محمد بن عبید بن ابوصالح (جو ایلیاء میں رہتے تھے) کہتے ہیں کہ میں عدی بن عدی کندی کے ساتھ نکلا یہاں تک کہ میں مکہ آیا تو انہوں نے مجھے صفیہ بنت شیبہ کے پاس بھیجا، اور انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیثیں یاد کر رکھی تھیں، وہ کہتی ہیں: میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”زبردستی کی صورت میں طلاق دینے اور آزاد کرنے کا اعتبار نہیں ہو گا“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ غلاق کا مطلب غصہ ہے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس باب کے الفاظ کی روایت تین طرح ہے: «على غيظ»، «على غضب»، «على غلطٍ» اور حدیث میں «غلاق»، «إغلاق» جس کے معنی مؤلف نے غضب کے لئے ہیں، حالانکہ کوئی بھی آدمی بغیر غیظ و غضب کے طلاق نہیں دیتا، اس طرح تو کوئی طلاق واقع ہی نہیں ہو گی، اس لئے «إغلاق» کا معنی ”زبردستی“ لینا بہتر ہے، اور تحقیقی بات یہی ہے کہ زبردستی لی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 17855)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الطلاق 16 (2046)، مسند احمد (6/276) (حسن)» (اس کے راوی محمد بن عبید ضعیف ہیں، لیکن دوسرے رواة کی متابعت و تقویت سے یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو:ا رواء الغلیل: 2047، وصحیح ابی داود: 6؍ 396)
Muhammad ibn Ubayd ibn Abu Salih who lived in Ayliya said: I went out with Adi ibn Adi al-Kindi till we came to Makkah. He sent me to Safiyyah daughter of Shaybah who remembered a tradition (that she had heard) from Aishah. She said: I heard Aishah say: I heard the Messenger of Allah ﷺ say: There is no divorce or emancipation in case of constraint or duress (ghalaq). Abu Dawud said: I think ghalaq means anger.
USC-MSA web (English) Reference: Book 12 , Number 2188
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف نسائي (2046) محمد بن عبيد بن أبي صالح وثقه ابن حبان والحاكم و ضعفه أبو حاتم الرازي و ابن حجر و ضعفه راجح و للحديث شواھد ضعيفة،و له لون آخر عند ابن ماجه (2046) وسنده ضعيف انوار الصحيفه، صفحه نمبر 83
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود، تحت الحديث 2193
فوائد ومسائل: کتب غریب الحدیث میں اغلاق کے معنی جبر و اکراہ اور جنون کے بھی آئے ہیں۔ اس حدیث میں مراد غصے کی وہ شدید کیفیت ہے جس میں انسان کو ہوش نہیں رہتا۔ ورنہ عام حالات میں خوشی سے کوئی طلاق نہیں دیتا۔ جبر و اکراہ سے طلاق دلوائی جائے یا کوئی جنون کی کیفیت میں طلاق دے تو نافذ نہیں ہوتی۔ غصے میں دے تو ہو جاتی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2193