(مرفوع) حدثنا مسدد، ان ابا معاوية، وحفص بن غياث حدثاه وحديث ابي معاوية اتم، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن عبد الرحمن بن يزيد، قال:" صلى عثمان بمنى اربعا، فقال عبد الله:" صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم ركعتين، ومع ابي بكر ركعتين ومع عمر ركعتين، زاد عن حفص، ومع عثمان صدرا من إمارته ثم اتمها، زاد من ها هنا عن ابي معاوية: ثم تفرقت بكم الطرق، فلوددت ان لي من اربع ركعات ركعتين متقبلتين، قال الاعمش: فحدثني معاوية بن قرة، عن اشياخه، ان عبد الله صلى اربعا، قال: فقيل له: عبت على عثمان ثم صليت اربعا، قال: الخلاف شر". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، أَنَّ أَبَا مُعَاوِيَةَ، وَحَفْصَ بْنَ غِيَاثٍ حَدَّثَاهُ وَحَدِيثُ أَبِي مُعَاوِيَةَ أَتَمُّ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ:" صَلَّى عُثْمَانُ بِمِنًى أَرْبَعًا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ:" صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ، وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ رَكْعَتَيْنِ وَمَعَ عُمَرَ رَكْعَتَيْنِ، زَادَ عَنْ حَفْصٍ، وَمَعَ عُثْمَانَ صَدْرًا مِنْ إِمَارَتِهِ ثُمَّ أَتَمَّهَا، زَادَ مِنْ هَا هُنَا عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ: ثُمَّ تَفَرَّقَتْ بِكُمُ الطُّرُقُ، فَلَوَدِدْتُ أَنْ لِي مِنْ أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ رَكْعَتَيْنِ مُتَقَبَّلَتَيْنِ، قَالَ الْأَعْمَشُ: فَحَدَّثَنِي مُعَاوِيَةَ بْنُ قُرَّةَ، عَنْ أَشْيَاخِهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ صَلَّى أَرْبَعًا، قَالَ: فَقِيلَ لَهُ: عِبْتَ عَلَى عُثْمَانَ ثُمَّ صَلَّيْتُ أَرْبَعًا، قَالَ: الْخِلَافُ شَرٌّ".
عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں چار رکعتیں پڑھیں تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ دو ہی رکعتیں پڑھیں (اور حفص کی روایت میں اتنا مزید ہے کہ) عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کی خلافت کے شروع میں، پھر وہ پوری پڑھنے لگے، (ایک روایت میں ابومعاویہ سے یہ ہے کہ) پھر تمہاری رائیں مختلف ہو گئیں، میری تو خواہش ہے کہ میرے لیے چار رکعتوں کے بجائے دو مقبول رکعتیں ہی ہوں۔ اعمش کہتے ہیں: مجھ سے معاویہ بن قرہ نے اپنے شیوخ کے واسطہ سے بیان کیا ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے چار رکعتیں پڑھیں، تو ان سے کہا گیا: آپ نے عثمان پر اعتراض کیا، پھر خود ہی چار پڑھنے لگے؟ تو انہوں نے کہا: اختلاف برا ہے۔
Narrated Abdur-Rahman bin Zaid: Uthman prayed four rak'ahs at Mina. Abdullah (bin Masud) said: I prayed two rak'ahs along with the Prophet ﷺ and two rak'ahs along with Umar. The version of Hafs added: And along with Uthman during the early period of his caliphate. He (Uthman) began to offer complete prayer (i. e. four rak'ahs) later on. The version of Abu Muawiyah added: Then your modes of action varied. I would like to pray two rak'ahs acceptable to Allah instead of four rak'ahs. Al-Amash said: Muawiyah bin Qurrah reported to me from his teachers: Abdullah (bin Masud) once prayed four rak'ahs. He was told: You criticized Uthman but you yourself prayed four ? He replied: Dissension is evil.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1955
قال الشيخ الألباني: صحيح دون حديث معاوية بن قرة
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1084) صحيح مسلم (695)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1960
1960. اردو حاشیہ: اس روایت میں حضرت عثمان کا یہ عمل منقول ہے کہ انہوں نے اپنی خلافت میں (ابتدائی چھ سال کے بعد) منی ٰ میں قصر کی بجائے پوری چار رکعت پڑھنی شروع کر دی تھیں۔ اس کی مختلف وجوہات بیان کی گئی ہیں، لیکن اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے محض جواز کی بنیاد پر پوری نماز پڑھی تھی، اسی لیے پہلے چھ سال تک وہ قصر ہی کرتے رہے تھے۔ اور اسی جواز ہی کی وجہ سے حضرت عبد اللہ بن مسعود نے بھی حضرت عثمان کی متابعت میں پوری نماز پڑھ لی، اور اس میں اختلاف کرنے کو پسند نہیں کیا۔ حالانکہ وہ خود بیان کر رہے ہیں کہ اس سے قبل وہ قصر کرتے رہے۔ اگر پوری نماز پڑھنے کا جواز نہ ہوتا تو یقیناً اس سے اختلاف کرتے اور اختلاف کو برا کام نہ کہتے کیونکہ جس چیز کا جواز ہی نہ ہو اس سے تواختلاف کرنا ضروری ہے اس اختلاف کو تو کسی صورت میں برا کام نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم مسافر کے لیے قصر اور اتمام دونوں باتوں کے جائز سمجھنے کے باوجود وہ ڈر تے تھے کہ حضرت عثمان کی متابعت میں انہوں نے جو چار رکعتیں پڑھی ہیں کہیں وہ عند اللہ نامقبول نہ ہوں اس لیے اللہ کی طرف سے اگر دورکعتیں بھی مقبول ہو جائیں تو بڑی بات ہے بے شک چاروں رکعتیں مقبول نہ ہوں۔ ان کی یہ بات خشیت الہی اور جذبہ اتباع سنت کی مظہر ہے جن سے صحابہ کرام متصف تھے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1960