ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف الزہری کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (کی ازواج مطہرات) کے مہر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ بارہ اوقیہ اور ایک نش تھا ۱؎، میں نے کہا: نش کیا ہے؟ فرمایا: آدھا اوقیہ ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: بارہ اوقیہ کے (۴۸۰) درہم اورنش کے (۲۰) درہم، کل پانچ سو درہم ہوئے، جو وزن سے تیرہ سو پچھتر گرام (۱۳۷۵) کے مساوی ہے (یعنی ایک کیلو تین سو پچھتر گرام چاندی)۔ ۲؎: ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے اس حساب سے ساڑھے بارہ اوقیہ کے کل پانچ سو درہم ہوئے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/النکاح 13 (1426)، سنن النسائی/النکاح 66 (3349)، سنن ابن ماجہ/النکاح 17 (1886)، (تحفة الأشراف: 17739)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6 /94)، سنن الدارمی/النکاح 18 (2245) (صحیح)»
Abu Salamah said “I asked Aishah about the dower given by the Messenger of Allah ﷺ. She said “It was twelve Uqiyahs and a nashsh”. I asked “What is nashsh?” She said it is half an uqiyah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 11 , Number 2100
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2105
فوائد ومسائل: ایک اوقیہ میں چالیس درہم چاندی ہوتے ہیں لہذا یہ مقدار پانچ سو درہم ہوئی اور موجودہ معیار کے مطابق ایک درہم کا وزن 975۔ 2 گرام اور پچھلے علماء کے حساب سے 06۔ 3 گرام ہوتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2105
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3349
´مہر کی ادائیگی میں عدل و انصاف سے کام لینے کا بیان۔` ابوسلمہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس (یعنی مہر) کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ اوقیہ اور ایک نش ۱؎ کا مہر باندھا جس کے پانچ سو درہم ہوئے۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3349]
اردو حاشہ: (1)”اوقیہ“ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔ ساڑھے بارہ اوقیے پانچ سودرہم بنتے ہیں۔ (2)”نکاح کیے“ یعنی خود اپنی ازواج مطہرات سے اور اپنی بیٹیوں کے نکاح اپنے دامادوں سے کیے۔ اگر اکثر نکاح اس مہر پر ہوں تو مندرجہ بالا الفاظ بولے جاسکتے ہیں‘ خواہ سب نکاح اس مہر پر نہ بھی ہوں۔ یہ معقول مہر تھا۔ آج کل ہمارے سکے کے لحاظ سے تقریباً دس ہزار روپے بنتے ہیں‘ حالانکہ وہ تنگی کا دور تھا۔ یہ جو آج کل سوا بتیس روپے کو شرعی مہر سمجھا جاتا ہے‘ یہ کس دور کا حساب ہے؟ اللہ جانے! یہ انتہائی غیر معقول ہے چہ جائیکہ شرعی ہو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3349
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1886
´عورتوں کے مہر کا بیان۔` ابوسلمہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا مہر کیا تھا؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا مہر بارہ اوقیہ اور ایک نش تھا، تم جانتے ہو نش کیا ہے؟ یہ آدھا اوقیہ ہے، یہ کل پانچ سو درہم ہوئے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1886]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) نکاح میں حق مہر ضروری ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ﴾(النساء، 4: 24) ”اور ان (مذکورہ بالا) عورتوں کے سوا، دوسری عورتیں تم پر حلال کی گئیں کہ اپنے مال سے (حق مہر دے کر) تم ان سے نکاح کرنا چاہو (تو کر لو) برے کام سے بچنے کے لیے، نہ کہ شہوت رانی کرنے کے لیے۔“
(2) مذکورہ بالا آیت میں شرعی نکاح کی شرائط بیان کی گئی ہیں۔
اول یہ کہ طلب کرو ﴿أَن تَبْتَغُوا﴾ یعنی دونوں طرف سے ایجاب و قبول ہو۔
دوسری یہ کہ مال دو ﴿بِأَمْوَالِكُم﴾ یعنی حق مہر ادا کرو۔
تیسری یہ کہ ان کو شادی کی دائمی قید میں لانا مقصود ہو۔ متعہ یا حلالہ نہ ہو ﴿مُّحْصِنِينَ﴾”قلعہ (حصن) میں بند کرنے والے“۔
چوتھی شرط یہ ہے کہ چھپی دوستی نہ ہو بلکہ گواہوں کی موجودگی میں نکاح ہو۔ ﴿وَلَا مُتَّخِذَاتِ اَخْدَان﴾”نہ چھپی دوستی والیاں۔“(السناء، 4: 25)(مفہوم تفسیر احسن البیان، حافظ صلاح الدین یوسف)
(3) حق مہر بہت زیادہ مقرر نہیں کرنا چاہیے جس کی ادائیگی خاوند کے لیے دشوار ہو اور بہت کم بھی مقرر نہیں کرنا چاہیے جس کی خاوند کی نظر میں کوئی اہمیت نہ ہو۔
(4) اگر خاوند مفلس ہو تو حق مہر بہت کم بھی مقرر کیا جاسکتا ہے، خواہ لوہے کا چھلا ہی ہو۔ (صحیح البخاري، النکاح، حدیث: 5150، وصحیح مسلم، النکاح، حدیث: 1425)
(5) پانچ سو درہم کی مقدار تقریباً ڈیڑھ کلو گرام چاندی کے برابر ہوتی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1886
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3489
حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی بیویوں کو) کتنا مہر دیا تھا؟ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا مہر، بارہ اوقیہ اور ایک نش تھا، اور پوچھا، تمہیں نش کے بارے میں علم ہے؟ میں نے عرض کیا، نہیں، انہوں نے بتایا، آدھا اوقیہ کو کہتے ہیں، اس طرح پانچ سو درہم ہو گئے،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:3489]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: ایک اوقیہ میں چالیس درہم ہوتے ہیں، اور بارہ اوقیہ کے 480 (چارسواسی) درہم بن گئے اور نش کی مقدار بیس (20) درہم ملا کرپانچ سودرہم ہوگئے، لیکن اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مہر چونکہ نجاشی نے ادا کیا تھا اس لیے اس نے چار ہزار درہم یا چار ہزار دینار دیے تھے، اور حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مہران کی آزادی تھی اور بہتر یہ ہے کہ مہر کا کم ازکم حصہ پہلی رات ہی ادا کردیا جائے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا تھا۔