْرِيَ لَهُ سَهْمَهُ فَذَكَرْتُ الدَّنَانِيرَ، فَجِئْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ لَهُ أَمْرَهُ فَقَالَ:" مَا أَجِدُ لَهُ فِي غَزْوَتِهِ هَذِهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ إِلَّا دَنَانِيرَهُ الَّتِي سَمَّى".
یعلیٰ بن منیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ کا اعلان کیا اور میں بہت بوڑھا تھا میرے پاس کوئی خادم نہ تھا، تو میں نے ایک مزدور تلاش کیا جو میری خدمت کرے اور میں اس کے لیے اس کا حصہ جاری کروں، آخر میں نے ایک مزدور پا لیا، تو جب روانگی کا وقت ہوا تو وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا: میں نہیں جانتا کہ کتنے حصے ہوں گے اور میرے حصہ میں کیا آئے گا؟ لہٰذا میرے لیے کچھ مقرر کر دیجئیے خواہ حصہ ملے یا نہ ملے، لہٰذا میں نے اس کے لیے تین دینار مقرر کر دئیے، جب مال غنیمت آیا تو میں نے اس کا حصہ دینا چاہا، پھر خیال آیا کہ اس کے تو تین دینار مقرر ہوئے تھے، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے اس کا معاملہ بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اس کے لیے اس کے اس غزوہ میں دنیا و آخرت میں کچھ نہیں پاتا سوائے ان تین دیناروں کے جو متعین ہوئے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 11842)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/223) (صحیح)»
Narrated Yala ibn Munyah: The Messenger of Allah ﷺ announced an expedition, and I was a very old man and I had no servant. I, therefore, sought a hireling who would serve instead of me, and I would give him his portion. So I found a man. When the time of departure arrived, he came to me and said: I do not know what would be the portions, and how much would be my portion. So offer something (as wages) to me, whether there would be any portion or not. I offered three dinars (as his wages) for him. When some booty arrived, I wanted to offer him his portion. But I remembered the dinars, so I went to the Prophet ﷺ and mentioned the matter to him. He said: All I can find for him regarding this expedition of his in this world and the next is three dinars which were offered him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2521
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مشكوة المصابيح (3844)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2527
فوائد ومسائل: حسب ضرورت جہاد وغیرہ میں ملازم سے کام لینا جائز ہے۔ مگر ایسے غلام اور ملازم کا اجر اس کی اپنی نیت پ موقوف ہے۔ اگر اس کی نیت میں تقرب الی اللہ اور حصول رضا کا داعیہ موجود ہو تو اجر وغنیمت دونوں کا فائدہ حاصل ہو جاتا ہے۔ ورنہ بہت بڑی محرومی ہے کہ د نیاکے مال کے سوا اسے کچھ نہیں ملے گا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2527