(مرفوع) قال ابو داود: سمعته من الرياشي، وابي حاتم، وغيرهما، ومن كتاب النضر بن شميل، ومن كتاب ابي عبيد، وربما ذكر احدهم الكلمة، قالوا: يسمى الحوار، ثم الفصيل إذا فصل، ثم تكون بنت مخاض لسنة إلى تمام سنتين، فإذا دخلت في الثالثة فهي ابنة لبون، فإذا تمت له ثلاث سنين فهو حق، وحقة إلى تمام اربع سنين لانها استحقت ان تركب ويحمل عليها الفحل وهي تلقح، ولا يلقح الذكر حتى يثني، ويقال للحقة: طروقة الفحل لان الفحل يطرقها إلى تمام اربع سنين، فإذا طعنت في الخامسة فهي جذعة حتى يتم لها خمس سنين، فإذا دخلت في السادسة والقى ثنيته فهو حينئذ ثني حتى يستكمل ستا، فإذا طعن في السابعة سمي الذكر رباعيا والانثى رباعية إلى تمام السابعة، فإذا دخل في الثامنة والقى السن السديس الذي بعد الرباعية فهو سديس وسدس إلى تمام الثامنة، فإذا دخل في التسع وطلع نابه فهو بازل اي بزل نابه، يعني طلع، حتى يدخل في العاشرة فهو حينئذ مخلف، ثم ليس له اسم، ولكن يقال: بازل عام، وبازل عامين، ومخلف عام، ومخلف عامين، ومخلف ثلاثة اعوام إلى خمس سنين، والخلفة الحامل. قال ابو حاتم: والجذوعة وقت من الزمن ليس بسن، وفصول الاسنان عند طلوع سهيل. قال ابو داود: وانشدنا الرياشي: إذا سهيل اول الليل طلع فابن اللبون الحق والحق جذع لم يبق من اسنانها غير الهبع والهبع الذي يولد في غير حينه (مرفوع) قَالَ أَبُو دَاوُد: سَمِعْتُهُ مِنْ الرِّيَاشِيِّ، وَأَبِي حَاتِمٍ، وَغَيْرِهِمَا، وَمِنْ كِتَابِ النَّضْرِ بْنِ شُمَيْلٍ، وَمِنْ كِتَابِ أَبِي عُبَيْدٍ، وَرُبَّمَا ذَكَرَ أَحَدُهُمُ الْكَلِمَةَ، قَالُوا: يُسَمَّى الْحُوَارُ، ثُمَّ الْفَصِيلُ إِذَا فَصَلَ، ثُمَّ تَكُونُ بِنْتُ مَخَاضٍ لِسَنَةٍ إِلَى تَمَامِ سَنَتَيْنِ، فَإِذَا دَخَلَتْ فِي الثَّالِثَةِ فَهِيَ ابْنَةُ لَبُونٍ، فَإِذَا تَمَّتْ لَهُ ثَلَاثُ سِنِينَ فَهُوَ حِقٌّ، وَحِقَّةٌ إِلَى تَمَامِ أَرْبَعِ سِنِينَ لِأَنَّهَا اسْتَحَقَّتْ أَنْ تُرْكَبَ وَيُحْمَلَ عَلَيْهَا الْفَحْلُ وَهِيَ تَلْقَحُ، وَلَا يُلْقَحُ الذَّكَرُ حَتَّى يُثَنِّيَ، وَيُقَالُ لِلْحِقَّةِ: طَرُوقَةُ الْفَحْلِ لِأَنَّ الْفَحْلَ يَطْرُقُهَا إِلَى تَمَامِ أَرْبَعِ سِنِينَ، فَإِذَا طَعَنَتْ فِي الْخَامِسَةِ فَهِيَ جَذَعَةٌ حَتَّى يَتِمَّ لَهَا خَمْسُ سِنِينَ، فَإِذَا دَخَلَتْ فِي السَّادِسَةِ وَأَلْقَى ثَنِيَّتَهُ فَهُوَ حِينَئِذٍ ثَنِيٌّ حَتَّى يَسْتَكْمِلَ سِتًّا، فَإِذَا طَعَنَ فِي السَّابِعَةِ سُمِّيَ الذَّكَرُ رَبَاعِيًا وَالْأُنْثَى رَبَاعِيَةً إِلَى تَمَامِ السَّابِعَةِ، فَإِذَا دَخَلَ فِي الثَّامِنَةِ وَأَلْقَى السِّنَّ السَّدِيسَ الَّذِي بَعْدَ الرَّبَاعِيَةِ فَهُوَ سَدِيسٌ وَسَدَسٌ إِلَى تَمَامِ الثَّامِنَةِ، فَإِذَا دَخَلَ فِي التِّسْعِ وَطَلَعَ نَابُهُ فَهُوَ بَازِلٌ أَيْ بَزَلَ نَابُهُ، يَعْنِي طَلَعَ، حَتَّى يَدْخُلَ فِي الْعَاشِرَةِ فَهُوَ حِينَئِذٍ مُخْلِفٌ، ثُمَّ لَيْسَ لَهُ اسْمٌ، وَلَكِنْ يُقَالُ: بَازِلُ عَامٍ، وَبَازِلُ عَامَيْنِ، وَمُخْلِفُ عَامٍ، وَمُخْلِفُ عَامَيْنِ، وَمُخْلِفُ ثَلَاثَةِ أَعْوَامٍ إِلَى خَمْسِ سِنِينَ، وَالْخَلِفَةُ الْحَامِلُ. قَالَ أَبُو حَاتِمٍ: وَالْجَذُوعَةُ وَقْتٌ مِنَ الزَّمَنِ لَيْسَ بِسِنٍّ، وَفُصُولُ الْأَسْنَانِ عِنْدَ طُلُوعِ سُهَيْلٍ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَأَنْشَدَنَا الرِّيَاشِيُّ: إِذَا سُهَيْلٌ أَوَّلَ اللَّيْلِ طَلَعْ فَابْنُ اللَّبُونِ الْحِقُّ وَالْحِقُّ جَذَعْ لَمْ يَبْقَ مِنْ أَسْنَانِهَا غَيْرُ الْهُبَعْ وَالْهُبَعُ الَّذِي يُولَدُ فِي غَيْرِ حِينِهِ
ابوداؤد کہتے ہیں میں نے اونٹوں کی عمروں کی یہ تفصیل ریاشی اور ابوحاتم وغیرہ وغیرہ سے سنا ہے، اور نضر بن مشمیل اور ابوعبید کی کتاب سے حاصل کی ہے، اور بعض باتیں ان میں سے کسی ایک ہی نے ذکر کی ہیں، ان لوگوں کا کہنا ہے: اونٹ کا بچہ (جب پیدا ہو) «حواءر» کہلاتا ہے۔ جب دودھ چھوڑے تو اسے «فصیل» کہتے ہیں۔ جب ایک سال پورا کر کے دوسرے سال میں لگ جائے تو دوسرے سال کے پورا ہونے تک اسے «بنت مخاض» کہتے ہیں۔ جب تیسرے میں داخل ہو جائے تو اسے «بنت لبون» کہتے ہیں۔ جب تین سال پورے کرے تو چار برس پورے ہونے تک اسے «حِق» یا «حقہ» کہتے ہیں کیونکہ وہ سواری اور جفتی کے لائق ہو جاتی ہے، اور اونٹنی (مادہ) اس عمر میں حاملہ ہو جاتی ہے، لیکن نر جوان نہیں ہوتا، جب تک دگنی عمر (چھ برس) کا نہ ہو جائے، «حقہ» کو «طروقۃ الفحل» بھی کہتے ہیں، اس لیے کہ نر اس پر سوار ہوتا ہے۔ جب پانچواں برس لگے تو پانچ برس پورے ہونے تک «جذعہ» کہلاتا ہے۔ جب چھٹا برس لگے اور وہ سامنے کے دانت گراوے تو چھ برس پورے ہونے تک وہ «ثنی» ہے۔ جب ساتواں برس لگے تو سات برس پورے ہونے تک نر کو «رباعی» اور مادہ کو «رباعیہ» کہتے ہیں۔ جب آٹھواں برس لگے اور چھٹا دانت گرا دے تو آٹھ برس پورے ہونے تک اسے «سدیس» یا «سدس» کہتے ہیں۔ جب وہ نویں برس میں لگ جائے تو اسے دسواں برس شروع ہونے تک «بازل» کہتے ہیں، اس لیے کہ اس کی کچلیاں نکل آتی ہیں، کہا جاتا ہے «بزل نابه» یعنی اس کے دانت نکل آئے۔ اور دسواں برس لگ جائے تو وہ «مخلف» ہے، اس کے بعد اس کا کوئی نام نہیں، البتہ یوں کہتے ہیں: ایک سال کا «بازل»، دو سال کا «بازل»، ایک سال کا «مخلف»، دو سال کا «مخلف» اور تین سال کا «مخلف»، یہ سلسلہ پانچ سال تک چلتا ہے۔ «خلفہ» حاملہ اونٹنی کو کہتے ہیں۔ ابوحاتم نے کہا: «جذوعہ» ایک مدت کا نام ہے کسی خاص دانت کا نام نہیں، دانتوں کی فصل سہیل تارے کے نکلنے پر بدلتی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ہم کو ریاشی نے شعر سنائے (جن کے معنی ہیں): جب رات کے اخیر میں سہیل (ستارہ) نکلا تو «ابن لبون» «حِق» ہو گیا اور «حِق» «جذع» ہو گیا کوئی دانت نہ رہا سوائے «ہبع» کے۔ «ہبع»: وہ بچہ ہے جو سہیل کے طلوع کے وقت میں پیدا نہ ہو، بلکہ کسی اور وقت میں پیدا ہو، اس کی عمر کا حساب سہیل سے نہیں ہوتا۔
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ «جلب» صحیح ہے نہ «جنب» لوگوں سے زکاۃ ان کے ٹھکانوں میں ہی لی جائے گی ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: «جلب» زکاۃ دینے والا اپنے جانور کھینچ کر عامل کے پاس لے آئے، اور «جنب» زکاۃ دینے والا اپنے جانور دور لے کر چلا جائے تاکہ عامل کو زکاۃ لینے کے لئے وہاں جانا پڑے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:8785، 19284)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/180، 216) (حسن صحیح)»
Amr bin Shuaib, on his father's authority, said that his grandfather reported the Prophet ﷺ as saying: There is to be no collecting of sadaqah (zakat) from a distance, nor must people who own property remove it far away, and their sadaqahs are to be received in their dwelling.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1587
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (1786) محمد بن إسحاق صرح بالسماع عند أحمد (2/180، 216) وتابعه عبد الرحمن بن حارث عند أحمد (2/215)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1591
1591. اردو حاشیہ: ➊ [جلب] بمعنی لانا اور کھینچنا۔ یعنی عامل کو یہ قطعاً روا نہیں کہ اپنا مرکز کسی ایسی جگہ بنالے جہاں مالکوں کو اپنے جانور کھینچ کر لانا پڑیں۔ اور وہ مشقت اُٹھاتے پھریں۔ اور اسی طرح مالکوں کو بھی جائز نہیں کہ تحصیل دار زکواۃ کی آمد کا سن کر اپنے جانور اپنے پڑائو سے دور لے جایئں۔ اور پھر وہ انہیں ڈھونڈھتا پھرے۔ ان کے اس عمل کو (جنب) کہتے ہیں۔ اس کا لغوی معنی ہے۔ پہلو تہی کرنا۔ دور ہونا۔ ➋ اسلام کی ایسی تعلیمات ہی اس کے دین فطرت ہونے کی دلیل ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1591
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 486
´زکاۃ کی وصولی` ”سیدنا عمرو بن شعیب رحمہ اللہ اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ”مسلمانوں سے زکوٰۃ ان کے پانی پلانے کی جگہوں پر وصول کی جائے گی۔“[بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 486]
لغوی تشریح: «عَلٰي مِبَاهِهِمَ» «مياه»، ماء کی جمع ہے۔ اس سے مراد وہ چشمے تالاب اور گھاٹ ہیں جہاں لوگوں کے جانور ہوتے ہیں۔ «اِلَّا فِي دُورِهِمْ» یہ «دار» کی جمع ہے۔ اس سے لوگوں کی اپنی رہائش گاہیں، مکانات، پانی کے گھاٹ، ان کے قبائل اور مویشیوں کی قیام گاہیں مراد ہیں۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ سرکاری زکاۃ وصول کنندہ خود لوگوں کے پاس پہنچ کر زکاۃ کی وصولی کرے، ایسا نہیں کہ خود لوگوں کے گھروں سے دور داراز جگہ میں ڈیرہ جما کر بیٹھ جائے اور لوگوں کو اپنے ہاں آکر زکاۃ جمع کرانے کا حکم دے۔ اس طرح لوگوں کا مشقت میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے۔
فائدہ: اس حدیث میں عامل زکاۃ کو زکاۃ وصول کرنے کے لیے لوگوں کے پاس ان کے گھروں اور مویشیوں کی قیام گاہوں میں جانے کا حکم ہے تاکہ کسی قسم کے دھوکے میں مبتلا نہ کیا جا سکے اور وہ اپنی حاکمیت کی دھونس بھی نہ جما سکے بلکہ ایک خادم دین کی حیثیت سے گھر گھر جا کر زکاۃ وصول کرے۔ حضرت جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب تمہارے پاس کچھ لوگ آئیں گے، جب وہ تمہارے پاس آئیں تو انہیں خوش آمدید کہنا اور ان کے اور جو وہ لینا چاہیں، ان کے درمیان آڑے نہ آنا۔ اگر انہوں نے عدل و انصاف کیا تو اس کا اجر ملے گا اور اگر ظلم کیا تو اس کا وبال اٹھائیں گے۔ تم انہیں راضی رکھنا، بلاشبہ تمہاری زکاۃ کی تکمیل انہیں راضی رکھنے میں ہے اور انہیں چاہیے کہ تمہارے لیے دعائے خیر کریں۔“[سنن ابي داود، الزكاة، باب رضاء المصدق، حديث: 1588]
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 486