(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، قال: اخذت من ثمامة بن عبد الله بن انس كتابا زعم ان ابا بكر كتبه لانس وعليه خاتم رسول الله صلى الله عليه وسلم حين بعثه مصدقا وكتبه له،" فإذا فيه هذه فريضة الصدقة التي فرضها رسول الله صلى الله عليه وسلم على المسلمين التي امر الله عز وجل بها نبيه صلى الله عليه وسلم، فمن سئلها من المسلمين على وجهها فليعطها، ومن سئل فوقها فلا يعطه فيما دون خمس وعشرين من الإبل الغنم في كل خمس ذود شاة، فإذا بلغت خمسا وعشرين ففيها بنت مخاض إلى ان تبلغ خمسا وثلاثين، فإن لم يكن فيها بنت مخاض فابن لبون ذكر، فإذا بلغت ستا وثلاثين ففيها بنت لبون إلى خمس واربعين، فإذا بلغت ستا واربعين ففيها حقة طروقة الفحل إلى ستين، فإذا بلغت إحدى وستين ففيها جذعة إلى خمس وسبعين، فإذا بلغت ستا وسبعين ففيها ابنتا لبون إلى تسعين، فإذا بلغت إحدى وتسعين ففيها حقتان طروقتا الفحل إلى عشرين ومائة، فإذا زادت على عشرين ومائة ففي كل اربعين بنت لبون وفي كل خمسين حقة، فإذا تباين اسنان الإبل في فرائض الصدقات فمن بلغت عنده صدقة الجذعة وليست عنده جذعة وعنده حقة فإنها تقبل منه، وان يجعل معها شاتين إن استيسرتا له او عشرين درهما، ومن بلغت عنده صدقة الحقة وليست عنده حقة وعنده جذعة فإنها تقبل منه ويعطيه المصدق عشرين درهما او شاتين، ومن بلغت عنده صدقة الحقة وليس عنده حقة وعنده ابنة لبون فإنها تقبل. قال ابو داود: من هاهنا لم اضبطه عن موسى كما احب، ويجعل معها شاتين إن استيسرتا له او عشرين درهما، ومن بلغت عنده صدقة بنت لبون وليس عنده إلا حقة فإنها تقبل منه، قال ابو داود: إلى هاهنا، ثم اتقنته، ويعطيه المصدق عشرين درهما او شاتين، ومن بلغت عنده صدقة ابنة لبون وليس عنده إلا بنت مخاض فإنها تقبل منه وشاتين او عشرين درهما، ومن بلغت عنده صدقة ابنة مخاض وليس عنده إلا ابن لبون ذكر فإنه يقبل منه وليس معه شيء، ومن لم يكن عنده إلا اربع فليس فيها شيء إلا ان يشاء ربها، وفي سائمة الغنم إذا كانت اربعين ففيها شاة إلى عشرين ومائة، فإذا زادت على عشرين ومائة ففيها شاتان إلى ان تبلغ مائتين، فإذا زادت على مائتين ففيها ثلاث شياه إلى ان تبلغ ثلاث مائة، فإذا زادت على ثلاث مائة ففي كل مائة شاة شاة ولا يؤخذ في الصدقة هرمة ولا ذات عوار من الغنم ولا تيس الغنم إلا ان يشاء المصدق، ولا يجمع بين مفترق ولا يفرق بين مجتمع خشية الصدقة، وما كان من خليطين فإنهما يتراجعان بينهما بالسوية، فإن لم تبلغ سائمة الرجل اربعين فليس فيها شيء إلا ان يشاء ربها، وفي الرقة ربع العشر فإن لم يكن المال إلا تسعين ومائة فليس فيها شيء إلا ان يشاء ربها". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، قَالَ: أَخَذْتُ مِنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ كِتَابًا زَعَمَ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ كَتَبَهُ لِأَنَسٍ وَعَلَيْهِ خَاتِمُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ بَعَثَهُ مُصَدِّقًا وَكَتَبَهُ لَهُ،" فَإِذَا فِيهِ هَذِهِ فَرِيضَةُ الصَّدَقَةِ الَّتِي فَرَضَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَنْ سُئِلَهَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى وَجْهِهَا فَلْيُعْطِهَا، وَمَنْ سُئِلَ فَوْقَهَا فَلَا يُعْطِهِ فِيمَا دُونَ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ مِنَ الْإِبِلِ الْغَنَمُ فِي كُلِّ خَمْسِ ذَوْدٍ شَاةٌ، فَإِذَا بَلَغَتْ خَمْسًا وَعِشْرِينَ فَفِيهَا بِنْتُ مَخَاضٍ إِلَى أَنْ تَبْلُغَ خَمْسًا وَثَلَاثِينَ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهَا بِنْتُ مَخَاضٍ فَابْنُ لَبُونٍ ذَكَرٌ، فَإِذَا بَلَغَتْ سِتًّا وَثَلَاثِينَ فَفِيهَا بِنْتُ لَبُونٍ إِلَى خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ سِتًّا وَأَرْبَعِينَ فَفِيهَا حِقَّةٌ طَرُوقَةُ الْفَحْلِ إِلَى سِتِّينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ إِحْدَى وَسِتِّينَ فَفِيهَا جَذَعَةٌ إِلَى خَمْسٍ وَسَبْعِينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ سِتًّا وَسَبْعِينَ فَفِيهَا ابْنَتَا لَبُونٍ إِلَى تِسْعِينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ إِحْدَى وَتِسْعِينَ فَفِيهَا حِقَّتَانِ طَرُوقَتَا الْفَحْلِ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ عَلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ فَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ بِنْتُ لَبُونٍ وَفِي كُلِّ خَمْسِينَ حِقَّةٌ، فَإِذَا تَبَايَنَ أَسْنَانُ الْإِبِلِ فِي فَرَائِضِ الصَّدَقَاتِ فَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْجَذَعَةِ وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ جَذَعَةٌ وَعِنْدَهُ حِقَّةٌ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ، وَأَنْ يَجْعَلَ مَعَهَا شَاتَيْنِ إِنِ اسْتَيْسَرَتَا لَهُ أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْحِقَّةِ وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ حِقَّةٌ وَعِنْدَهُ جَذَعَةٌ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ وَيُعْطِيهِ الْمُصَدِّقُ عِشْرِينَ دِرْهَمًا أَوْ شَاتَيْنِ، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْحِقَّةِ وَلَيْسَ عِنْدَهُ حِقَّةٌ وَعِنْدَهُ ابْنَةُ لَبُونٍ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ. قَالَ أَبُو دَاوُد: مِنْ هَاهُنَا لَمْ أَضْبِطْهُ عَنْ مُوسَى كَمَا أُحِبُّ، وَيَجْعَلُ مَعَهَا شَاتَيْنِ إِنِ اسْتَيْسَرَتَا لَهُ أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ بِنْتِ لَبُونٍ وَلَيْسَ عِنْدَهُ إِلَّا حِقَّةٌ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ، قَالَ أَبُو دَاوُد: إِلَى هَاهُنَا، ثُمَّ أَتْقَنْتُهُ، وَيُعْطِيهِ الْمُصَدِّقُ عِشْرِينَ دِرْهَمًا أَوْ شَاتَيْنِ، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ ابْنَةِ لَبُونٍ وَلَيْسَ عِنْدَهُ إِلَّا بِنْتُ مَخَاضٍ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ وَشَاتَيْنِ أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ ابْنَةِ مَخَاضٍ وَلَيْسَ عِنْدَهُ إِلَّا ابْنُ لَبُونٍ ذَكَرٌ فَإِنَّهُ يُقْبَلُ مِنْهُ وَلَيْسَ مَعَهُ شَيْءٌ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ إِلَّا أَرْبَعٌ فَلَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا، وَفِي سَائِمَةِ الْغَنَمِ إِذَا كَانَتْ أَرْبَعِينَ فَفِيهَا شَاةٌ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ عَلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ فَفِيهَا شَاتَانِ إِلَى أَنْ تَبْلُغَ مِائَتَيْنِ، فَإِذَا زَادَتْ عَلَى مِائَتَيْنِ فَفِيهَا ثَلَاثُ شِيَاهٍ إِلَى أَنْ تَبْلُغَ ثَلَاثَ مِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ عَلَى ثَلَاثِ مِائَةٍ فَفِي كُلِّ مِائَةِ شَاةٍ شَاةٌ وَلَا يُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ مِنَ الْغَنَمِ وَلَا تَيْسُ الْغَنَمِ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ الْمُصَدِّقُ، وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُفْتَرِقٍ وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ، وَمَا كَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَتَرَاجَعَانِ بَيْنَهُمَا بِالسَّوِيَّةِ، فَإِنْ لَمْ تَبْلُغْ سَائِمَةُ الرَّجُلِ أَرْبَعِينَ فَلَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا، وَفِي الرِّقَةِ رُبْعُ الْعُشْرِ فَإِنْ لَمْ يَكُنِ الْمَالُ إِلَّا تِسْعِينَ وَمِائَةً فَلَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا".
حماد کہتے ہیں میں نے ثمامہ بن عبداللہ بن انس سے ایک کتاب لی، وہ کہتے تھے: یہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انس رضی اللہ عنہ کے لیے لکھی تھی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر لگی ہوئی تھی، جب آپ نے انہیں صدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجا تھا تو یہ کتاب انہیں لکھ کر دی تھی، اس میں یہ عبارت لکھی تھی: ”یہ فرض زکاۃ کا بیان ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر مقرر فرمائی ہے اور جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا ہے، لہٰذا جس مسلمان سے اس کے مطابق زکاۃ طلب کی جائے، وہ اسے ادا کرے اور جس سے اس سے زائد طلب کی جائے، وہ نہ دے: پچیس (۲۵) سے کم اونٹوں میں ہر پانچ اونٹ پر ایک بکری ہے، جب پچیس اونٹ پورے ہو جائیں تو پینتیس (۳۵) تک میں ایک بنت مخاض ۱؎ ہے، اگر بنت مخاض نہ ہو تو ابن لبون دیدے، اور جب چھتیس (۳۶) اونٹ ہو جائیں تو پینتالیس (۴۵) تک میں ایک بنت لبون ہے، جب چھیالیس (۴۶) اونٹ پورے ہو جائیں تو ساٹھ (۶۰) تک میں ایک حقہ واجب ہے، اور جب اکسٹھ (۶۱) اونٹ ہو جائیں تو پچہتر (۷۵) تک میں ایک جذعہ واجب ہو گی، جب چھہتر (۷۶) اونٹ ہو جائیں تو نو ے (۹۰) تک میں دو بنت لبون دینا ہوں گی، جب اکیانوے (۹۱) ہو جائیں تو ایک سو بیس (۱۲۰) تک دو حقہ اور جب ایک سو بیس (۱۲۰) سے زائد ہوں تو ہر چالیس (۴۰) میں ایک بنت لبون اور ہر پچاس (۵۰) میں ایک حقہ دینا ہو گا۔ اگر وہ اونٹ جو زکاۃ میں ادا کرنے کے لیے مطلوب ہے، نہ ہو، مثلاً کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ اسے جذعہ دینا ہو لیکن اس کے پاس جذعہ نہ ہو بلکہ حقہ ہو تو حقہ ہی لے لی جائے گی، اور ساتھ ساتھ دو بکریاں، یا بیس درہم بھی دیدے۔ یا اسی طرح کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ ان میں حقہ دینا ہو لیکن اس کے پاس حقہ نہ ہو بلکہ جذعہ ہو تو اس سے جذعہ ہی قبول کر لی جائے گی، البتہ اب اسے عامل (زکاۃ وصول کرنے والا) بیس درہم یا دو بکریاں لوٹائے گا، اسی طرح سے کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ ان میں حقہ دینا ہو لیکن اس کے پاس حقہ کے بجائے بنت لبون ہوں تو بنت لبون ہی اس سے قبول کر لی جائے گی“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں موسیٰ سے حسب منشاء اس عبارت سے «ويجعل معها شاتين إن استيسرتا له، أو عشرين درهمًا» سے لے کر «ومن بلغت عنده صدقة بنت لبون وليس عنده إلا حقة فإنها تقبل منه» تک اچھی ضبط نہ کر سکا، پھر آگے مجھے اچھی طرح یاد ہے: یعنی اگر اسے میسر ہو تو اس سے دو بکریاں یا بیس درہم واپس لے لیں گے، اگر کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں، جن میں بنت لبون واجب ہوتا ہو اور بنت لبون کے بجائے اس کے پاس حقہ ہو تو حقہ ہی اس سے قبول کر لیا جائے گا اور زکاۃ وصول کرنے والا اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس کرے گا، جس کے پاس اتنے اونٹ ہوں جن میں بنت لبون واجب ہوتی ہو اور اس کے پاس بنت مخاض کے علاوہ کچھ نہ ہو تو اس سے بنت مخاض لے لی جائے گی اور اس کے ساتھ ساتھ دو بکریاں یا بیس درہم اور لیے جائیں گے، جس کے اوپر بنت مخاض واجب ہوتا ہو اور بنت مخاض کے بجائے اس کے پاس ابن لبون مذکر ہو تو وہی اس سے قبول کر لیا جائے گا اور اس کے ساتھ کوئی چیز واپس نہیں کرنی پڑے گی، اگر کسی کے پاس صرف چار ہی اونٹ ہوں تو ان میں کچھ بھی نہیں ہے سوائے اس کے کہ ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دیدے۔ اگر چالیس (۴۰) بکریاں چرنے والی ہوں تو ان میں ایک سو بیس (۱۲۰) تک ایک بکری دینی ہو گی، جب ایک سو اکیس (۱۲۱) ہو جائیں تو دو سو تک دو بکریاں دینی ہوں گی، جب دو سو سے زیادہ ہو جائیں تو تین سو (۳۰۰) تک تین بکریاں دینی ہوں گی، جب تین سو سے زیادہ ہوں تو پھر ہر سینکڑے پر ایک بکری دینی ہو گی، زکاۃ میں بوڑھی عیب دار بکری اور نر بکرا نہیں لیا جائے گا سوائے اس کے کہ مصلحتاً زکاۃ وصول کرنے والے کو نر بکرا لینا منظور ہو۔ اسی طرح زکاۃ کے خوف سے متفرق مال جمع نہیں کیا جائے گا اور نہ جمع مال متفرق کیا جائے گا اور جو نصاب دو آدمیوں میں مشترک ہو تو وہ ایک دوسرے پر برابر کا حصہ لگا کر لیں گے ۲؎۔ اگر چرنے والی بکریاں چالیس سے کم ہوں تو ان میں کچھ بھی نہیں ہے سوائے اس کے کہ مالک چا ہے تو اپنی مرضی سے کچھ دیدے، اور چاندی میں چالیسواں حصہ دیا جائے گا البتہ اگر وہ صرف ایک سو نوے درہم ہو تو اس میں کچھ بھی واجب نہیں سوائے اس کے کہ مالک کچھ دینا چاہے۔
وضاحت: ۱؎: بنت مخاض، بنت لبون، حقہ، جذعہ وغیرہ کی تشریح آگے باب نمبر (۷) تفسیر اسنان الابل میں دیکھئے۔ ۲؎: مثلاً دو شریک ہیں ایک کی ایک ہزار بکریاں ہیں اور دوسرے کی صرف چالیس بکریاں، اس طرح کل ایک ہزار چالیس بکریاں ہوئیں، محصل آیا اور اس نے دس بکریاں زکاۃ میں لے لیں، فرض کیجئے ہر بکری کی قیمت چھبیس چھبیس روپے ہے اس طرح ان کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے ہوئی جس میں دس روپے اس شخص کے ذمہ ہوں گے جس کی چالیس بکریاں ہیں اور د وسو پچاس روپے اس پر ہوں گے جس کی ایک ہزار بکریاں ہیں، کیونکہ ایک ہزار چالیس کے چھبیس چالیسے بنتے ہیں جس میں سے ایک چالیسہ کی زکاۃ چالیس بکریوں والے پر ہو گی اور (۲۵) چالیسوں کی زکاۃ ایک ہزار بکریوں والے پر، اب اگر محصل نے چالیس بکریوں والے شخص کی بکریوں سے دس بکریاں زکاۃ میں لی ہیں جن کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے بنتی ہے تو ہزار بکریوں والا اسے ڈھائی سو روپے واپس کرے گا، اور اگر محصل نے ایک ہزار بکریوں والے شخص کی بکریوں میں سے لی ہیں تو چالیس بکریوں والا اسے دس روپیہ واپس کرے گا۔
Narrated Hammad: I took a letter from Thumamah bin Abdullah bin Anas. He presumed that Abu Bakr had written it for Anas when he sent him (to Al Bahrain) as a collector of zakat. This (letter) was stamped with the stamp of the Messenger of Allah ﷺ and was written by Abu Bakr for him (Anas). This letter goes “This is the obligatory sadaqah (zakat) which the Messenger of Allah ﷺ imposed on Muslims which Allah commanded his Prophet ﷺ to impose. Those Muslims who are asked for the proper amount must give it, but those who are asked for more than that must not give it. For less than twenty five Camels a goat is to be given for every five Camels. When they reach twenty five to thirty five, a she Camel in her second year is to be given. If there is no she Camel in her second year, a male Camel in its third year is to be given. When they reach thirty six to forty five, a she Camel in her third year is to be given. When they reach forty six to sixty, a she Camel in her fourth year which is ready to be covered by a stallion is to be given. When they reach sixty one to seventy five, a she Camel in her fifth year is to be given. When they reach seventy six to ninety, two she Camel in their third year are to be given. When they reach ninety one to a hundred and twenty, two she Camels in their fourth year are ready to be covered by a stallion are to be given. When they exceed a hundred and twenty, a she Camel in her third year is to be given for every forty and a she Camel in her fourth year for every fifty (Camels). In case the ages of the Camel vary in the payment of obligatory sadaqah (zakat) If anyone whose Camels reach the number on which a she Camel in her fifth year is payable does not possess one but possess one in her fourth year, that will be accepted from him along with two goats if he can conveniently give them, or else twenty dirhams. If anyone whose Camels reach the number on which a she Camel in her fourth year is payable does not possess but possesses one in her fifth year, that will be accepted from him, and the collector must give him twenty dirhams or two goats. If anyone whose Camels reach the number on which a she Camel in her fourth year is payable possesses only one in her third year, that will be accepted from him. ” Abu Dawud said From here I could not retain accurately from Musa as I liked “And he must give along with it two goats if he can conveniently give them, or else twenty dirhams. If anyone whose Camels reach the number on which a she Camel in her third year is payable possesses only one in her fourth year, that will be accepted from him. ” Abu Dawud said (I was doubtful) up to here, and retained correctly onward “and the collector must give him twenty dirhams or two goats. If anyone whose Camels reach the number on which a she Camel in her third year is payable does not possess one but possesses one in her second year, that will be accepted from him, but he must give two goats or twenty dirhams. Anyone whose Camels reach the number on which a she Camel in her second year is payable does not possess one but possesses a male Camel in its third year, that will be accepted from him, and nothing extra will be demanded along with it. If anyone possesses only four Camels, no zakat will be payable on them unless their owner wishes. If the numbers of the pasturing goats reach forty to one hundred and twenty, one goat is to be given. Over one hundred and twenty up to two hundred, two goats are to be given. If they exceed two hundred reaching three hundred, three goats are to be given. If they exceed three hundred, a goat is to be for every hundred. An old sheep, one with a defect in the eye, or a male goat is not to be accepted as sadaqah (zakat) unless the collector wishes. Those which are in separate flocks are not to be brought together and those which are in one flock are not to be separated from fear of sadaqah (zakat). Regarding what belongs to two partners, they can make claims for restitution from one another with equity, If a man’s pasturing animals are less than forty, no sadaqah (zakat) is due on them unless their owner wishes. On sliver dirhams a fortieth is payable, but if there are only a hundred and ninety, nothing is payable unless their owner wishes. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1562
من بلغت عنده من الإبل صدقة الجذعة وليست عنده جذعة وعنده حقة فإنها تقبل منه الحقة ويجعل معها شاتين إن استيسرتا له أو عشرين درهما ومن بلغت عنده صدقة الحقة وليست عنده الحقة وعنده الجذعة فإنها تقبل منه الجذعة ويعطيه المصدق عشرين درهما أو شاتين ومن بلغت عنده ص
هذه فريضة الصدقة التي فرض رسول الله على المسلمين والتي أمر الله بها رسوله فمن سئلها من المسلمين على وجهها فليعطها ومن سئل فوقها فلا يعط في أربع وعشرين من الإبل فما دونها من الغنم من كل خمس شاة إذا بلغت خمسا وعشرين إلى خمس وثلاثين ففيها
من بلغت صدقته بنت مخاض وليست عنده وعنده بنت لبون فإنها تقبل منه ويعطيه المصدق عشرين درهما أو شاتين فإن لم يكن عنده بنت مخاض على وجهها وعنده ابن لبون فإنه يقبل منه وليس معه شيء
هذه فرائض الصدقة التي فرض رسول الله على المسلمين التي أمر الله بها رسوله فمن سئلها من المسلمين على وجهها فليعط ومن سئل فوق ذلك فلا يعط فيما دون خمس وعشرين من الإبل في كل خمس ذود شاة فإذا بلغت خمسا وعشرين ففي
هذه فرائض الصدقة التي فرض رسول الله على المسلمين التي أمر الله بها رسوله فمن سئلها من المسلمين على وجهها فليعطها ومن سئل فوقها فلا يعطه فيما دون خمس وعشرين من الإبل في خمس ذود شاة فإذا بلغت خمسا وعشرين ففيها بنت مخاض
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1567
1567. اردو حاشیہ: ➊ فریضہ زکوۃ کی اس تفصیل سے مقام رسالت کی بھی وضاحت ہوتی ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿بِالبَيِّنـٰتِ وَالزُّبُرِ ۗ وَأَنزَلنا إِلَيكَ الذِّكرَ لِتُبَيِّنَ لِلنّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيهِم وَلَعَلَّهُم يَتَفَكَّرونَ﴾(النحل:44)”یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں۔“ ➋ احادیث نبویہ کا ایک معقول حصہ دور رسالت میں آپ کے حین حیات ضبط تحریر میں لایا گیا تھا، ان میں سے مذکورہ بالا تفصیلات زکوۃ بھی ہیں لہذا منکرین حجت حدیث کو غور کرنا چاہیے۔ ➌ شرعی حقوق مالیہ طلب کرنے پر ادا کرنے واجب ہیں۔ اگر حکومت اس فریضے سے غافل ہو تو مسلمانوں کو از خودان کا ادا کرنا فرض ہے۔ ➍ مقررہ مقدار زکوۃ سے زیادہ کا مطالبہ ہو تو جرات سے انکار کرنا چاہیے۔ الا یہ کہ حالات دگرگوں ہوں۔ ➎ مقررہ نصاب سے کم میں زکوۃ واجب نہیں۔ مالک خوشی سے پیش کرے تو قبول کر لی جائے جو اس کے لیے باعث اجر و ثواب ہے۔ ٹیکس اور زکوۃ و صدقات میں یہی بنیادی فرق ہے کہ مسلمان شرعی واجبات تنگی ترشی میں بخوشی ادا کرتا ہے بخلاف ٹیکسوں کے۔ ➏ اونٹوں کی مذکورہ بالا زکوۃ کے جانوروں کی عمریں بالکل پوری ہونی چاہییں۔ مثلاً ”بنت مخاض“ وہ اونٹنی ہے جو ایک سال کی ہو کر دوسرے سال میں داخل ہو چکی ہو۔ ”بنت لبون“ وہ اونٹنی ہے جو دو سال کی ہو کر تیسرے میں لگ چکی ہو، اسی طرح باقی بھی۔ ➐ لاگو ہونے والی زکوۃ میں حسب مصلحت جانوروں کو بدلنا یا ان کی قیمت لینا دینا بھی جائز ہے۔ ➑ اکٹھے ریوڑوں کو علیحدہ کرنا یوں ہے کہ .....مثلاً ایک ریوڑ میں دو مالکوں کی کل پچاس بکریاں ہوں توان میں ایک بکری زکوۃ آتی ہے مگر تحصیلدار زکوۃ کی آمد کےموقع پر یہ دونوں اپنے اپنے جانور علیحدہ کر لیں تو پچیس پچیس بکریاں میں کوئی زکوۃ نہ آئے گی۔ یہ حیلہ ناجائز اور حرام ہے۔ اسی طرح علیحدہ علیحدہ ریوڑوں کو اکٹھے دکھانا بھی ناجائز اور حرام ہے۔ مثلاً ساٹھ ساٹھ بکریوں کے دو ریوڑوں پر دو بکریاں زکوۃ لاگو ہوگی لیکن اگر ان کو ایک ہی ریوڑ شمار کیا کرایا جائے تو ایک سو بیس میں صرف ایک بکری آئے گی۔ اسی طرح ایک بکری بچا لینا حرام ہوگا۔ ➒ لاگو شدہ زکوۃ کے جانوروں میں مادہ جانور لینا دینا اس لیے تاکیدی ہے کہ ان کی افزائش ہوتی رہتی ہے جبکہ نر صرف جفتی کا فائدہ دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اونٹوں میں اگر بنت مخاض (ایک سالہ مادہ) لازم آئی ہو مگر موجود نہ ہو تو ابن لبون (دو سالہ نر) لیا جائے اور کچھ واپس نہ کیا جائے۔ ➓ زکوۃ میں اللہ تعالیٰ ہی کو راضی کرنا مطلوب ہے اس لیے اسے اخلاص سےعمدہ مال پیش کیا جائے۔ ضعیف، بیمار یا عیب دار جانور پیش کرنا یا قبول کرنا ناجائز ہے۔ (11) ایسے جانور جوگھروں میں پالے جاتے ہیں، جنگل میں چرنے نہیں جاتے ان پر اس انداز سے زکوۃ نہیں بلکہ اگر وہ تجارت کےلیے ہیں تو ان کی مجموعی قیمت پر زکوۃ آئے گی یا ان سے حاصل آمدنی پر زکوۃ ہو گی۔ واللہ اعلم۔ (12) جن دو مشترک مالکوں کا مال اکٹھا ہی لی گی ہوتو وہ آپس میں برابر لین دین کر لیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ دو شرکاء تھے۔ ساٹھ ساٹھ بکریاں ہر ایک کی تھیں۔ مجموعی طور سے ایک بکری زکوۃ لی گئی۔ ظاہر ہے آدھی آدھی بکری دونوں پر لازم آئی تو اب جس کے مال سے ایک بکری لی گئی ہے وہ اپنے دوسرے ساتھی سے آدھی بکری کے دام لے لے گا اور وہ دوسرا اسے آدھی بکری کے دام دے گا۔ اس طرح دونوں پر زکوۃ برابر برابر ہو جائے گی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1567
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 484
´مال مویشی اور چاندی کی زکاۃ کا نصاب` ”سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو فریضہ زکٰوۃ کے سلسلہ میں یہ تحریر لکھ کر دی تھی۔ . . .“[بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 484]
لغوی تشریح: «كَتَبَ لَهُ» حضرت انس رضی اللہ عنہ کو اس وقت یہ تحریر کر کے دیا جب انہیں بحرین کی طرف زکاۃ کی وصولی پر عامل بنا کر بھیجا۔ «هَذِهِ فَرِيضَةُ الصَّدقَةِ» یہ فرضیت زکاۃ کا نوشہ ہے۔ اس تحریری مکتوب کا آغاز انھی مذکورہ الفاظ سے ہوتا ہے۔ صحیح بخاری میں مکتوب کے شروع میں «بِسم اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيم» ہے۔ دیکھیے تخریج حدیث ہذا۔ «فَمَا دُونَهَا» اس کا مطلب ہے چوبیس سے کم۔ «اَلْغَنَم» بکری اور بھیڑ دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہاں «الغنم» مبتدا موخر ہے اس کی خبر «في كُلِّ اْرَبَعِ وَّ عِشْرِينَ فَمَا دُونَهَا» ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ اس تعداد و مقدار میں بکری یا بھیڑ زکاۃ میں نکالنا واجب ہے۔ «في كُلِّ خَمُسٍ» ہر پانچ کی تعداد سے مراد اونٹ ہیں۔ جب پانچ اونٹ ہوں گے تو زکاۃ کا نصاب شروع ہو گا اور اس تعداد پر «شَاةٌ» ایک بکری یا بھیڑ دینا ہو گی۔ «بِنْتُ مَخَاضِ» اس اونٹنی کو کہتے ہیں جو ایک سال پورا کر کے دوسرے سال میں قدم رکھ چکی ہے۔ «مخاص» اس اونٹنی کو کہتے ہیں جو اس عمر کو پہنچ جائے کہ وہ حاملہ ہونے کی صلاحیت رکھتی ہو، خواہ ابھی تک وہ حاملہ نہ ہوئی ہو۔ اسے (بنت مخاض) مخاض کی بیٹی اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی ماں کا شمار ان میں سے ہے جو حاملہ ہوتی ہیں اور مونث کی قید تاکید کے لیے ہے اور اس پر متنبہ کرنا مقصود ہے کہ نر اونٹ وہ کام نہیں دے سکتا جو مادہ دے سکتی ہے۔ «اِبْنُ لَبُونٟ» «لبون» کے ”لام“ پر فتحہ ہے۔ اس سے مراد وہ اونٹ ہے جو دو سال مکمل کر کے تیسرے سال میں داخل ہو چکا ہو۔ «بِنْتُ لَبُونٟ» یہ عمر میں «ابن لبون» کے برابر ہوتی ہے، یعنی وہ اونٹنی جو دو سال مکمل کر کے تیسرے سال میں قدم رکھ چکی ہو۔ «حقَّةٌ»”حا“ کے نیچے کسرہ اور ”قاف“ پر تشدید ہے۔ اس سے مراد وہ مادہ اونٹنی ہے جو تین سال کی عمر پوری کر کے چوتھے سال میں قدم رکھ چکی ہو۔ اس کی جمع «حقاف» آتی ہے اور اس کا مذکر «حِقَّ»”حا“ کے کسرہ کے ساتھ ہے۔ اسے «حقه» اس لیے کہتے ہیں کہ اس کے معنی ہیں، حقدار اور قابل ہونے والی، چونکہ یہ اس قابل ہو چکی ہوتی ہے کہ اس پر سواری کی جا سکے اور بار برداری کے بھی قابل ہو جاتی ہے اور اسی طرح نَر کی جفتی کے بھی قابل ہو جاتی ہے۔ اسی وجہ سے اسے «طَرُرقهُ الْحَمَل» بھی کہا گیا ہے۔ مراد اس سے یہ ہے کہ یہ اس قابل ہو جاتی ہے کہ نر اگر اس سے جفتی کرے تو کر سکتا، خواہ اسے سے وطی نہ بھی کی گئی ہو لیکن اس کے قابل ضرور ہو چکی ہوتی ہے۔ «جَذَعةٌ»”جیم“ اور ”ذال“ دونوں پر فتحہ ہے جو پورے چار سال کو پہنچ چکی ہو اور پانچویں میں قدم رکھ چکی ہو۔ «فَاِذَازَادَتْ» جب اونٹوں کی تعداد اس سے زیادہ ہو جائے۔ «عَلٰي عِشْرِينَ وَمائَةٟ» ایک سو بیس سے خواہ ایک ہی کا اضافہ ہو۔ «فَفِي كُلِّ اَرْبَعِينَ . . .» تو انہیں چالیس اور پچاس کے دو گروپوں اور حصوں میں تقسیم کر لیں گے، مثلاً مذکورہ تعداد میں ایک کا اضافہ ہو جانے کی صورت میں ہم اس تعداد کو چند حصوں میں تقسیم کریں گے۔ ایک سو اکیس میں چالیس چالیس کے تین گروپ بنیں گے، چنانچہ اس صورت میں تین بنت لبون وصول کی جائیں گی اور جو ایک زائد بچے گا اس پر کوئی زکوۃ نہیں۔ اور جب یہ ایک سو تیس ہو جائیں گے تو ایک گروپ پچاس کا اور دو چالیس چالیس کے بنیں گے اور اس صورت میں پچاس پر حقہ اور چالیس چالیس پر دو بنت لبون ادا کی جائیں گی۔ بس اسی طرح دس کے اضافے کی صورت میں تبدیلی اور تغیر واقع ہوتا چلا جائے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مکتوب گرامی اسی پر دلالت کرتا ہے کہ جب انٹوں کی تعداد ایک سو اکیس ہو جائے تو ان میں تین بنت لبون زکاۃ ہو گی یہاں تک کہ یہ تعداد ایک سو انتیس تک پہنچ جائے۔ مدعا و مقتضا کلام یہ ہے کہ کسروں کا شمار نہیں کیا جاتا اور دہائیوں کے مکمل ہونے پر زکاۃ ہے، مثلاً: دس، بیس، تیس۔ علی ھذٰا القیاس۔ [ عون المعبود اور سبل السلام] «إلَّا اَنْ يَّشاء رَبُّهَا» الا یہ کہ اونٹوں کا مالک رضا کارانہ طور پر اپنی طرف سے نفلی طور پر زکاۃ نکالنا چاہے تو نکال سکتا ہے، اس پر واجب نہیں ہے۔ «في سائمنها» یہ فی «صَدَقْةِ الْغَنَم» سے بدل ہے۔ بکریوں میں سے سائمہ وہ ہے جس کی زندگی کا انحصار جنگلوں میں چرنے پر ہو اور گھر پر چارہ بہت کم کھاتی ہو۔ جمہور کے نزدیک جنگل میں چرنے کی قید لازمی ہے۔ ان کے نزدیک زکاۃ واجب ہونے کے لیے جنگلوں وغیرہ کے چارے پر انحصار کی شرط ہے۔ «إلٰي عِشَرِينَ وَمِائَةِ شَاةٟ شَاةٌ» ایک سو بیس تک کی تعداد میں صرف ایک بکری ہے۔ پہلا «شَاةٟ» کا لفظ «مائة» کی تمیز ہونے کی وجہ سے مجرور ہے اور دوسرا «شاةٌ» مبتدا موخر ہونے کی بنا پر مرفوع ہے اور اس کی خبر پہلا جملہ «فِي صَدَفةِ الْغَنَم» ہے اور «شاة» کے لفظ میں نر و مادہ، بھیڑ اور بکری دونوں شامل ہیں اور «غنم» کا لفظ «شاة» کا مترادف ہے، یعنی «شاة» اور «غنم» دونوں ہم معنی ہیں۔ «فَاِذَا زَادَتْ عَلٰي عِشْرِينَ وَمِائَةٟ» جب ایک سو بیس پر اضافہ ہو جائے، خواہ ایک ہی عدد کا کیوں نہ ہو، اس میں دو بکریوں ہیں۔ اور جب دو سو سے زیادہ ہو کر تین سو ہو جائیں تو تین بکریاں۔ «فَاِذَا زَادَتْ عَلٰي ثَلٰثِ مِائَةٟ كُلِّ مِائَةٟ شَاةٌ» اور جب تین سو سے تعداد میں اضافہ ہو جائے تو ہر سو میں ایک بکری زکاۃ میں وصول کی جائے گی۔ بظاہر تو اس سے یہی مفہوم سمجھ میں آتا ہے کہ چوتھی بکری اس وقت دینا ضروری ہوتا ہے جب تعداد چار سو تک پہنچ جائے، جمہور کا یہی قول ہے۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ جب تین سو پر ایک کا بھی اضافہ ہو جائے گا تو اس تعداد میں چار بکریاں دینا ہوں گی، پہلی بات قابل ترجیح ہے اور اس کی تائید وہ روایت بھی کررہی ہے جسے ترمذی نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے حوالے سے مرفوعاً نقل کیا ہے: ”جب تین سو بکریوں میں ایک کا مزید اضافہ ہو جائے تو پھر ہر ایک سو بکریوں پر ایک بکری ہے۔ جب تک تعداد میں پورے سو کا اضافہ نہیں ہو جاتا اس میں کوئی زکاۃ نہیں۔“[جامع الترمذي، الزكاة حديث: 621] «فَاِذَا كَانَتْ سَائِمَةُ الرَّجُل» جب آدمی کی بکریاں جنگل میں چرنے چگنے والی چالیس سے کم ہوں تو ان پر ایک بکری بھی زکاۃ نہیں پڑتی۔ «نَاقِصَةٌ» منصوب ہے۔ «كانت» کی خبر واقع ہو رہا ہے۔ «مِنْ اَّرْبَعينَ شَاةً شَاةَ وَاحِدَةٌ» دونوں شاۃ منصوب ہیں۔ پہلا لفظ عدد سے تمیز واقع ہورہا ہے اور دوسرا، حرف جر محذوف ہونے کی وجہ سے خصی حالت میں ہے جسے منصوب بنزع الخافض کہتے ہیں، یعنی اصل میں تھا «بشاة واحدة» ۔ یا پھر یہ «ناقصة» کا مفعول ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ جب کسی آدمی کے پاس باہر چرنے چگنے والی بکریوں کی تعداد چالیس سے ایک بھی کم ہو تو ان میں کوئی زکاۃ نہیں ہے اور جب تعداد میں ایک سے زیادہ بکریوں کی کمی واقع ہو جائے پھر تو کسی صورت میں زکاۃ نہیں۔ «وَلَا يُجْمَعُ» صیغہ مجہول۔ نہ جمع کیا جائے گا، نہ اکٹھا کیا جائے گا۔ «وَلَا يُفَرَّقُ»”را“ پر تشدید کے ساتھ صیغہ مجہول ہے۔ «خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ» مفعول لہ واقع ہو رہا ہے، اس لیے منصوب ہے، یعنی زکاۃ زیادہ یا کم دینے کے خوف و اندیشے کے پیش نظر جمع یا الگ نہ کرے۔ زیادہ زکاۃ پڑنے کا اندیشہ مال کے مالک کو ہو گا اور کم زکاۃ پڑنے کا خوف زکاۃ وصول کرنے والے عامل کو ہو گا۔ اور نہی دونوں فریقین کے لیے یکساں طور پر عائد ہوتی ہے۔ الگ الگ کو جمع کرنے کی صورت یہ ہے، مثلاً: تین آدمی ہیں ہر ایک کی چالیس چالیس بکریاں ہیں۔ الگ الگ ہونے کی صورت میں ہر ایک پر ایک بکری زکاۃ ہے، اس طرح مجموعی طور پر انہیں تین بکریاں زکاۃ ادا کرنی پڑے گی۔ جب زکاۃ وصول کرنے والا ان کے پاس پہنچتا ہے تو وہ بکریاں جمع کر لیں اور تعداد ایک سو بیس بن گئی۔ اس طرح انہیں صرف ایک بکری دینا پڑتی ہے۔ اور جمع شدہ بکریوں کو الگ الگ کرنے کی صورت یہ ہے کہ دو آدمی اکٹھے ہیں، دو سو ایک بکریاں ان کی ملکیت میں ہیں۔ اس طرح دونوں پر تین بکریاں زکاۃ دینا لازمی ہے کیونکہ دو سو سے ایک بکری زائد ہے۔ مگر جب زکاۃ وصول کرنے والا ان کے پاس پہنچا تو دونوں نے اپنی اپنی بکریاں الگ کر لیں کہ اس طرح ان میں سے ہر ایک کے ذمے ایک ایک بکری ہی آئے گی۔ اس حدیث میں مال کے مالکوں کو اس طرح کے طریقوں کے ساتھ حیلہ سازی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ زکاۃ وصول کرنے والے کو منع کرنے کی صورت یہ ہے کہ دو آدمی ہیں جو باہم شریک ہیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اپنا مال ملایا ہوا نہیں ہے، ان دونوں میں سے ہر ایک کے پاس اپنی اپنی ایک سو بیس یا اس سے کچھ کم بکریاں ہیں تو اس صورت میں ہر ایک پر ایک بکری زکاۃ واجب ہے، مگر زکاۃ وصول کرنے والا ان دونوں کی بکریاں ازخود جمع کرتا ہے جس سے ان کی مجموعی تعداد دو سو سے زائد ہو جاتی ہے اور اس طرح وہ اسن سے تین بکریاں وصول کر لیتا ہے۔ اور الگ الگ کرنے کی صورت یہ ہے، مثلاً ایک سو بیس بکریاں تین آدمیوں کی ملکیت میں ہیں جو کہ آپس شریک ہیں، ان پر صرف ایک ہی بکری زکاۃ واجب ہے مگر زکاۃ وصول کرنے والا اسے تین حصوں میں تقسیم کر دیتا ہے اور اس طرح تین بکریاں وصول کر لیتا ہے، بایں طور کہ ہر چالیس پر ایک بکری کے حساب سے وصول کرتا ہے۔ اس تفصیل سے ظاہر کہ خشیۃ الصدقۃ کے معنی دو طرح ہو سکتے ہیں، یعنی کثرت ک خوف و اندیشہ کے پیش نظر یا قلت کے نقطہ نظر سے، دونوں معنوں کا احتمال ہے، کسی کو کسی پر ترجیح، دونوں معنی اکٹھے بھی ہو سکتے ہیں۔ «وَمَا كَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ» «خليطين» کے معنی: «شيكين» ہیں اور اس میں «مِن» بیانیہ ہے جو اسم موصول کے بیان کے لیے ہے۔ «اَلْخُلْطَةُ» یعنی شرکت یہ ہے کہ چروایا، چراگاہ، نر(سانڈ) اور پانی پلانے کی جگہ ایک ہو۔ «فَاِنَّهُمَا يَتَرَاجَعَانِ بَيْنَهُمَا بِالسَّوِيَّةِ» «سوية» میں ”یا“ پر تشدید ہے، اس کے معنی مساوات اور برابری کے ہیں، اور تراجع کا مطلب یہ ہے کہ جب زکاۃ وصول کرنے والا دونوں کے مجموعی مال پر واجب زکاۃ ایک بکری کی صورت میں وصول کر لیتا ہے (حالانکہ اس کے ذمے تو آدھی بکری آتی ہے اور باقی نصف اس کے دوسرے ساتھی پر) تو اب زکاۃ دینے والا اپنے دوسرے ساتھی سے نصف بکری کی قیمت وصول کر لے گا۔ اس طرح دونوں کی طرف سے ان پر واجب الادا زکاۃ ادا ہو جائے گی۔ کمی و بیشی کا شکوہ کسی کو نہیں رہے گا۔ «بِالسْوِيْهِ» سے یہی برابری مراد ہے، مثلاً: دو شریکوں کا کل مال چالیس بکریاں ہیں۔ دونوں کی بیس بیس ہیں، اب ان میں سے ایک شریک اپنے حصے کی بکری زکاۃ میں ادا کر دے اور آدھی قیمت اپنے ساتھی سے وصول کر لے۔ «لَايُخْرُجُ» صیغہ مجہول ہے، نہیں نکالا جائے گا۔ «هَرِمَةٌ»”ہا“ اور ”را“ کے نیچے کسرہ ہے۔ بوڑھی اور اتنی عمر رسیدہ جس کے دانت گر چکے ہوں۔ «وَلَاذَاتُ عَوَارِ» «عوار» کے ”عین“ پر فتحہ اور ضمہ دونوں جائز ہیں۔ عیب کے معنی میں ہے۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ عوار کے ”عین“ پر فتحہ کی صورت میں اس کا معنی عیب کے ہوں گے اور ضمہ کی صورت میں کانا کہ۔ اور بہتر یہی ہے کہ اسے فتحہ سے پڑھا جائے تاکہ تمام عیوب و نقائص اس میں شامل ہو جائیں۔ «وَلَا تَيْسٌ»”تا“ پر فتحہ اور ”یا“ ساکن ہے۔ سانڈ بکرا جو بکریوں پر جفتی کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ «الَّا اَنْ يَّشَاءَ الْمُصَدَّقُ» «مصدق» کے ”صاد“ پر تشدید اور تخفیف دونوں طرح ہے۔ تشدید کے ساتھ اس کی اصل متصدق ہے اور یہ باب تفعل ہے، یعنی زکاۃ و صدقہ دینے والا ہے۔ (مال کا مالک) اس صورت میں «استثنا» فقط لفظ تیس کی طرف راجع ہے، یعنی بوڑھی کھوسٹ، عیب والی اور سانڈ بکرے تمام کے ساتھ کے ساتھ استثنا کا تعلق ہے، یعنی ایسے جانور زکاۃ میں نہ دیے جائیں الا یہ کہ زکاۃ لینے والا ان کے لینے میں زیادہ مصلحت محسوس کرے اور مساکین کے لیے زیادہ اچھا سمجھے۔ «وَفِي الرَّقَةِ» «رقة» میں ”را“ کے نیچے کسرہ اور ”قاف“ مخفف ہے، یہ اصل میں «وَرِق» تھا۔ «ورق»”واو“ پر فتحہ اور ”را“ کے نیچے کسرہ کے ساتھ ہے، چاندی کو کہتے ہیں۔ «رُبْعُ الْعُشْرِ» «ربع» کے ”را“ اور «عشر» کے ”عین“ پر ضمہ ہے اور ”ہا“ اور ”شین“ ساکن ہیں۔ یا دونوں پر ضمہ بھی آ سکتا ہے۔ ربع کسی چیز کا چوتھا حصہ، عشر دسواں حصہ اور «ربع العشر» چالیسواں حصہ ہوا۔ دو سو درہم باون تولے اور چھ ماشے چاندی کے برابر ہوتے ہیں جس کا وزن آج کل کے حساب سے تقریباً 618 گرام اور 182 ملی گرام بنتا ہے۔ «فَاِنْ لَّمْ تَكُنْ» اور اگر چاندی نہ ہو۔ «اِلَّا تِسْعِينَ وَمِائَةِ» مگر ایک سو نوے درہم ہوں، یعی جب دو سو درہم پورے نہ ہوں تو ان پر زکاۃ نہیں۔ نوے کا ذکر محض اس لیے کیا ہے کہ سو پورا ہونے سے پہلے آخری دہائی نوے ہی ہے۔ اور حساب کا معاملہ یہ ہے کہ جب گنتی اکائیوں سے تجاوز کر جائے تو «عقود» سے گنتی کی جاتی ہے۔ اور «عقود» کہتے ہیں دہائیوں سینکڑوں اور ہزاروں کو۔ «فَاِنَّهَا تُقْبُلُ مِنْهُ الَحِقَّةُ» جذعہ کی جگہ حقہ قبول کر لیا جائے گا۔ «وَيَجْعَلُ» مالک شامل کرے گا۔ «مَعَهَا شَاتَيْ» نِ اس کے ساتھ دو بکریاں، نقصان و کمی کی تلافی کرنے کے لیے کیونکہ حقہ جذعہ سے چھوٹا ہوتا ہے۔ «اِنِ اسْتَيْسَرَتَا لَهُ» بایں صورت کہ دو بکریاں اس کے مویشیوں میں موجود ہوں۔ «اَوْ عِشْرِينَ دِرٰهمًا» بیس درہم۔ «اَوْ» یہاں تخبیر کے لیے ہے، یعنی اختیار حاصل ہے کہ چاہے یہ دے، چاہے وہ دے دے۔ «وَيُعٰطِيبه الْمُصَدَّقُ»”صاد“ پر تخفیف اور ”دال“ پر تشدید ہے۔ زکاۃ و صدقہ وصول کرنے والا، سرکاری کارندہ اور نمائندہ۔
فوائد و مسائل: ➊ اس حدیث میں مال مویشی اور چاندی کی زکاۃ کا نصاب مذکور ہے، نیز اس میں زکاۃ وصول کرنے کا طریق کار، زکاۃ میں وصول کیے جانے والے جانوروں کی عمروں کا بیان اور زکاۃ کی وصولی کا اہتمام مذکور ہے۔ ➋ اس حدیث میں یہ بھی حکم ہوا ہے کہ نہ تو مالک کو دھوکا دینے کی کوشش کی جائے اور نہ سرکاری اہل کار ہی کو دھوکے میں رکھنے کی کوشش کی جائے۔ ➌ ہر قسم کے مویشیوں پر زکاۃ نہیں بلکہ جنگل میں چرنے چگنے والوں پر ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 484
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2449
´اونٹوں کی زکاۃ کا بیان۔` انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں (عاملین صدقہ کو) یہ لکھا کہ یہ صدقہ کے وہ فرائض ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر فرض ٹھہرائے ہیں، جن کا اللہ عزوجل نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے، تو جس مسلمان سے اس کے مطابق زکاۃ طلب کی جائے تو وہ دے، اور جس سے اس سے زیادہ مانگا جائے تو وہ نہ دے: پچیس اونٹوں سے کم میں ہر پانچ اونٹ میں ایک بکری ہے، اور جب پچیس اونٹ ہو جائیں تو اس میں پینتیس اونٹوں تک ایک بر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2449]
اردو حاشہ: (1) یہ تحریر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوائی تھی تاکہ سرکاری حکام کو بھیجیں مگر آپ کو موقع نہ مل سکا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو انھوں نے یہ تحریر نقلیں کروا کر تمام حکام کو بھیجی۔ ویسے بھی اس تحریر میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دیا ہے، لہٰذا یہ تحریر مرفوع، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ (2)”وہ نہ دے۔“ یعنی زائد زکاۃ نہ دے یا بالکل زکاۃ نہ دے کیونکہ ظالم حاکم شرعاً معزول ہوتا ہے۔ (3)”ہر پانچ میں ایک بکری۔“ یعنی پانچ اونٹوں میں ایک بکری، دس میں دو، پندرہ میں تین، بیس میں چار، چوبیس تک۔ (4)”بنت مخاض“ ایک سال کی اونٹنی جو دوسرے سال میں شروع ہو چکی ہو۔ ”بنت لبون“ جو دو سال کی ہو اور تیسرے سال میں داخل ہو۔ ”حقہ“ تین سال کی اونٹنی جو چوتھے سال میں شروع ہو۔ اس عمر کی اونٹنی نر کی جفتی کے قابل ہو جاتی ہے، نیز وہ سواری کے بھی قابل ہو جاتی ہے۔ ”جزغہ“ چار سال کی اونٹنی جو پانچویں سال میں شروع ہو۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اونٹوں کی زکاۃ میں صرف مؤنث، یعنی اونٹنی ہی لی جائے گی کیونکہ مؤنث کی قیمت زیادہ ہوتی ہے اور اس سے سواری، گوشت، دودھ اور نسل کا فائدہ حاصل ہوتا ہے جبکہ مذکر، یعنی نر اونٹ سے صرف سواری اور گوشت کا فائدہ حاصل ہوتا ہے، اس لیے اونٹنی میں فقراء کا فائدہ ہے، لہٰذا اگر مجبوراً نر لیا جائے تو وہ مقررہ زکاۃ سے ایک سال بڑی عمر کا لیا جائے گا تاکہ قیمت برابر ہو جائے۔ یا اصل جانور کی قیمت وصول کی جائے گی۔ (5) جب ایک سو بیس سے زائد ہو جائیں، یعنی ایک سو اکیس ہو جائیں تو ہر چالیس میں ایک بنت لبون اور ہر پچاس میں ایک حقہ ہوگی، یعنی اس تعداد کو چالیس اور پچاس کے حصوں میں بانٹ لیا جائے، مثلاً: 121 سے 129 تک تین چالیس حصے بنتے ہیں، لہٰذا تین بنت لبون زکاۃ ہوگی۔ 130 سے 139 تک دو چالیس اور ایک پچاس بنتے ہیں لہٰذا دو بنت لبون اور ایک حقہ زکاۃ ہوگی۔ 140 میں ایک چالیس اور دو پچاس بنتے ہیں، لہٰذا ایک بنت لبون اور دو حقے زکاۃ ہوگی۔ یہ بھی یاد رکھا جائے کہ ان صورتوں میں پچھلی دہائی کی زکاۃ اگلی دہائی تک چلے گی، یعنی 130 والی زکاۃ 139 تک، 140 والی زکاۃ 149 تک اور 150 کی زکاۃ 159 تک چلے گی۔ (6)”اگر مقررہ عمر کے اونٹ نہ مل سکیں۔“ ایسی صورت میں مقررہ اونٹ کی قیمت وصول کی جائے گی یا چھوٹی یا بڑی عمر کا اونٹ لے کر اور مزید کچھ لے دے کر قیمت پوری کر لی جائے گی جس کی چند صورتیں بیان کی گئی ہیں جو اصل قیمت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو بکریاں یا بیس درہم قیمت کے حساب سے مقرر فرمائی ہیں۔ مذکورہ کمی پوری کرنے کے لیے دو بکریاں ہی مانی جائیں گی، پھر جہاں ان دو بکریوں کی جو قیمت بنتی ہو وہ قیمت مانی جائے گی۔ (7)”ہر سو میں ایک بکری۔“ ظاہر تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ 301 سے 400 تک چار بکریاں اور 401 سے 500 تک پانچ بکریاں مگر جمہور اہل علم نے یہ مفہوم مراد نہیں لیا، بلکہ ان کا خیال ہے کہ چوتھی بکری 400 بکریوں میں پڑے گی۔ اس سے کم میں تین بکریاں ہی زکاۃ ہوں گی گویا 201 سے 399 تک تین بکریاں ہی رہیں گی۔ واللہ أعلم (8)”بوڑھا، کانا (عیب والا جانور)۔“ زکاۃ میں صحیح سالم جانور وصول کیا جائے گا اور موٹاپے کے لحاظ سے درمیانہ جانور لیا جائے گا، نہ بہت اچھا اور نہ بہت کمزور۔ اونٹوں میں تو عمر مقرر ہے، بکریوں میں جوان بکری لی جائے گی۔ (9)”مذکر (نر)۔“ جو بکریوں کے لیے رکھا گیا ہو کیونکہ وہ قیمتی ہوتا ہے، اس سے مالک کو نقصان ہوگا۔ یا اس لیے کہ بکری فقراء کے لیے زیادہ مفید ہے، اس سے بچے حاصل ہوں گے، لہٰذا زکاۃ میں مؤنث ہی وصول کی جائے گی۔ الا یہ کہ صدقہ وصول کرنے والا مذکر کی ضرورت محسوس کرے اور مالک دینے پر راضی ہو۔ (10)”اکٹھا نہیں کیا جائے گا۔“ ایک شخص کے پاس پچاس بکریاں ہوں اور دوسرے کے پاس بھی پچاس تو ان کی زکاۃ ایک ایک بکری دینی پڑے گی لیکن اگر وہ دونوں ایک مالک ظاہر کر کے بکریاں اکٹھی ظاہر کر دیں تو کل سو بکریوں میں صرف ایک بکری زکاۃ ہوگی۔ یہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے کوئی شخص یہ حیلہ کر سکتا ہے، لہٰذا اس سے منع فرمایا تاکہ زکاۃ سے فرار کا رجحان پیدا نہ ہو۔ واجب سے بچنے کے لیے ایسا حیلہ کرنا حرام ہے۔ اسی طرح کبھی اکٹھی بکریوں کو متفرق ظاہر کر کے 30، 30 کے ریوڑ بنا دے تو زکاۃ سے بچ سکتا ہے، مگر اس قسم کے حیلے جو حرام کو حلال کریں یا حلال کو حرام یا اسی طرح واجب کو ساقط کر دیں، شرعاً حرام ہیں اور جرم ہیں۔ اس کے برعکس زکاۃ وصول کرنے والا بھی کر سکتا ہے، لہٰزا اس کے لیے بھی منع ہے، مثلاً: دو شرکاء کے پاس مجموعی طور پر سو بکریاں ہیں، زکاۃ وصول کرنے والا زیادہ وصول کرنے کی خاطر ان سو بکریوں کو الگ الگ کر دے گا تو دو بکریاں زکاۃ مل جائے گی جبکہ یکجا رہنے میں ایک ہی ملے گی۔ یا مثلاً: دو آدمیوں کے پاس الگ الگ 115، 115 بکریاں ہیں جن میں صرف ایک ایک بکری زکاۃ ہے، وصول کرنے والا آکر دونوں کو یکجا کر دے تو اس کو تین بکریاں مل جائیں گی، تو اس کے لیے بھی ایسا کرنا جائز نہیں۔ غرض زکاۃ کے خوف سے جمع یا متفرق کرنے کی ممانعت مالک کو بھی ہے اور زکاۃ وصول کرنے والے (عامل کو بھی)۔ (11)”دو شریک مالکوں سے زکاۃ۔“ اگر دو شخص مشترکہ طور پر جانوروں کے مالک ہیں، وہ کسی بھی تناسب سے مالک ہوں، عائد ہونے والی زکاۃ اسی تناسب سے ان کو دینی پڑے گی بشرطیکہ وہ جانور ایک ہی باڑے میں رہتے ہوں، ان کا چرواہا اور دیگر اخراجات مشترکہ طور پر ہوتے ہوں۔ گویا ظاہراً ان میں کوئی امتیاز نہ ہو تو ان کی زکاۃ مشترکہ وصول کی جائے گی۔ (12 چاندی یا کرنسی کی زکاۃ کا مسئلہ حدیث: 2447 کے تحت بیان ہو چکا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2449
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2457
´بکریوں کی زکاۃ کا بیان۔` انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں یہ لکھ کر دیا کہ صدقہ (زکاۃ) کے یہ وہ فرائض ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر فرض ٹھہرائے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا ہے، تو جس مسلمان سے اس کے مطابق زکاۃ طلب کی جائے تو وہ اسے دے، اور جس سے اس سے زیادہ مانگا جائے تو وہ اسے نہ دے۔ پچیس اونٹوں سے کم میں ہر پانچ اونٹ میں ایک بکری ہے۔ اور جب پچیس اونٹ ہو جائیں تو اس میں پنتیس اونٹوں تک ایک برس کی اونٹنی ہے،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2457]
اردو حاشہ: تصیلی موباحث کے لیے دیکھیے فوائد حدیث: 2449۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2457
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1453
1453. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے انھیں وہ فرائض زکوٰۃ لکھ کر دیے جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو حکم دیا تھا(وہ احکام یہ تھے:)”جس کے اونٹ اس تعداد کو پہنچ جائیں کہ ان کی زکوٰۃ چار سالہ اونٹ کابچہ ہو جبکہ اس کے پاس چار سالہ بچہ نہ ہو بلکہ تین سالہ ہوتو اس سے تین سالہ بچہ لے لیا جائے اور اس کے ساتھ دو بکریاں بھی لے لی جائیں گی بشرط یہ کہ آسانی سے میسر ہوں، بصورت دیگر بیس درہم وصول کرلیے جائیں۔ اور جس کے ذمے تین سالہ بچہ ہو لیکن اس کے پاس تین سالہ کے بجائے چار سالہ ہوتو اس سے چار سالہ وصول کرلیاجائے اور صدقہ وصول کرنے والا اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس کرے۔ اوراگر زکوٰۃ میں تین سالہ بچہ فرض ہو اور اس کے پاس تین سالہ کے بجائے دو سالہ مادہ بچہ ہوتو وہی قبول کرلیا جائے اور وہ(مال کا مالک) مزید اس کے ساتھ بیس درہم یا دو بکریاں ہیں۔اوراگر زکوٰۃ میں دو سالہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1453]
حدیث حاشیہ: اونٹ کی زکوٰۃ پانچ راس سے شروع ہوتی ہے‘ اس سے کم پر زکوٰۃ نہیں پس اس صورت میں چوبیس اونٹوں تک ایک بنت مخاض واجب ہوگی، یعنی وہ اونٹنی جو ایک سال پورا کرکے دوسرے میں لگ رہی ہو۔ اونٹنی ہو یا اونٹ۔ پھر چھتیس پر بنت لبون یعنی وہ اونٹ جو دوسال کا ہو تیسرے میں چل رہا ہو۔ پھرچھیالیس پر ایک حقہ یعنی وہ اونٹ جو تین سال کا ہوکر چوتھے میں چل رہا ہو۔ پھر اکسٹھ پر جذعہ یعنی وہ اونٹ جو چار سال کا ہوکر پانچویں میں چل رہا ہو۔ حضرت امام بخاری یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ اونٹ کی زکوٰۃ مختلف عمر کے اونٹ جو واجب ہوئے ہیں اگر کسی کے پاس اس عمر کا اونٹ نہ ہو جس کا دینا صدقہ کے طورپر واجب ہوا تھا تو اس سے کم یا زیادہ عمر والا اونٹ بھی لیا جاسکے گا؟ مگر کم دینے کی صورت میں خود اپنی طرف سے اور زیادہ دینے کی صورت میں صدقہ وصول کرنے والے کی طرف سے روپیہ یا کوئی اور چیز اتنی مالیت کی دی جائے گی جس سے اس کمی یا زیادتی کا حق ادا ہوجائے۔ جیسا کہ تفصیلات حدیث مذکورہ میں دی گئی ہیں اور مزید تفصیلات حدیث ذیل میں آرہی ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1453
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1454
1454. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے جب انھیں (زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے) بحرین کی جانب روانہ کیا تویہ دستاویز لکھ کر دی تھی: شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ یہ احکام صدقہ ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کے لیے مقرر فرمائے ہیں۔ اور جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو حکم دیا ہے، لہذا جس مسلمان سے اس تحریر کے مطابق زکوٰۃ کامطالبہ کیا جائے وہ اسے ادا کرے اور جس سے زیادہ کا مطالبہ کیا جائے وہ اضافہ نہ اداکرے۔ (اس کی تفصیل بایں طور پر ہے کہ)”چوبیس اونٹ یا اس سے کم تعداد پر ہر پانچ میں ایک بکری فرض ہے، پچیس سے پینتیس تک یکسالہ مادہ اونٹنی (بنت مخاض) چھتیس سے پینتالیس تک دو سالہ مادہ اونٹنی(بنت لبون) چھیالیس سے ساٹھ تک تین سالہ مادہ اونٹنی (حقہ) جو قابل جفتی ہو۔ اکسٹھ سے پچھتر تک چار سالہ مادہ اونٹنی(جذعہ) چھہتر سے نوے تک دو عدد دو سالہ مادہ اونٹنیاں (بنت لبون) اکانوے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1454]
حدیث حاشیہ: زکوٰۃ ان ہی گائے‘ بیل یا اونٹوں یا بکریوں میں واجب ہے جو آدھے برس سے زیادہ جنگل میں چرلیتی ہوں اور اگر آدھے برس سے زیادہ ان کو گھر سے کھلانا پڑتا ہے تو ان پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ اہلحدیث کے نزدیک سوا ان تین جانوروں یعنی اونٹ‘ گائے‘ بکری کے سوا اور کسی جانور میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ مثلاً گھوڑوں یا خچروں یا گدھوں میں۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1454
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1448
1448. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ نے انھیں زکوٰۃ کے وہ احکام لکھ کر دیے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ پر نازل فرمائے تھے (ان میں یہ بھی تھا) کہ”جس کسی پر صدقے میں ایک برس کی اونٹنی فرض ہو اور وہ اس کے پاس نہ ہو اور اس کے پاس دو برس کی اونٹنی ہوتو اس میں وہی قبول کرلی جائے اور صدقہ وصول کرنے والا بیس درہم یا دو بکریاں اسے واپس دے۔ اور اگر ایک سالہ اونٹنی زکوٰۃ میں مطلوب ہو اور وہ اس کے پاس نہ ہوبلکہ اس کے پاس دو سال کا نر اونٹ ہوتو وہی قبول کرلیاجائے مگر اس صورت میں اسے کوئی چیز واپس نہ کی جائے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1448]
حدیث حاشیہ: امام بخاری ؒ کے نزدیک سونے چاندی کے بجائے دیگر مال و اسباب کا بطور زکاۃ لینا دینا جائز ہے۔ اسے بایں طور ثابت کیا ہے کہ مذکورہ حدیث میں ایک جانور کے بدلے دوسرا جانور زکاۃ میں دینا ثابت ہے اور زکاۃ وصول کرنے والے کی طرف سے زیادہ نفیس اونٹنی زکاۃ کے طور پر لینا ثابت ہے جو واجب سے زیادہ ہے اور اس کے بدلے درہم اور بکریاں واپس کرنا بھی ثابت ہے تو سامان وغیرہ لینے میں کیا حرج ہے؟ لیکن امام بخاری ؒ کی اس دلیل میں اتنا وزن نہیں ہے، کیونکہ اگر زکاۃ میں قیمت وغیرہ کا لحاظ ہوتا تو مختلف جانوروں کی عمروں کا تعین بے سود ٹھہرتا ہے۔ جب شارع ؑ نے جانوروں کی عمریں متعین کر دی ہیں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ انہی کا ادا کرنا ضروری ہے، ان کے بجائے قیمت ادا کرنا صحیح نہیں۔ مذکورہ حدیث میں ایک استثنائی صورت بوقت مجبوری اختیار کی گئی ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1448
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1453
1453. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے انھیں وہ فرائض زکوٰۃ لکھ کر دیے جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو حکم دیا تھا(وہ احکام یہ تھے:)”جس کے اونٹ اس تعداد کو پہنچ جائیں کہ ان کی زکوٰۃ چار سالہ اونٹ کابچہ ہو جبکہ اس کے پاس چار سالہ بچہ نہ ہو بلکہ تین سالہ ہوتو اس سے تین سالہ بچہ لے لیا جائے اور اس کے ساتھ دو بکریاں بھی لے لی جائیں گی بشرط یہ کہ آسانی سے میسر ہوں، بصورت دیگر بیس درہم وصول کرلیے جائیں۔ اور جس کے ذمے تین سالہ بچہ ہو لیکن اس کے پاس تین سالہ کے بجائے چار سالہ ہوتو اس سے چار سالہ وصول کرلیاجائے اور صدقہ وصول کرنے والا اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس کرے۔ اوراگر زکوٰۃ میں تین سالہ بچہ فرض ہو اور اس کے پاس تین سالہ کے بجائے دو سالہ مادہ بچہ ہوتو وہی قبول کرلیا جائے اور وہ(مال کا مالک) مزید اس کے ساتھ بیس درہم یا دو بکریاں ہیں۔اوراگر زکوٰۃ میں دو سالہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1453]
حدیث حاشیہ: (1) ان کمی بیشی والی صورتوں میں بیس درہم یا دو بکریوں میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا دینے والے کی ذمہ داری ہے، خواہ وہ مالک ہو یا وصول کنندہ۔ لینے والا اپنی مرضی سے کسی ایک کو لینے کا مجاز نہیں۔ اس حدیث کو سمجھنے کے لیے چند ایک اصطلاحات کی وضاحت ضروری ہے۔ ٭ بنت مخاض: ایسی اونٹنی جس کی عمر کا پہلا سال مکمل ہو کر دوسرا شروع ہو چکا ہو اور اس کی ماں حمل کے قابل ہو جائے۔ ٭ ابن لبون: وہ اونٹ جو دو سال مکمل کر کے تیسرے سال میں داخل ہو چکا ہو۔ ٭ بنت لبون: ایسی اونٹنی جو دو سال پورے کر کے تیسرے سال میں قدم رکھ چکی ہو۔ ٭ حقہ: وہ اونٹنی جو تین سال پورے کر کے چوتھے سال میں داخل ہو چکی ہو۔ ٭ جذعہ: ایسی اونٹنی جو چار سال مکمل کر کے پانچویں سال میں پہنچ چکی ہو۔ (2) اس حدیث کا تقاضا ہے کہ زکاۃ کے طور پر جو جانور واجب ہو اور وہ میسر ہو تو وہی ادا کرنا ضروری ہے۔ اگر وہ دستیاب نہ ہو تو اس سے اچھا یا کمتر لیا جا سکتا ہے اور کمی بیشی کو بیس درہم یا دو بکریوں سے پورا کیا جائے گا۔ امام بخاری ؒ نے جو عنوان قائم کیا ہے کہ اگر بطور زکاۃ یکسالہ اونٹنی (بنت مخاض) دینی ضروری ہو اور وہ اسے دستیاب نہ ہو تو کیا کیا جائے؟ اس کا مذکورہ حدیث میں کوئی ذکر نہیں جبکہ اس صورت کا بیان ایک دوسری حدیث میں ہوا ہے کہ جس کسی پر صدقے میں یکسالہ اونٹنی فرض ہو اور وہ اس کے پاس نہ ہو بلکہ اس کے پاس دو سالہ اونٹنی ہو تو وہی قبول کر لی جائے اور صدقہ وصول کرنے والا اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس کرے۔ اگر دو سالہ اونٹنی کے بجائے دو سال کا نر اونٹ اس کے پاس ہو تو وہی قبول کر لیا جائے مگر اس صورت میں صدقہ وصول کرنے والا کوئی چیز واپس نہیں کرے گا۔ (حدیث: 1448)(3) اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یکسالہ اونٹنی (بنت مخاض) دستیاب نہ ہونے کی صورت کا حل جب ایک حدیث میں واضح طور پر موجود تھا تو امام بخاری نے ایک ایسی حدیث کا انتخاب کیوں کیا جس میں واضح طور پر اس کا ذکر نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ امام بخاری کی بیان کردہ اس حدیث کے مطابق بنت مخاص، بنت لبون، حقہ اور جذعہ کے مابین ایک ایک درجے کا فرق ہے اور ایک درجے کے فرق کو بیس درہم یا دو بکریوں سے پورا کیا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بنت مخاض کی عدم موجودگی میں اگر بنت لبون میسر ہو تو بیس درہم یا دو بکریوں، اگر حقہ دستیاب ہو تو چالیس درہم یا چار بکریوں اور اگر جذعہ موجود ہو تو ساٹھ درہم یا چھ بکریوں سے اس کمی بیشی کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ اس نکتہ آفرینی کی بنا پر امام بخاری نے مذکورہ حدیث کا انتخاب کیا ہے۔ (فتح الباري: 399/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1453
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1454
1454. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے جب انھیں (زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے) بحرین کی جانب روانہ کیا تویہ دستاویز لکھ کر دی تھی: شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ یہ احکام صدقہ ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کے لیے مقرر فرمائے ہیں۔ اور جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو حکم دیا ہے، لہذا جس مسلمان سے اس تحریر کے مطابق زکوٰۃ کامطالبہ کیا جائے وہ اسے ادا کرے اور جس سے زیادہ کا مطالبہ کیا جائے وہ اضافہ نہ اداکرے۔ (اس کی تفصیل بایں طور پر ہے کہ)”چوبیس اونٹ یا اس سے کم تعداد پر ہر پانچ میں ایک بکری فرض ہے، پچیس سے پینتیس تک یکسالہ مادہ اونٹنی (بنت مخاض) چھتیس سے پینتالیس تک دو سالہ مادہ اونٹنی(بنت لبون) چھیالیس سے ساٹھ تک تین سالہ مادہ اونٹنی (حقہ) جو قابل جفتی ہو۔ اکسٹھ سے پچھتر تک چار سالہ مادہ اونٹنی(جذعہ) چھہتر سے نوے تک دو عدد دو سالہ مادہ اونٹنیاں (بنت لبون) اکانوے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1454]
حدیث حاشیہ: مویشی، یعنی چوپایوں میں زکاۃ فرض ہے جن کی مندرجہ ذیل اقسام ہیں: ٭ اونٹ۔ ٭ گائے (اس میں بھینس بھی شامل ہے۔ ) ٭ بکری (اس میں بھیڑ اور دنبہ بھی شامل ہے۔ ) ان کی زکاۃ کے لیے مندرجہ ذیل شرائط ہیں: ٭ نصاب: زکاۃ کے لیے حیوانات کا الگ الگ نصاب ہے، چنانچہ اونٹوں کے لیے کم از کم پانچ، گائے اور بھینس کے لیے کم از کم تیس اور بکری، بھیڑ وغیرہ کے لیے کم از کم چالیس کی تعداد مقرر ہے۔ ٭ سال گزرنا: ان پر سال گزر جائے، دوران سال میں جو بچے وغیرہ پیدا ہوں ان پر سال گزرنا ضروری نہیں بلکہ وہ اپنی ماؤں کے تابع ہوں گے۔ ٭ چرنے والی: وہ جنگلات میں چرنے والے ہوں، سال کا اکثر حصہ باہر چرنے میں گزرے، اگر ان کے چارے وغیرہ کا بندوبست محنت و مشقت سے کرنا پڑے تو ایسے جانوروں میں زکاۃ نہیں۔ عصرِ حاضر میں جانوروں کا فارم سسٹم متعارف ہوا ہے جس میں اخراجات کے ساتھ ساتھ افزائش بھی زیادہ ہوتی ہے۔ یہ جانور اگرچہ صرف چرنے پر گزارہ نہیں کرتے لیکن ان فارم والے جانوروں کا حکم بھی چرنے والے جانوروں کا ہو گا۔ ٭ اونٹوں اور بیلوں وغیرہ کے لیے یہ ایک اضافی شرط ہے کہ وہ بار برداری اور کاشت کاری کے لیے نہ ہوں۔ بکریوں کے متعلق زکاۃ کی تفصیل ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ اگر کوئی شخص نصاب سے کم مال ہونے کے باوجود زکاۃ ادا کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ اونٹوں پر زکاۃ کی تفصیل حسب ذیل ہے: 1) 1 تا 4 اونٹوں میں کوئی زکاۃ نہیں۔ 2) 5 تا 9 اونٹوں میں ایک بکری۔ 3) 10 تا 14 اونٹوں میں دو بکریاں۔ 4) 15 تا 19 اونٹوں میں تین بکریاں۔ 5) 20 تا 24 اونٹوں میں چار بکریاں۔ 6) 25 تا 35 اونٹوں میں ایک بنت مخاض۔ 7) 36 تا 45 اونٹوں میں ایک بنت لبون۔ 8) 46 تا 60 اونٹوں میں ایک حقہ۔ 9) 61 تا 75 اونٹوں میں ایک جذعہ۔ 10) 76 تا 90 اونٹوں میں دو بنت لبون۔ 11) 91 تا 120 اونٹوں میں دو حقے۔ 120 اونٹوں سے زیادہ کے لیے یہ ضابطہ ہے کہ ہر چالیس کی تعداد پر ایک بنت لبون اور ہر پچاس پر ایک حقہ ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1454