ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عشرہ ذی الحجہ ۱؎ میں کبھی روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔
وضاحت: ۱؎: اس سے مراد ذی الحجہ کے ابتدائی نو دن ہیں یہ حدیث ان روایات میں سے ہے جن کی تاویل کی جاتی ہے کیونکہ ان نو دنوں میں روزہ رکھنا مکروہ نہیں بلکہ مستحب ہے، خاص کر یوم عرفہ (حاجیوں کے میدان عرفات میں وقوف کے دن)کے روزے کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے، ہو سکتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی بیماری یا سفر کی وجہ سے کبھی روزہ نہ رکھا ہو نیز عائشہ رضی اللہ عنہا کے نہ دیکھنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ روزہ نہ رکھتے رہے ہوں۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الاعتکاف 4 (1176)، سنن الترمذی/الصوم 51 (756)، (تحفة الأشراف: 15949)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الصیام 39 (1729)، مسند احمد (6/42، 124، 190) (صحیح)»
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2439
فوائد ومسائل: عشرہ ذی الحجہ سے مراد ذوالحجہ کے پہلے نو دن ہیں۔ ان دنوں میں روزہ رکھنا بہت ہی مستحب ہے، جیسے کہ اوپر کی احادیث میں آیا ہے اور حدیث:2437 میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مذکور ہوا ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس بیان کا مفہوم یوں ہے کہ یا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض عوارض کی بنا پر روزے نہیں رکھ سکے یا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اتفاق نہیں ہوا کہ انہیں روزے سے دیکھیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2439
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1729
´عشرہ ذی الحجہ کا روزہ۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دس دنوں میں کبھی روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1729]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ممکن ہے ام المو منین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اطلاع نہ ہو ئی ہو کہ نبی ﷺ اس دن روزے سے ہیں تا ہم ام المو منین رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود عرفہ کے دن کا رزہ رکھتی تھیں اس سے معلو م ہو تا ہے کہ انھیں دوسرے صحا بہ یا صحا بیا ت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس روزے کی فضیلت کا علم ہو گیا تھا (2) اس حدیث کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ نبی ﷺ ان ایام میں مسلسل روزے نہیں رکھتے تھے بلکہ دنو ں کا روزہ رکھ لیتے تھے واللہ اعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1729