Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كِتَاب الزَّكَاةِ
کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل
9. باب أَيْنَ تُصَدَّقُ الأَمْوَالُ
باب: مال کی زکاۃ کہاں وصول کی جائے؟
حدیث نمبر: 1591
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا جَلَبَ، وَلَا جَنَبَ، وَلَا تُؤْخَذُ صَدَقَاتُهُمْ إِلَّا فِي دُورِهِمْ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ «جلب» صحیح ہے نہ «جنب» لوگوں سے زکاۃ ان کے ٹھکانوں میں ہی لی جائے گی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:8785، 19284)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/180، 216) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: «جلب» زکاۃ دینے والا اپنے جانور کھینچ کر عامل کے پاس لے آئے، اور «جنب» زکاۃ دینے والا اپنے جانور دور لے کر چلا جائے تاکہ عامل کو زکاۃ لینے کے لئے وہاں جانا پڑے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (1786)
محمد بن إسحاق صرح بالسماع عند أحمد (2/180، 216) وتابعه عبد الرحمن بن حارث عند أحمد (2/215)

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1591 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1591  
1591. اردو حاشیہ:
[جلب]
بمعنی لانا اور کھینچنا۔ یعنی عامل کو یہ قطعاً روا نہیں کہ اپنا مرکز کسی ایسی جگہ بنالے جہاں مالکوں کو اپنے جانور کھینچ کر لانا پڑیں۔ اور وہ مشقت اُٹھاتے پھریں۔ اور اسی طرح مالکوں کو بھی جائز نہیں کہ تحصیل دار زکواۃ کی آمد کا سن کر اپنے جانور اپنے پڑائو سے دور لے جایئں۔ اور پھر وہ انہیں ڈھونڈھتا پھرے۔ ان کے اس عمل کو (جنب) کہتے ہیں۔ اس کا لغوی معنی ہے۔ پہلو تہی کرنا۔ دور ہونا۔
➋ اسلام کی ایسی تعلیمات ہی اس کے دین فطرت ہونے کی دلیل ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1591   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 486  
´زکاۃ کی وصولی`
سیدنا عمرو بن شعیب رحمہ اللہ اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے مسلمانوں سے زکوٰۃ ان کے پانی پلانے کی جگہوں پر وصول کی جائے گی۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 486]
لغوی تشریح:
«عَلٰي مِبَاهِهِمَ» «مياه»، ماء کی جمع ہے۔ اس سے مراد وہ چشمے تالاب اور گھاٹ ہیں جہاں لوگوں کے جانور ہوتے ہیں۔
«اِلَّا فِي دُورِهِمْ» یہ «دار» کی جمع ہے۔ اس سے لوگوں کی اپنی رہائش گاہیں، مکانات، پانی کے گھاٹ، ان کے قبائل اور مویشیوں کی قیام گاہیں مراد ہیں۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ سرکاری زکاۃ وصول کنندہ خود لوگوں کے پاس پہنچ کر زکاۃ کی وصولی کرے، ایسا نہیں کہ خود لوگوں کے گھروں سے دور داراز جگہ میں ڈیرہ جما کر بیٹھ جائے اور لوگوں کو اپنے ہاں آکر زکاۃ جمع کرانے کا حکم دے۔ اس طرح لوگوں کا مشقت میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے۔

فائدہ:
اس حدیث میں عامل زکاۃ کو زکاۃ وصول کرنے کے لیے لوگوں کے پاس ان کے گھروں اور مویشیوں کی قیام گاہوں میں جانے کا حکم ہے تاکہ کسی قسم کے دھوکے میں مبتلا نہ کیا جا سکے اور وہ اپنی حاکمیت کی دھونس بھی نہ جما سکے بلکہ ایک خادم دین کی حیثیت سے گھر گھر جا کر زکاۃ وصول کرے۔ حضرت جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب تمہارے پاس کچھ لوگ آئیں گے، جب وہ تمہارے پاس آئیں تو انہیں خوش آمدید کہنا اور ان کے اور جو وہ لینا چاہیں، ان کے درمیان آڑے نہ آنا۔ اگر انہوں نے عدل و انصاف کیا تو اس کا اجر ملے گا اور اگر ظلم کیا تو اس کا وبال اٹھائیں گے۔ تم انہیں راضی رکھنا، بلاشبہ تمہاری زکاۃ کی تکمیل انہیں راضی رکھنے میں ہے اور انہیں چاہیے کہ تمہارے لیے دعائے خیر کریں۔ [سنن ابي داود، الزكاة، باب رضاء المصدق، حديث: 1588]
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 486