عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شجرہ (جو ذی الحلیفہ میں تھا) کے راستے سے (مدینہ سے) نکلتے تھے اور معرس (مدینہ سے چھ میل پر ایک موضع ہے) کے راستہ سے (مدینہ میں) داخل ہوتے تھے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث کی باب سے مناسبت یہ ہے کہ جب مکہ میں داخل ہونے اوراس سے نکلنے کی بات آئی تو مدینہ سے نکلنے اور داخل ہونے کی بابت بھی ایک حدیث باب میں ذکر کر دیا، اور اس سے یہ بھی مستنبط کرنا ہے کہ مدینہ ہی نہیں کسی بھی بستی میں داخل ہونے یا اس سے نکلنے کے راستے میں فرق کرنا چاہئے، جیسا کہ اس حدیث پر امام نووی نے صحیح مسلم میں باب باندھا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 7870)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الحج 37 (1257)، مسند احمد (2/29-30) (صحیح)»
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1867
1867. اردو حاشیہ: اس حدیث کی باب سے مطابقت یوں ہے۔کہ امام مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس حدیث اوراوپر والی حدیث کو عبدا للہ بن نمیر سے اسی سند سے بیان کرتے ہوئے ایک ہی روایت بنایا ہے۔جبکہ امام ابو دائود رحمۃ اللہ علیہ یا انکے شیخ عثمان نے اس کو قطع کرکے دوروایتیں بنا دیا ہے۔(بذل المجہود]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1867
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2868
´مکہ میں کدھر سے داخل ہوا جائے۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں ثنیہ علیا سے داخل ہوئے جو کہ بطحاء میں ہے، اور ثنیہ سفلی سے واپس نکلے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2868]
اردو حاشہ: (1) کسی خاص مقام سے داخل ہونا یا نکلنا ضروری نہیں لیکن جہاں سے رسول اللہﷺ داخل ہوئے یا نکلے، وہاں سے دخول وخروج صاحب فضیلت عمل ہے۔ اونچی گھاٹی مکہ مکرمہ کے قبرستان کے قریب تقریباً شمالی جانب ہے۔ اسے کداء بھی کہتے ہیں۔ چونکہ مدینہ منورہ اسی جانب ہے، لہٰذا اسی مقام سے داخل ہونا مناسب تھا۔ اور اس کے مقابل نیچی گھاٹی ہے، اسے کدیٰ بھی کہتے ہیں۔ آج کل اونچی گھاٹی والے علاقے کو معلاۃ کہتے ہیں۔ معلاۃ اونچا علاقہ ہے، نیچی گھاٹی معلاۃ اور مسفلہ کے بیچ میں ہے۔ حاجی یا معتمر کسی طرف سے بھی داخل یا چارک ہو سکتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2868
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2940
´مکہ میں داخل ہونے کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں «ثنية العليا»”بلند گھاٹی“ سے داخل ہوتے، اور جب نکلتے تو «ثنية السفلى»”نشیبی گھاٹی“ سے نکلتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2940]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ثنيه پہاڑوں کے درمیان گھاٹی یا راستے کو کہتے ہیں۔
(2) ثنيه عليا (اوپر والی گھاٹی) سے مراد وہ بلند گھاٹی ہے جو مکہ کی شمالی سمت جنت المعلی کی طرف ہے۔ اس کا نام كداء اورحجون ہے۔
(3) ثنيه سفلى (نیچےوالی گھاٹی) سے مراد وہ پہاڑی راستہ ہے جو جبل قعیقعان کی طرف ہے۔ اسے كدی بھی کہتے ہیں۔ (فتح الباري، الحج، باب: 41) یہ باب بنی شیبہ کی طرف ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2940
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3040
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مدینہ سے) درخت والے راستہ سے نکلتے اور مَعَرس کے راستہ سے واپس آتے، اور جب مکہ میں داخل ہوتے تو بلند گھاٹی کے راستہ سے داخل ہوتے اور نشیبی گھاٹی سے نکلتے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3040]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادت کے لیے اپنے شہر یا گاؤں سے نکلنے اور واپس آنے کا راستہ بدلنا بہتر ہے اس طرح عبادت گاہ کا راستہ، آمدورفت کے لیے الگ الگ ہونا پسندیدہ ہے حج اورعیدین کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر عمل فرماتے تھے لیکن اگرایسا کرنا ممکن نہ ہو تو پھر کوئی گناہ نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3040
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1533
1533. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ سے شجرہ کے راستے روانہ ہوتے اور معرس کے راستے سے مدینہ میں داخل ہوتے۔ اور رسول اللہ ﷺ جب مدینہ منورہ سے مکہ کے لیے روانہ ہوتے تو مسجد شجرہ میں نماز پڑھا کرتے اور جب لوٹتے تو ذوالحلیفہ کے نشیبی میدان میں نماز ادا کرتے، اور رات کو صبح تک وہیں قیام فرماتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1533]
حدیث حاشیہ: شجرہ ایک درخت تھا ذوالحلیفہ کے قریب۔ آنحضرت ﷺ اسی راستے سے آتے اور جاتے۔ اب وہاں ایک مسجد بن گئی ہے۔ آج کل اس جگہ کا نام بئرعلی ہے، یہ علی حضرت علی ؓ بن ابی طالب نہیں ہیں بلکہ کوئی اور علی ہیں جن کی طرف یہ جگہ اور یہاں کا کنواں منسوب ہے۔ معرس عربی میں اس مقام کو کہتے ہیں جہاں مسافر رات کو کو اتریں اور وہاں ڈیرہ لگائیں۔ یہ مذکورہ معرس ذوالحلیفہ کی مسجد تلے واقع ہے اور یہاں سے مدینہ بہت ہی قریب ہے۔ اللہ ہر مسلمان کو بار بار ان مقامات مقدسہ کی زیارت نصیب کرے۔ آمین۔ آپ دن کی روشنی میں مدینہ میں داخل ہوا کرتے تھے۔ پس سنت یہی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1533
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1576
1576. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بلند گھاٹی کے مقام کداء سے جو بطحاء میں ہے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور نچلی گھاٹی کی طرف سے نکلے تھے۔ ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ) کہتے ہیں: میرے استاد حضرت مسدد اپنے نام کی طرح ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ میں نے یحییٰ بن معین بن سعید کے حوالے سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ اگر میں مسدد کے پاس ان کے گھر جاؤں اور وہاں ان سے حدیث بیان کروں تو وہ اس کے حقدار ہیں اور مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ میری کتابیں میرے پاس رہیں یا مسدد کے پاس ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1576]
حدیث حاشیہ: ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ مکہ شریف میں ایک راہ سے آنا اور دوسری راہ سے جانا مستحب ہے۔ نسخہ مطبوعہ مصر میں یہاں اتنی عبارت زیادہ ہے۔ قال أبو عبداللہ کا ن یقال هو مسددا کاسمه قال أبو عبداللہ سمعت یحییٰ بن معین یقول سمعت یحییٰ بن سعید القطان یقول لو أن مسدد أتیته في بیته فحدثته لإسحٰق ذالك وما أبالي کتبي کانت عندي أو عند مسدد۔ یعنی امام بخاری رضی اللہ عنہ نے کہا مسدد اسم بامسمی تھے یعنی مسدد کے معنی عربی زبان میں مضبوط اور درست کے ہیں تووہ حدیث کی روایت میں مضبوط تھے اور میں نے یحییٰ بن معین سے سنا، وہ کہتے ہیں میں نے یحییٰ قطان سے سنا، وہ کہتے تھے اگر میں مسدد کے گھر جاکر ان کو حدیث سنایا کرتا تو وہ اس کے لائق تھے اور میری کتابیں حدیث کی میرے پاس رہیں یا مسدد کے پاس مجھے کچھ پرواہ نہیں۔ گو یا یحیٰ قطان نے مسدد کی بے حد تعریف کی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1576
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1533
1533. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ سے شجرہ کے راستے روانہ ہوتے اور معرس کے راستے سے مدینہ میں داخل ہوتے۔ اور رسول اللہ ﷺ جب مدینہ منورہ سے مکہ کے لیے روانہ ہوتے تو مسجد شجرہ میں نماز پڑھا کرتے اور جب لوٹتے تو ذوالحلیفہ کے نشیبی میدان میں نماز ادا کرتے، اور رات کو صبح تک وہیں قیام فرماتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1533]
حدیث حاشیہ: (1) شجرہ اور معرس دو مقام ہیں جو مدینہ منورہ سے چھ میل کے فاصلے پر ہیں، البتہ معرس کچھ قریب ہے۔ اسے بطحائے ذی الحلیفہ بھی کہتے ہیں۔ نبی ﷺ مکہ مکرمہ سے جب روانہ ہوتے تو یہاں آرام فرماتے اور نماز پڑھتے۔ یہ نماز پڑھنا اتفاقی نہیں تھا بلکہ آپ دانستہ ایسا کرتے تھے کیونکہ آپ کو خواب میں دکھایا گیا تھا کہ یہ وادی بابرکت ہے اور مکہ سے واپسی کے موقع پر بھی یہاں قیام کرتے تھے تاکہ رات کے وقت اچانک کوئی اپنے گھر نہ جائے، اس کی حدیث میں ممانعت ہے۔ (2) ابن بطال نے کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ایک راستے سے نکلنا اور دوسرے سے داخل ہونا نماز عید کی طرح تھا، یعنی ایک راستے سے عیدگاہ جاتے تو دوسرے راستے سے عید گاہ سے واپس آتے تھے، اسی طرح حج کو روانگی اور فراغت کے بعد واپسی پر بھی ایسا کرتے تھے۔ (فتح الباري: 493/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1533
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1575
1575. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ بلند گھاٹی سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے تھے اور نچلی گھاٹی کی جانب سے نکلتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1575]
حدیث حاشیہ: امام بخاری ؒ نے اس روایت کو تفصیل سے بھی بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ بلند گھاٹی کے مقام کداء سے جو بطحاء میں ہے، مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تھے۔ اس کے متعلق محدثین نے کئی ایک حکمتیں ذکر کی ہیں۔ ہمارے نزدیک بہتر توجیہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ حج کو جاتے ہوئے عید کی طرح ایک راستے سے داخل ہوئے اور فراغت کے بعد دوسرے راستے سے نکلے تاکہ دونوں راستے گواہی دیں۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1575
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1576
1576. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بلند گھاٹی کے مقام کداء سے جو بطحاء میں ہے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور نچلی گھاٹی کی طرف سے نکلے تھے۔ ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ) کہتے ہیں: میرے استاد حضرت مسدد اپنے نام کی طرح ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ میں نے یحییٰ بن معین بن سعید کے حوالے سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ اگر میں مسدد کے پاس ان کے گھر جاؤں اور وہاں ان سے حدیث بیان کروں تو وہ اس کے حقدار ہیں اور مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ میری کتابیں میرے پاس رہیں یا مسدد کے پاس ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1576]
حدیث حاشیہ: (1) بعض لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ مکرمہ سے چھپ کر نکلے تھے تو ثنیہ علیا کا راستہ اختیار کیا تھا، اس لیے اسی طرف سے مکہ مکرمہ میں علانیہ داخل ہونے کا ارادہ فرمایا۔ ہمارے نزدیک عید کی طرح راستہ بدلنے میں نیک فال ہے کہ انسان کا حال اس سے اعلیٰ حال کی طرف بدل جائے اور دونوں راستے گواہی دیں۔ واللہ أعلم۔ (2) اس حدیث کو امام بخاری ؒ نے حضرت مسدد بن مسرہد سے بیان کیا ہے۔ اس کی توثیق بیان کرتے ہوئے امام بخاری ؒ نے فرمایا: میرے شیخ حضرت مسدد اپنے نام کی طرح انتہائی مضبوط اور قابل اعتماد ہیں کیونکہ مسدد کے معنی محکم، یعنی مضبوط کے ہیں، پھر امام یحییٰ بن معین جو جرح و تعدیل کے امام ہیں، ان کے حوالے سے توثیق بیان کی ہے۔ حافظ ابن حجرؒ نے اس عبارت کے متعلق اپنی شرح میں کچھ نہیں لکھا۔ شاید ان کے نسخے میں یہ الفاظ نہیں ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1576