(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد النفيلي، حدثنا مسكين، حدثنا محمد بن المهاجر، عن ربيعة بن يزيد، عن ابي كبشة السلولي، حدثنا سهل ابن الحنظلية، قال: قدم على رسول الله صلى الله عليه وسلم عيينة بن حصن و الاقرع بن حابس فسالاه، فامر لهما بما سالا، وامر معاوية فكتب لهما بما سالا، فاما الاقرع فاخذ كتابه فلفه في عمامته وانطلق، واما عيينة فاخذ كتابه واتى النبي صلى الله عليه وسلم مكانه، فقال: يا محمد، اتراني حاملا إلى قومي كتابا لا ادري ما فيه كصحيفة المتلمس؟ فاخبر معاوية بقوله رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من سال وعنده ما يغنيه فإنما يستكثر من النار"، وقال النفيلي في موضع آخر: من جمر جهنم، فقالوا: يا رسول الله، وما يغنيه؟ وقال النفيلي في موضع آخر: وما الغنى الذي لا تنبغي معه المسالة، قال:" قدر ما يغديه ويعشيه"، وقال النفيلي في موضع آخر:" ان يكون له شبع يوم وليلة او ليلة ويوم"، وكان حدثنا به مختصرا على هذه الالفاظ التي ذكرت. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مِسْكِينٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُهَاجِرِ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي كَبْشَةَ السَّلُولِيِّ، حَدَّثَنَا سَهْلُ ابْنُ الْحَنْظَلِيَّةِ، قَالَ: قَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُيَيْنَةُ بْنُ حِصْنٍ وَ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ فَسَأَلَاهُ، فَأَمَرَ لَهُمَا بِمَا سَأَلَا، وَأَمَرَ مُعَاوِيَةَ فَكَتَبَ لَهُمَا بِمَا سَأَلَا، فَأَمَّا الْأَقْرَعُ فَأَخَذَ كِتَابَهُ فَلَفَّهُ فِي عِمَامَتِهِ وَانْطَلَقَ، وَأَمَّا عُيَيْنَةُ فَأَخَذَ كِتَابَهُ وَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَانَهُ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، أَتُرَانِي حَامِلًا إِلَى قَوْمِي كِتَابًا لَا أَدْرِي مَا فِيهِ كَصَحِيفَةِ الْمُتَلَمِّسِ؟ فَأَخْبَرَ مُعَاوِيَةُ بِقَوْلِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ سَأَلَ وَعِنْدَهُ مَا يُغْنِيهِ فَإِنَّمَا يَسْتَكْثِرُ مِنَ النَّارِ"، وَقَالَ النُّفَيْلِيُّ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ: مِنْ جَمْرِ جَهَنَّمَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا يُغْنِيهِ؟ وَقَالَ النُّفَيْلِيُّ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ: وَمَا الْغِنَى الَّذِي لَا تَنْبَغِي مَعَهُ الْمَسْأَلَةُ، قَالَ:" قَدْرُ مَا يُغَدِّيهِ وَيُعَشِّيهِ"، وَقَالَ النُّفَيْلِيُّ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ:" أَنْ يَكُونَ لَهُ شِبْعُ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ أَوْ لَيْلَةٍ وَيَوْمٍ"، وَكَانَ حَدَّثَنَا بِهِ مُخْتَصَرًا عَلَى هَذِهِ الْأَلْفَاظِ الَّتِي ذَكَرْتُ.
ابوکبشہ سلولی کہتے ہیں ہم سے سہل بن حنظلیہ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عیینہ بن حصن اور اقرع بن حابس آئے، انہوں نے آپ سے مانگا، آپ نے انہیں ان کی مانگی ہوئی چیز دینے کا حکم دیا اور معاویہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ ان دونوں کے لیے خط لکھ دیں جو انہوں نے مانگا ہے، اقرع نے یہ خط لے کر اسے اپنے عمامے میں لپیٹ لیا اور چلے گئے لیکن عیینہ خط لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے: محمد! کیا آپ چاہتے ہیں کہ اپنی قوم کے پاس ایسا خط لے کر جاؤں جو متلمس ۱؎ کے صحیفہ کی طرح ہو، جس کا مضمون مجھے معلوم نہ ہو؟ معاویہ نے ان کی یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو سوال کرے اس حال میں کہ اس کے پاس ایسی چیز ہو جو اسے سوال سے بے نیاز کر دیتی ہو تو وہ جہنم کی آگ زیادہ کرنا چاہ رہا ہے“۔ (ایک دوسرے مقام پر نفیلی نے ”جہنم کی آگ“ کے بجائے ”جہنم کا انگارہ“ کہا ہے)۔ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کس قدر مال آدمی کو غنی کر دیتا ہے؟ (نفیلی نے ایک دوسرے مقام پر کہا: غنی کیا ہے، جس کے ہوتے ہوئے سوال نہیں کرنا چاہیئے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اتنی مقدار جسے وہ صبح و شام کھا سکے“۔ ایک دوسری جگہ میں نفیلی نے کہا: اس کے پاس ایک دن اور ایک رات یا ایک رات اور ایک دن کا کھانا ہو، نفیلی نے اسے مختصراً ہم سے انہیں الفاظ کے ساتھ بیان کیا جنہیں میں نے ذکر کیا ہے۔
وضاحت: ۱؎: متلمس ایک شاعر گزرا ہے، اس نے بادشاہ عمرو بن ہند کی ہجو کی تھی، بادشاہ نے کمال ہوشیاری سے اپنے عامل کے نام خط لکھ کر اس کو دیا اور کہا کہ تم اس لفافے کو لے کر فلاں عامل کے پاس جاؤ، وہ تمہیں انعام سے نوازے گا، خط میں ہجو کے جرم میں اسے قتل کر دینے کا حکم تھا، راستہ میں متلمس کو شبہہ ہوا، اس نے لفافہ پھاڑ کر خط پڑھا تو اس میں اس کے قتل کا حکم تھا، چنانچہ اس نے خط پھاڑ کر پھینک دیا اور اپنی جان بچا لی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:4652)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/180، 181) (صحیح)»
Narrated Sahl ibn Hanzaliyyah: Uyaynah ibn Hisn and Aqra ibn Habis came to the Messenger of Allah ﷺ. They begged from him. He commanded to give them what they begged. He ordered Muawiyah to write a document to give what they begged. Aqra took his document, wrapped it in his turban, and went away. As for Uyaynah, he took his document and came to the Prophet ﷺ at his home, and said to him: Muhammad, do you see me? I am taking a document to my people, but I do not know what it contains, just like the document of al-Mutalammis. Muawiyah informed the Messenger of Allah ﷺ of his statement. Thereupon the Messenger of Allah ﷺ said: He who begs (from people) when he has sufficient is simply asking for a large amount of Hell-fire. (An-Nufayl (a transmitter) said elsewhere: "embers of Hell". ) They asked: Messenger of Allah, what is a sufficiency? (Elsewhere an-Nufayl said: What is a sufficiency which makes begging unfitting?) He replied: It is that which would provide a morning and an evening meal. (Elsewhere an-Nufayl said: It is when one has enough for a day and night, or for a night and a day. ) He (an-Nufayl) narrated to us this tradition briefly in the words that I have mentioned.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1625
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (1848) صححه ابن خزيمة (2391 وسنده صحيح، 2545)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1629
1629. اردو حاشیہ: (ملتمس)(پہلی میم مضموم ا ور دوسری مشد مکسور ہے) کا قصہ یہ ہے کہ ایک شاعر تھا۔ اور اس نے عمرو بن ہند بادشاہ کی ہجو کی تھی۔چنانچہ بادشاہ نے اسے ا یک خط لکھ کردیا۔میرے فلاں عامل کے پاس جائو۔وہ تمھیں کچھ تحفے وغیرہ دے گا۔جب کہ اس میں حامل رقعہ کو قتل کردینے کا حکم درج کرایا تھا۔ مگر اسے کچھ شبہ سا ہوگیا تو اُ س نے وہ خط کھول کر پڑھ لیا۔ جب اسے مندرجات کا علم ہوا تو خط پھاڑ دیا۔ اور اپنی جان بچائی اس واقعے کو عرب لوگ (صحیفہۃ المتلمس) سے تعبیر کرتے ہیں۔اور بطور ضرب المثل زکر کرتے ہیں۔ ➋ کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کو (عالم ماکان وما یکون) باور کراتے ہیں۔ جو کسی طرح بھی آپ ﷺ کی مدح نہیں ہے۔ کیونکہ اس واقعے میں بیان ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریمﷺ کے سامنے مذکورہ قصے کی وضاحت کی۔ معلوم ہوا کہ آپ عالم الغیب نہ تھے۔ ➌ نبی کریمﷺ کو خظاب کرتے ہوئے۔ (یا محمد) کہنا انتہائی سوء ادبی ہے۔عیینہ بن حصن رضی اللہ تعالیٰ عنہ چونکہ جدید الاسلام تھے۔ اور آداب نبویﷺ سے مطلع نہ تھے۔ اس لئے بدوی انداز میں خطاب کیا۔ ➍ بلاضرورت واقعی سوال کرنا دین وشرافت کی نظر سے بہت بُرا عیب اور روز محشر میں اپنے لئے انگارے جمع کرنا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1629