تخریج: «أخرجه أبوداود، باب نسخ المراجعة بعد التطليقات الثلاث، حديث:2196.* فيه بعض بني أبي رافع مجهول، وحديث "طلّق أبوركانة امرأة في مجلس واحد" أخرجه أحمد:1 /265، وسنده ضعيف، داود بن حصين عن عكرمة منكر و ضعيف، وحديث "أن ركانة طلق امرأته سهيمة البتة: أخرجه أبوداود، الطلاق، حديث:2206 وسنده حسن.»
تشریح:
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اگر طلاق دینے والے کی نیت میں ایک ہی طلاق تھی تو ایک رجعی طلاق واقع ہوگی؟ بعض کا کہنا ہے کہ رکانہ رضی اللہ عنہ سے قسم لینے کامقصد یہ تھا کہ اگر انھوں نے تین کی نیت کی ہوگی تو تین واقع ہو جائیں گی۔
لیکن یہ حدیث ضعیف ہے اور ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں اضطراب بھی پایا جاتا ہے۔
اور پھر یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی پہلی دونوں احادیث
(۹۱۹ ‘ ۹۱۷) کے معارض بھی ہے‘ لہٰذا اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا۔
یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ قصۂ رکانہ والی حدیث کی تین سندیں ہیں اور مصنف رحمہ اللہ نے تینوں بیان کر دی ہیں۔
ان میں سے پہلی اور تیسری سند ‘ جنھیں ابوداود نے بیان کیا ہے‘ ضعیف ہیں۔
پہلی اس بنا پر کہ اسے ابن جریج کے واسطے سے روایت کیا گیا ہے‘ ابن جریج کہتے ہیں کہ مجھے بنو رافع میں سے کسی نے عکرمہ کے حوالے سے خبر دی ہے… جبکہ بنو رافع میں سے خبر دینے والا شخص مجہول ہے‘ لہٰذا یہ سند ضعیف ہوئی۔
رہی تیسری روایت‘جس میں طلاق مغلظہ کا ذکر ہے‘ اسے جریر بن حازم نے زبیربن سعید عن عبداللہ بن علی بن یزید بن رکانہ عن ابیہ عن جدہ کے طریق سے بیان کیا ہے اور اسی طرح یہ نافع بن عُجیر عن رکانہ بن عبد یزید کی سند سے بھی مروی ہے‘ پہلی سند میں زبیر بن سعید ضعیف ہے۔
میزان الاعتدال میں ہے: لَیْسَ بِشَيْئٍ کہ اس کی کچھ حیثیت نہیں ہے۔
اور نسائی نے کہا ہے کہ یہ ضعیف ہے۔
اور تقریب میں ہے کہ یہ لیّن الحدیث ہے۔
اور عبداللہ بن علی بن یزید بھی ضعیف ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب میں کہا ہے کہ یہ لیّن الحدیث ہے۔
اور میزان الاعتدال میں ہے کہ عقیلی نے کہا ہے: اس کی سند میں اضطراب ہے۔
اس کی حدیث کا کوئی متابع نہیں ہے۔
رہا اس کا باپ علی بن یزید! تو الخلاصۃ میں ہے کہ ابن حبان نے اسے ثقہ قرار دیا ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس کی حدیث صحیح نہیں۔
اور ترمذی نے امام بخاری رحمہ اللہ کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ اس میں اضطراب ہے۔
اور دوسری سند میں نافع بن عجیر ضعیف ہے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں کہا ہے کہ نافع بن عجیر مجہول ہے۔
اس کے حالات کا قطعًاکسی کو علم نہیں کہ وہ کون تھا اور کیسا تھا؟ اور علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے فتاویٰ میں کہا ہے کہ علل حدیث کے ماہر اور اس کے بارے میں سوجھ بوجھ رکھنے والے علماء‘ مثلاً: امام احمد بن حنبل‘ امام بخاری‘ ابوعبید اور ابومحمد بن حزم رحمہم اللہ وغیرہم نے طلاق بتہ والی حدیث کو قطعی ضعیف قرار دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ اس کے راوی ایسے مجہول لوگ ہیں جن کی عدالت اور ضبط معلوم نہیں ہیں۔
(فتاوٰی ابن تیمیۃ:۳۳ /۱۵) جب اس سند کا یہ حال ہے تو پھر اس کے ضعف میں کوئی شک و ریب باقی نہیں رہ جاتا۔
یہ تو بحث تھی پہلی اور تیسری سند کی‘ رہی دو سری سندجسے ابوداود نے بیان نہیں کیابلکہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اسے بیان کیا ہے تو اس کے تمام راوی ثقہ اور قابل حجت ہیں۔
البتہ محمد بن اسحاق رحمہ اللہ کے متعلق ضرور کلام ہے۔
اور یہ معلوم ہی ہے کہ محمد بن اسحاق رحمہ اللہ میں تدلیس کے ماسوا اور کوئی قابل ذکر کمزوری نہیں ہے۔
اس سند میں اس نے سماع کی صراحت کر دی ہے‘ لہٰذا تدلیس کا شبہ بھی ختم ہوگیا۔
اب یہ روایت بالکل درست ثابت ہوگئی۔
مذکورہ بالا بحث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سب سے عمدہ اور صحیح ترین طریق وہی ہے جسے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔
لیکن ابوداود نے جب یہ طریق روایت نہیں کیا توانھوں نے پہلے اور تیسرے طریق کا موازنہ کرتے ہوئے تیسرے کو ترجیح دی ہے اور اسے بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے: یہ ابن جریج کے طریق سے زیادہ صحیح ہے جس میں ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں‘ کیونکہ اس
(تیسرے طریق) کے راوی خود رکانہ کے گھر والے ہیں۔
اور اہل خانہ کو زیادہ معلومات ہوتی ہیں۔
(أبوداود) اس کے یہ معنی نہیں کہ ابوداود کے نزدیک یہ صحیح ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ دو ضعیف احادیث میں سے قابل ترجیح ہے اور اس میں ضعف کم ہے۔
اور نافع بن عجیر کی روایت کا مسند احمد کی روایت سے امام ابوداود رحمہ اللہ کے ہاں راجح ہونا ان کے کلام سے ظاہر نہیں ہوتا کیونکہ امام ابوداود نے اسے ذکر ہی نہیں کیا‘ اسی لیے ہم بھی اس پر بحث نہیں کرتے۔
اس ضروری وضاحت کو سمجھ لینے کے بعد اب یہ جان لیجیے کہ اس حدیث کے بارے میں مصنف
(حافظ ابن حجر رحمہ اللہ) کی گفتگو دو وجہ سے مخدوش ہے۔
پہلی یہ کہ پہلے اور دوسرے طریق کو بیان کرنے کے بعد
(مصنف رحمہ اللہ نے) کہا ہے کہ ان دونوں احادیث کی سند میں محمد بن اسحاق راوی ہے جس میں کلام ہے باوجودیکہ محمد بن اسحاق پہلے طریق میں سرے سے موجود ہی نہیں‘ وہ تو صرف دوسرے طریق میں ہے۔
اور دوسری وجہ یہ ہے کہ مصنف نے تیسری روایت ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابوداود نے اسے ایک اور طریق سے بیان کیا ہے جو اس
(پہلے) سے بہتر ہے۔
ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہی ہوگا کہ یہ طریق‘ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے بہتر ہے یا دوسرے طریق سے بہتر ہے جسے امام احمد رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے‘ اس لیے کہ قریب الذکر وہی ہے۔
بہرحال دونوں میں سے کوئی بھی ہو آپ یہ تو معلوم کر چکے ہیں کہ صحیح اور قوی ترین طریق دوسرا ہی ہے۔
اگر تو مؤلف کی مراد یہ ہے کہ امام ابوداود کے نزدیک یہ احسن ہے تو آپ جان چکے ہیں کہ امام ابوداود کے کلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں اور اگر ان کی مراد یہ ہے کہ میرے نزدیک یہ احسن ہے تو سابقہ تفصیل کی روشنی میں یہ بھی درست نہیں۔
راویٔ حدیث: «حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ» رکانہ میں
”را
“ پر ضمہ ہے۔
یہ رکانہ بن عبد یزید بن ہاشم بن مطلب بن عبدمناف مطّلبی ہیں۔
فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کشتی کی تھی۔
اور یہی کشتی ان کے اسلام لانے کا باعث بنی۔
مدینہ چلے آئے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے شروع میں یہیں فوت ہوئے۔
بعض کے نزدیک ۴۱ ہجری میں فوت ہوئے۔
ان کی بیوی سہیمہ بنت عمیر مزنیہ ہے۔
«محمد بن اسحاق» ان کی کنیت ابوبکر اور بعض نے ابو عبداللہ بیان کی ہے‘۔
پورا نام محمد بن اسحاق بن یسار مطلبی ہے۔
قیس بن مخرمہ مدنی کے غلام تھے۔
مغازی و سیر کے امام تھے۔
۱۵۰ ہجری میں وفات پائی۔
بعض نے کہا ہے کہ اس کے بعد وفات پائی۔