(مرفوع) حدثنا نصر بن علي بن نصر الجهضمي، اخبرنا ابو احمد، اخبرنا إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن البراء، قال:" كان الرجل إذا صام فنام لم ياكل إلى مثلها، وإن صرمة بن قيس الانصاري اتى امراته وكان صائما، فقال: عندك شيء؟ قالت: لا، لعلي اذهب فاطلب لك شيئا، فذهبت وغلبته عينه فجاءت، فقالت: خيبة لك، فلم ينتصف النهار حتى غشي عليه وكان يعمل يومه في ارضه، فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فنزلت: احل لكم ليلة الصيام الرفث إلى نسائكم قرا إلى قوله: من الفجر سورة البقرة آية 187". (مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ نَصْرٍ الْجَهْضَمِيُّ، أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَاءِ، قَالَ:" كَانَ الرَّجُلُ إِذَا صَامَ فَنَامَ لَمْ يَأْكُلْ إِلَى مِثْلِهَا، وَإِنَّ صِرْمَةَ بْنَ قَيْسٍ الْأَنْصَارِيَّ أَتَى امْرَأَتَهُ وَكَانَ صَائِمًا، فَقَالَ: عِنْدَكِ شَيْءٌ؟ قَالَتْ: لَا، لَعَلِّي أَذْهَبُ فَأَطْلُبُ لَكَ شَيْئًا، فَذَهَبَتْ وَغَلَبَتْهُ عَيْنُهُ فَجَاءَتْ، فَقَالَتْ: خَيْبَةً لَكَ، فَلَمْ يَنْتَصِفْ النَّهَارُ حَتَّى غُشِيَ عَلَيْهِ وَكَانَ يَعْمَلُ يَوْمَهُ فِي أَرْضِهِ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَزَلَتْ: أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ قَرَأَ إِلَى قَوْلِهِ: مِنَ الْفَجْرِ سورة البقرة آية 187".
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ(ابتداء اسلام میں) آدمی جب روزہ رکھتا تھا تو سونے کے بعد آئندہ رات تک کھانا نہیں کھاتا تھا، صرمۃ بن قیس انصاری رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک بار ایسا ہوا کہ وہ روزے کی حالت میں اپنی بیوی کے پاس آئے اور پوچھا: کیا تیرے پاس کچھ (کھانا) ہے؟ وہ بولی: کچھ نہیں ہے لیکن جاتی ہوں ہو سکتا ہے ڈھونڈنے سے کچھ مل جائے، تو وہ چلی گئی لیکن حرمہ کو نیند آ گئی وہ آئی تو (دیکھ کر) کہنے لگی کہ اب تو تم (کھانے سے) محروم رہ گئے دوپہر کا وقت ہوا بھی نہیں کہ (بھوک کے مارے) ان پر غشی طاری ہو گئی اور وہ دن بھر اپنے زمین میں کام کرتے تھے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو یہ آیت «أحل لكم ليلة الصيام الرفث إلى نسائكم»”روزے کی رات میں تمہارے لیے اپنی عورتوں سے جماع حلال کر دیا گیا ہے“(سورۃ البقرہ: ۱۸۳) نازل ہوئی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے قول «من الفجر» تک پوری آیت پڑھی۔
Al Bara (bin Azib) said “When a man fasted and slept, he could not eat till (another nigh) like it. ” Sarmah bin Qais Al Ansari came to his wife while he was fasting and asked her Do you have something (to eat)? She replied “No”. Let me go and seek something for you. So, she went out and sleep overcame him. She came (back) and said (to him). You are deprived (of food). He fainted before noon. He used to work all day long at his land. This was mentioned to the Prophet ﷺ. So the following verse was revealed. “Permitted to you on the nights of the fasts, is the approach to your wives. They are your garments and ye are their garments. Allah knoweth what yes used to do secretly amongst yourselves. But he turned to you and forgave you. So now associate with them and seek what Allaah hath ordained for you. And eat and drink until the white thread of dawn appears to you. He recited up to the words “of dawn”.
USC-MSA web (English) Reference: Book 13 , Number 2307
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2314
فوائد ومسائل: (1) اس حدیث سے مذکورہ حدیث کے برعکس یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پہلے مسئلہ یہ تھا کہ سو جانے کے بعد، رات کو کھانا پینا اور بیوی سے ہم بستری کرنا ممنوع تھا۔ شارحین نے ان کے درمیان یہ تطبیق دی ہے کہ ان دونوں میں سے جو کام بھی ہو جاتا تھا، اس کے بعد اگلی رات تک اس کے لیے مذکورہ کام ممنو ع ہو جاتے تھے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے غروب شمس سے لے کر صبح صادق تک مذکورہ کاموں کی اجازت دے دی، جس سے مسلمانوں کو بڑی رخصت اور سہولت حاصل ہو گئی۔
(2) امام ابوداود اس امر کے قائل ہیں کہ رمضان کے روزے براہ راست فرض کیے گئے تھے، ان سے پہلے عاشور وغیرہ کے روزے فرض نہ تھے۔ واللہ اعلم
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2314
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2968
´سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔` براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ شروع میں کے صحابہ کا طریقہ یہ تھا کہ جب کوئی آدمی روزہ رکھتا اور افطار کا وقت ہوتا اور افطار کرنے سے پہلے سو جاتا، تو پھر وہ ساری رات اور سارا دن نہ کھاتا یہاں تک کہ شام ہو جاتی۔ قیس بن صرمہ انصاری کا واقعہ ہے کہ وہ روزے سے تھے جب افطار کا وقت آیا تو وہ اپنی اہلیہ کے پاس آئے اور پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے؟ انہوں نے کہا: ہے تو نہیں، لیکن میں جاتی ہوں اور آپ کے لیے کہیں سے ڈھونڈھ لاتی ہوں، وہ دن بھر محنت مزدوری کرتے تھے اس لیے ان کی آنکھ لگ گئی۔ وہ لوٹ کر آئیں تو انہیں سوتا ہوا پایا، کہا: ہائے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2968]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں سے ملنا تمہارے لیے حلال کیا گیا (البقرۃ: 187) 2؎: تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے ظاہر ہو جائے (البقرۃ: 187)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2968