(مرفوع) حدثنا العباس بن الوليد بن مزيد، اخبرني ابي، حدثني الاوزاعي، حدثني من سمع عطاء بن ابي رباح، حدثني جابر بن عبد الله، قال:" اهللنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالحج خالصا لا يخالطه شيء، فقدمنا مكة لاربع ليال خلون من ذي الحجة فطفنا وسعينا، ثم امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان نحل، وقال: لولا هديي لحللت"، ثم قام سراقة بن مالك، فقال: يا رسول الله، ارايت متعتنا هذه العامنا هذا ام للابد؟، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بل هي للابد"، قال الاوزاعي: سمعت عطاء بن ابي رباح يحدث بهذا فلم احفظه حتى لقيت ابن جريج فاثبته لي. (مرفوع) حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ مَزْيَدٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي، حَدَّثَنِي الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" أَهْلَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ خَالِصًا لَا يُخَالِطُهُ شَيْءٌ، فَقَدِمْنَا مَكَّةَ لِأَرْبَعِ لَيَالٍ خَلَوْنَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ فَطُفْنَا وَسَعَيْنَا، ثُمَّ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُحِلَّ، وَقَالَ: لَوْلَا هَدْيِي لَحَلَلْتُ"، ثُمَّ قَامَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ مُتْعَتَنَا هَذِهِ أَلِعَامِنَا هَذَا أَمْ لِلْأَبَدِ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَلْ هِيَ لِلْأَبَدِ"، قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ يُحَدِّثُ بِهَذَا فَلَمْ أَحْفَظْهُ حَتَّى لَقِيتُ ابْنَ جُرَيْجٍ فَأَثْبَتَهُ لِي.
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف حج کا احرام باندھا اس میں کسی اور چیز کو شامل نہیں کیا، پھر ہم ذی الحجہ کی چار راتیں گزرنے کے بعد مکہ آئے تو ہم نے طواف کیا، سعی کی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں احرام کھولنے کا حکم دے دیا اور فرمایا: ”اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتا تو میں بھی احرام کھول دیتا“، پھر سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور بولے: اللہ کے رسول! یہ ہمارا متعہ (حج کا متعہ) اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(نہیں) بلکہ یہ ہمیشہ کے لیے ہے“۱؎۔ اوزاعی کہتے ہیں: میں نے عطا بن ابی رباح کو اسے بیان کرتے سنا تو میں اسے یاد نہیں کر سکا یہاں تک کہ میں ابن جریج سے ملا تو انہوں نے مجھے اسے یاد کرا دیا۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے امام احمد کے اس قول کی تائید ہوتی ہے کہ جو حج کا احرام باندھ کر آئے اور ہدی ساتھ نہ لائے وہ طواف اور سعی کرکے احرام کھول سکتا ہے، یعنی حج کو عمرہ میں تبدیل کر سکتا ہے۔
Jabir bin Abdullah said “We raised our voices in talbiyah along with the Messenger of Allah ﷺ exclusively for Hajj, not combining anything with it. When we came to Makkah four days of Dhu al Hijjah had already passed. We the circumambulated (the Kaabah) and ran between Al Safa’ and Al Marwah. The Messenger of Allah ﷺ then commanded us to put off ihram. He said if I had not brought the sacrificial animals, I would have taken off Ihram. Suraqah bin Malik then stood up and said Messenger of Allah, what do you think, have you provided this facility to us for this year alone or forever? The Messenger of Allah said No, this forever and forever. Al Awza’l said I heard Ata bin Abi Rabah narrating this tradition, but I did not memorize it till I met Ibn Juraij who confirmed it for me.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1783
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (7367) صحيح مسلم (1216)
الله كان يحل لرسوله ما شاء بما شاء إن القرآن قد نزل منازله أتموا الحج والعمرة لله كما أمركم الله أبتوا نكاح هذه النساء فلن أوتى برجل نكح امرأة إلى أجل إلا رجمته بالحجارة
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2807
´جو شخص ہدی ساتھ نہ لے جائے وہ حج عمرہ میں تبدیل کر کے احرام کھول سکتا ہے۔` جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے خالص حج کا احرام باندھا، اس کے ساتھ اور کسی چیز کی نیت نہ تھی۔ تو ہم ۴ ذی الحجہ کی صبح کو مکہ پہنچے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ”احرام کھول ڈالو اور اسے (حج کے بجائے) عمرہ بنا لو“، تو آپ کو ہمارے متعلق یہ اطلاع پہنچی کہ ہم کہہ رہے ہیں کہ ہمارے اور عرفہ کے درمیان صرف پانچ دن باقی رہ گئے ہیں اور آپ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2807]
اردو حاشہ: (1)”کسی اور چیز کی نیت نہیں تھی۔“ شروع میں ایسا ہی تھا۔ بعض روایات میں ہے کہ بعض نے عمرے کا احرام باندھا تھا، پھر مکہ مکرمہ کے قریب جا کر عمرے کے لزوم کا حکم اترا تو وہاں سب نے حج کے ساتھ عمرہ بھی داخل کر لیا، پھر قربانیوں والے محرم رہے، دوسرے عمرہ کر کے حلال ہوگئے۔ حج کا احرام الگ باندھا۔ یہ توجیہ بہتر ہے کیونکہ اس طرح تمام احادیث اپنے معنی پر رہتی ہیں۔ (2)”منی بہا رہے ہوں گے۔“ یہ بطور مبالغہ کہا کہ حج سے اس قدر قریب جماع کرنا مناسب نہیں۔ یہ تقبیح کے لیے الفاظ ذکر کر دیے ورنہ انھیں کوئی بیماری تو نہیں تھی کہ ایسے ہوتا۔ اور حج کو تو احرام باندھ کر جانا تھا۔ (3)”تم سے بڑھ کر نیک“ یعنی جس کام کا میں حکم دوں، جو کام میں کروں، اس سے پرہیز کرنا حماقت ہے۔ اگر وہ کام قبیح ہوتا تو میں حکم ہی نہ دیتا۔ (4)”جس کا بعد میں پتا چلا“ کہ عمرہ کرنا لازم ہو جائے گا۔ (5)”ہمیشہ کے لیے“ یعنی تمتع قیامت تک کے لیے جائز ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2807
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2980
´حج کا احرام فسخ کر کے اس کو عمرہ میں تبدیل کرنے کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف حج کا تلبیہ کہا (یعنی احرام باندھا)، اس میں عمرہ کو شریک نہیں کیا ۱؎، پھر ہم مکہ پہنچے تو ذی الحجہ کی چار راتیں گزر چکی تھیں، جب ہم نے خانہ کعبہ کا طواف کیا، اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو حکم دیا کہ ہم اسے عمرہ میں تبدیل کر دیں، اور اپنی بیویوں کے لیے حلال ہو جائیں، ہم نے عرض کیا: اب عرفہ میں صرف پانچ دن رہ گئے ہیں، اور کیا ہم عرفات کو اس حال میں نکلیں کہ شرمگاہوں سے منی ٹپک رہی ہو؟ یہ سن کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2980]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اگر احرام باندھتے وقت صرف حج کی نیت کی گئی ہو تو بعد میں نیت تبدیل کرکے عمرے کی نیت کی جاسکتی ہے۔
(2) جس کام کی شریعت نے اجازت دی ہے اسے نامناسب سمجھنا کوئی نیکی نہیں۔
(3) جس کے ساتھ قربانی کا جانور ہو وہ حج تمتع نہیں کرسکتا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2980
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3024
حضرت جابر اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، ہم مکہ پہنچے اور ہم حج کے لیے بلند آواز سے تلبیہ کہہ رہے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3024]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: نَصْرَخُ صَرَاخاً: آواز بلند کر رہے تھے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3024
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3025
ابو نضرہ بیان کرتے ہیں، میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تھا، ان کے پاس ایک آدمی آ کر کہنے لگا، حضرت ابن عباس اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالٰ عنہ، متعۃ الحج اور متعۃ النساء کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں، تو حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، ہم نے یہ دونوں متعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیے ہیں، پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں ان دونوں سے روک دیا تھا، پھر ہم ان کی طرف نہیں لوٹے، یعنی انہیں نہیں کیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3025]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: متعۃ الحج سے مراد حج تمتع اور حج قران ہے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حج افراد کی ترغیب دیتے تھے اور متعۃ النساء کی بحث نکاح کے باب میں آئے گی۔