(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن زيد بن اسلم، عن عطاء بن يسار، عن رجل من بني اسد، انه قال: نزلت انا واهلي ببقيع الغرقد، فقال لي اهلي: اذهب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فسله لنا شيئا ناكله فجعلوا يذكرون من حاجتهم، فذهبت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فوجدت عنده رجلا يساله ورسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" لا اجد ما اعطيك"، فتولى الرجل عنه وهو مغضب، وهو يقول: لعمري إنك لتعطي من شئت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يغضب علي ان لا اجد ما اعطيه، من سال منكم وله اوقية او عدلها فقد سال إلحافا"، قال الاسدي: فقلت للقحة: لنا خير من اوقية والاوقية اربعون درهما، قال: فرجعت ولم اساله، فقدم على رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد ذلك شعير وزبيب فقسم لنا منه، او كما قال: حتى اغنانا الله عز وجل. قال ابو داود: هكذا رواه الثوري كما قال مالك. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي أَسَدٍ، أَنَّهُ قَالَ: نَزَلْتُ أَنَا وَأَهْلِي بِبَقِيعِ الْغَرْقَدِ، فَقَالَ لِي أَهْلِي: اذْهَبْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلْهُ لَنَا شَيْئًا نَأْكُلُهُ فَجَعَلُوا يَذْكُرُونَ مِنْ حَاجَتِهِمْ، فَذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدْتُ عِنْدَهُ رَجُلًا يَسْأَلُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا أَجِدُ مَا أُعْطِيكَ"، فَتَوَلَّى الرَّجُلُ عَنْهُ وَهُوَ مُغْضَبٌ، وَهُوَ يَقُولُ: لَعَمْرِي إِنَّكَ لَتُعْطِي مَنْ شِئْتَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَغْضَبُ عَلَيَّ أَنْ لَا أَجِدَ مَا أُعْطِيهِ، مَنْ سَأَلَ مِنْكُمْ وَلَهُ أُوقِيَّةٌ أَوْ عِدْلُهَا فَقَدْ سَأَلَ إِلْحَافًا"، قَالَ الْأَسَدِيُّ: فَقُلْتُ لَلِقْحَةٌ: لَنَا خَيْرٌ مِنْ أُوقِيَّةٍ وَالْأُوقِيَّةُ أَرْبَعُونَ دِرْهَمًا، قَالَ: فَرَجَعْتُ وَلَمْ أَسْأَلْهُ، فَقَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ شَعِيرٌ وَزَبِيبٌ فَقَسَمَ لَنَا مِنْهُ، أَوْ كَمَا قَالَ: حَتَّى أَغْنَانَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ. قَالَ أَبُو دَاوُد: هَكَذَا رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ كَمَا قَالَ مَالِكٌ.
بنی اسد کے ایک صاحب کہتے ہیں کہ میں اور میری بیوی بقیع غرقد میں جا کر اترے، میری بیوی نے مجھ سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور ہمارے لیے کچھ مانگ کر لاؤ جو ہم کھائیں، پھر وہ لوگ اپنی محتاجی کا ذکر کرنے لگے، چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو مجھے آپ کے پاس ایک شخص ملا، وہ آپ سے مانگ رہا تھا اور آپ اس سے کہہ رہے تھے: میرے پاس کچھ نہیں ہے جو میں تجھے دوں، آخر وہ ناراض ہو کر یہ کہتے ہوئے چلا گیا کہ میری عمر کی قسم، تم جسے چاہتے ہو دیتے ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ میرے اوپر اس لیے غصہ ہو رہا ہے کیونکہ اسے دینے کے لیے میرے پاس کچھ نہیں ہے، تم میں سے جو سوال کرے اور اس کے پاس ایک اوقیہ (چالیس درہم) یا اس کے برابر مالیت ہو تو وہ الحاح کے ساتھ سوال کرنے کا مرتکب ہوتا ہے ۱؎“، اسدی کہتے ہیں: میں نے (اپنے جی میں) کہا: ہماری اونٹنی تو اوقیہ سے بہتر ہے، اوقیہ تو چالیس ہی درہم کا ہوتا ہے، وہ کہتے ہیں: چنانچہ میں لوٹ آیا اور آپ سے کچھ بھی نہیں مانگا، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو اور منقی آیا، آپ نے اس میں سے ہمیں بھی حصہ دیا، «أو كما قال» یہاں تک کہ اللہ نے ہمیں غنی کر دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ثوری نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے جیسے مالک نے کیا ہے۔
وضاحت: ۱؎: حدیث میں الحاف ہے یعنی الحاح اور شدید اصرار، ایسا سوال کرنا قرآن کے مطابق ناپسندیدہ عمل ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الزکاة 90 (2597)، (تحفة الأشراف:15640)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصدقة 1(3)، مسند احمد (4/36،5/430) (صحیح)»
Ata bin Yasar said: A man from Banu Asad said: I and my family alighted at Baqi al-Gharqad. My wife said to me: Go the Messenger of Allah ﷺ and beg something from him for our eating, and made a mention of there need. So I went to the Messenger of Allah ﷺ. I found with a man who was begging from him and he was saying to him: I have nothing to give you. The man turned away from him in anger while he was saying: By my life, you give anyone you wish. The Messenger of Allah ﷺ said: He’s anger with me, for I have nothing to give him. If any of you begs when he has an Uqiyah or its equivalent, he has begged immoderately. The man of Banu Asad said: So I said: The she camel of ours is better than an uqiyah, while an uqiyah is equivalent to 40 Dirhams. I therefore returned and did not beg from him. Afterwards some barley and raisins where brought to the Messenger of Allah ﷺ. He gave us a share from them (or as he reported)till Allah, the Exalted, made us self-sufficient (i. e well off). Abu Dawud said: Al-Thawri narrated it as Malik narrated.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1623
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (1849) أخرجه النسائي (2597 وسنده صحيح)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1627
1627. اردو حاشیہ: امام ابو عبید قاسم بن سلام اس حدیث کی روشنی میں غنی اور فقیر میں فرق کرتے ہیں۔کے جس کے پاس چالیس درہم یا اس کے مساوی مال موجود ہو وہ فقیر نہیں ہے اور اسے صدقہ دیناجائز نہیں بلاشبہ تقوے کا اعلیٰ معیار یہی ہے۔اگر احوال وظروف کے پیش نظر اس مقدار میں کمی بیشی ہوسکتی ہے۔مثلا ً قرآن کریم نے قصہ موسیٰ ؑ وخضرؑ میں کشتی والوں کو مساکین سے تعبیر فرمایا ہے۔(سورہ کہف) لہذا جس آدمی کی آمدنی اس کے ضروری اخراجات کا ساتھ نہ دے رہی ہو۔ اسے اللہ سے ڈرتے ہوئے خود ہی سوچنا چاہیے۔ کہ واقعی وہ مانگنے کا حق رکھتاہے یا نہیں۔ ➋ یہ واقعہ دلیل ہے کہ بنو اسد کا یہ شخص فطری سلامتی کے ساتھ ساتھ برکات ایمان سے بہرہ ور تھا۔اورصحبت رسول ﷺنے اس کا مزید تزکیہ کردیا تھا۔کہ باوجود سخت حاجت مند ہونے کے نبی کریمﷺ کے چند جملے سن کر محتاط ہوگیا اور سوال نہ کیا۔بلاشبہ انہی فضائل کی بناء پر یہ حضرات صحبت رسول ﷺ کے لائق تھے۔اور ہمارے سلف صالح کہلاتے ہیں۔جن کی قرآن مجید نے جا بجا مدح کی ہے۔ ➌ عمر اور زندگی کی قسم کھانا جائز نہیں مذکورہ بالاشخص جس نے یہ قسم کھائی تھی نیا نیا مسلمان ہوا تھااور تعلیمات اسلام سے اچھی طرح واقف نہ تھا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1627
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2597
´جس شخص کے پاس درہم نہ ہو اس کے برابر سامان ہو۔` قبیلہ بنی اسد کے ایک شخص کہتے ہیں کہ میں اور میری بیوی دونوں بقیع الغرقد میں اترے، میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر ہمارے لیے کھانے کی کوئی چیز مانگ کر لائیے، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا۔ مجھے آپ کے پاس ایک شخص ملا جو آپ سے مانگ رہا تھا، اور آپ اس سے فرما رہے تھے: ”میرے پاس (اس وقت) تمہیں دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔“ وہ شخص آپ کے پاس سے پیٹھ پھیر کر غصے کی حالت میں یہ کہتا ہوا چلا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2597]
اردو حاشہ: (1)”جس کو آپ کی مرضی ہو۔“ یعنی آپ استحقاق کی بنا پر نہیں، اپنی ذاتی پسند کی بنا پر دیتے ہیں۔ ممکن ہے وہ شخص منافق ہو یا شاید جذبات کی رو میں بہہ کر کہہ بیٹھا ہو۔ (2)”بقیع الغرقد“ مدینہ منورہ سے متصل وسیع خالی میدان ہے جہاں قبرستان بھی ہے۔ بیرونی قافلے وہاں اترتے تھے۔ اس حدیث کے راوی اسدی بھی باہر ہی سے آئے تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2597