(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، حدثنا عنبسة، حدثني يونس، عن ابن شهاب، حدثني عروة بن الزبير، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم وام سلمة، ان ابا حذيفة بن عتبة بن ربيعة بن عبد شمس كان تبنى سالما وانكحه ابنة اخيه هند بنت الوليد بن عتبة بن ربيعة، وهو مولى لامراة من الانصار، كما تبنى رسول الله صلى الله عليه وسلم زيدا، وكان من تبنى رجلا في الجاهلية دعاه الناس إليه وورث ميراثه، حتى انزل الله سبحانه وتعالى في ذلك: ادعوهم لآبائهم إلى قوله: فإخوانكم في الدين ومواليكم سورة الاحزاب آية 5، فردوا إلى آبائهم، فمن لم يعلم له اب كان مولى واخا في الدين، فجاءت سهلة بنت سهيل بن عمرو القرشي، ثم العامري، وهي امراة ابي حذيفة، فقالت: يا رسول الله، إنا كنا نرى سالما ولدا، وكان ياوي معي ومع ابي حذيفة في بيت واحد، ويراني فضلا، وقد انزل الله عز وجل فيهم ما قد علمت، فكيف ترى فيه؟ فقال لها النبي صلى الله عليه وسلم:" ارضعيه"، فارضعته خمس رضعات، فكان بمنزلة ولدها من الرضاعة، فبذلك كانت عائشة رضي الله عنها تامر بنات اخواتها وبنات إخوتها ان يرضعن من احبت عائشة ان يراها ويدخل عليها وإن كان كبيرا خمس رضعات، ثم يدخل عليها، وابت ام سلمة وسائر ازواج النبي صلى الله عليه وسلم ان يدخلن عليهن بتلك الرضاعة احدا من الناس حتى يرضع في المهد، وقلن لعائشة: والله ما ندري؟ لعلها كانت رخصة من النبي صلى الله عليه وسلم لسالم دون الناس. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ أَبَا حُذَيْفَةَ بْنَ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ كَانَ تَبَنَّى سَالِمًا وَأَنْكَحَهُ ابْنَةَ أَخِيهِ هِنْدَ بِنْتَ الْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَهُوَ مَوْلًى لِامْرَأَةٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، كَمَا تَبَنَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدًا، وَكَانَ مَنْ تَبَنَّى رَجُلًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ دَعَاهُ النَّاسُ إِلَيْهِ وَوُرِّثَ مِيرَاثَهُ، حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى فِي ذَلِكَ: ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ إِلَى قَوْلِهِ: فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ سورة الأحزاب آية 5، فَرُدُّوا إِلَى آبَائِهِمْ، فَمَنْ لَمْ يُعْلَمْ لَهُ أَبٌ كَانَ مَوْلًى وَأَخًا فِي الدِّينِ، فَجَاءَتْ سَهْلَةُ بِنْتُ سُهَيْلِ بْنِ عَمْرٍو الْقُرَشِيِّ، ثُمَّ الْعَامِرِيِّ، وَهِيَ امْرَأَةُ أَبِي حُذَيْفَةَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا نَرَى سَالِمًا وَلَدًا، وَكَانَ يَأْوِي مَعِي وَمَعَ أَبِي حُذَيْفَةَ فِي بَيْتٍ وَاحِدٍ، وَيَرَانِي فُضْلًا، وَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيهِمْ مَا قَدْ عَلِمْتَ، فَكَيْفَ تَرَى فِيهِ؟ فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرْضِعِيهِ"، فَأَرْضَعَتْهُ خَمْسَ رَضَعَاتٍ، فَكَانَ بِمَنْزِلَةِ وَلَدِهَا مِنَ الرَّضَاعَةِ، فَبِذَلِكَ كَانَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَأْمُرُ بَنَاتِ أَخَوَاتِهَا وَبَنَاتِ إِخْوَتِهَا أَنْ يُرْضِعْنَ مَنْ أَحَبَّتْ عَائِشَةُ أَنْ يَرَاهَا وَيَدْخُلَ عَلَيْهَا وَإِنْ كَانَ كَبِيرًا خَمْسَ رَضَعَاتٍ، ثُمَّ يَدْخُلُ عَلَيْهَا، وَأَبَتْ أُمُّ سَلَمَةَ وَسَائِرُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُدْخِلْنَ عَلَيْهِنَّ بِتِلْكَ الرَّضَاعَةِ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ حَتَّى يَرْضَعَ فِي الْمَهْدِ، وَقُلْنَ لِعَائِشَةَ: وَاللَّهِ مَا نَدْرِي؟ لَعَلَّهَا كَانَتْ رُخْصَةً مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِسَالِمٍ دُونَ النَّاسِ.
ام المؤمنین عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ بن عبدشمس نے سالم کو (جو کہ ایک انصاری عورت کے غلام تھے) منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا، جس طرح کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زید رضی اللہ عنہ کو بنایا تھا، اور اپنی بھتیجی ہند بنت ولید بن عتبہ بن ربیعہ سے ان کا نکاح کرا دیا، زمانہ جاہلیت میں منہ بولے بیٹے کو لوگ اپنی طرف منسوب کرتے تھے اور اسے ان کی میراث بھی دی جاتی تھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں آیت: «ادعوهم لآبائهم» سے «فإخوانكم في الدين ومواليكم»۱؎ تک نازل فرمائی تو وہ اپنے اصل باپ کی طرف منسوب ہونے لگے، اور جس کے باپ کا علم نہ ہوتا اسے مولیٰ اور دینی بھائی سمجھتے۔ پھر سہلہ بنت سہیل بن عمرو قرشی ثم عامری جو کہ ابوحذیفہ کی بیوی تھیں آئیں اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم سالم کو اپنا بیٹا سمجھتے تھے، وہ میرے اور ابوحذیفہ کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے تھے، اور مجھے گھر کے کپڑوں میں کھلا دیکھتے تھے اب اللہ نے منہ بولے بیٹوں کے بارے میں جو حکم نازل فرما دیا ہے وہ آپ کو معلوم ہی ہے لہٰذا اب اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”انہیں دودھ پلا دو“، چنانچہ انہوں نے انہیں پانچ گھونٹ دودھ پلا دیا، اور وہ ان کے رضاعی بیٹے ہو گئے، اسی کے پیش نظر ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی بھانجیوں اور بھتیجیوں کو حکم دیتیں کہ وہ اس شخص کو پانچ گھونٹ دودھ پلا دیں جسے دیکھنا یا اس کے سامنے آنا چاہتی ہوں گرچہ وہ بڑی عمر کا آدمی ہی کیوں نہ ہو پھر وہ ان کے پاس آتا جاتا، لیکن ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور دیگر ازواج مطہرات نے اس قسم کی رضاعت کا انکار کیا جب تک کہ دودھ پلانا بچپن میں نہ ہو اور انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: اللہ کی قسم ہمیں یہ معلوم نہیں شاید یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے صرف سالم کے لیے رخصت رہی ہو نہ کہ دیگر لوگوں کے لیے ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: سورة الأحزاب: (۵) ۲؎: جمہور کی رائے یہی ہے کہ یہ سالم کے ساتھ خاص ہے، کچھ علماء یہ کہتے ہیں کہ خصوصیت کی کوئی دلیل نہ ہونے کی وجہ سے اس حکم کو برقرار مانا جائے اگر واقعی سالم جیسا معاملہ پیش آ جائے اور رضاعی ماں بننے کے لئے دودھ پلایا جائے تو رضاعت ثابت ہو جائے گی۔
Aishah wife of the Prophet ﷺ and Umm Salamah said “Abu Hudaifah bin ‘Utbah bin Rabiah bin Abd Shams adopted Salim as his son and married him to his niece Hind, daughter of Al Walid bin ‘Utbah bin Rabiah. He (Salim) was the freed slave of a woman from the Ansar (the Helpers) as the Messenger of Allah ﷺ adopted Zaid as his son. In pre Islamic days when anyone adopted a man as his son, the people called him by his name and he was given a share from his inheritance. Allaah, the Exalted, revealed about this matter “Call them by (the name of) their fathers, that is juster in the sight of Allaah. And if ye know not their fathers, then (they are) your brethren in the faith and your clients. They were then called by their names of their fathers. A man, whose father was not known, remained under the protection of someone and considered brother in faith. Sahlah daughter of Suhail bin Amr Al Quraishi then came and said Messenger of Allah ﷺ, we used to consider Salim (our) son. He dwelled with me and Abu Hudhaifah in the same house, and he saw me in the short clothes, but Allaah the Exalted, has revealed about them what you know, then what is your opinion about him? The Prophet ﷺ said give him your breast feed. She gave him five breast feeds. He then became like her foster son. Hence, Aishah (may Allaah be pleased with her) used to ask the daughters of her sisters and the daughters of her brethren to give him breast feed five times, whom Aishah wanted to see and who wanted to visit her. Though he might be of age; he then visited her. But Umm Salamah and all other wives of the Prophet ﷺ refused to allow anyone to visit them on the basis of such breast feeding unless one was given breast feed during infancy. They told Aishah by Allaah we do not know whether that was a special concession granted by the Prophet ﷺ to Salim exclusive of the people.
USC-MSA web (English) Reference: Book 11 , Number 2056
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح أخرجه النسائي (3225) وأصله عند البخاري (5088) وللحديث طرق
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2061
فوائد ومسائل: 1: قرآن مجید کی تعلیمات اٹل ہیں اور واجب العمل بھی۔ ان میں چون وچرا کی کوئی گنجائش نہیں مگر رسول ﷺکے بیان وتوضیح کے ساتھ جو بسند صحیح ہم تک پہنچ جائے۔
2: جمہورعلماء کے نزدیک دو سال کی عمر کے بعد دودھ پینے پلانے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ حرمت ثابت کرنے والی رضاعت وہ ہے جو مدت رضاعت کے اندر ہو جو کہ دو سال ہے، کم از کم پانچ رضعات ہوں، (رضعت یہ ہے کہ بچہ چھاتی کو منہ میں لے اور دودھ چوسے تو جب تک وہ پستان کو منہ میں لے کر پیتا رہے گا یہ ایک رضعت کہلائے گی، خواہ یہ مدت طویل ہو یاقلیل) اور جو آنتوں کو پھاڑے یعنی اس کی خوراک صرف دودھ ہو جس سے بچہ پلے اور بڑھے مگر حضرت عائشہ رضی اللہ لیث بن سعد، عطاء اور فقہائے اہل ظاہر دوسال کے بعد بھی حرمت رضاعت کے قائل ہیں ان کی دلیل حضرت سالم کا واقعہ ہے لیکن دوسری امہات المومنین کا بیان ہے کہ حضرت سالم کے ساتھ خاص ہے، جیسا کہ اس حدیث میں ہے۔ امام ابن تیمیہ اور شیخ شوکانی ؒ اس حدیث کی بابت لکھتے ہیں کہ عمومی حالات میں تو نہیں مگر کہیں خاص اضطراری احوال میں اس پر عمل کی گنجائش ہے۔
3: اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ چہرہ چھپانا پردے کا لازمی حصہ ہے اگر چہ چھپانا ضروری نہ تھا تو اس قدر تردد کی ضرورت ہی کیا تھی۔
4: (رضعہ) کا معنی دیل باب میں دیکھیے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2061
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:280
فائدہ: اس حدیث میں رضاعت کبیر کا بیان ہے، اب یہ منسوخ ہے، بعض نے اس کو سالم کے ساتھ خاص واقعہ قرار دیا ہے۔ (اکمال المعلم: 330/4۔ فتح الباری: 134/9) رضاعت ثابت ہونے کی عمر 2 سال تک ہے، اس کے بعد اگر کوئی دودھ پی لے تو اس کی رضاعت ثابت نہیں ہو گی۔ سیدنا ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صرف وہی رضاعت حرمت ثابت کرتی ہے جو انتڑیوں کو کھول دے ( «وكـان قبـل الـفطام» اور دودھ چھڑانے کی مدت (یعنی دو سال کی عمر) سے پہلے ہو (سنن الترندی: 1152، یہ حدیث صیح ہے)۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا رضـاع بـعـد فصال ويتم بعد احتلام»(دودھ چھڑانے کی مدت کے بعد رضاعت ثابت نہیں ہوتی، اور احتلام کے بعد کسی کو یتیم نہیں سمجھا جائے گا)۔ (المعجم الصغير للطبراني: 158/2، یہ حدیث حسن ہے) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ «لا رضاع الا فى الحولين»(کوئی رضاعت معتبر نہیں ہے سوائے اس رضاعت کے جو دوسال کے دوران ہو)۔ (سنن دار قطنی: 173/4)
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 280