(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثني محمد بن عبد الله الانصاري، حدثنا صرد بن ابي المنازل، قال: سمعت حبيبا المالكي، قال: قال رجل لعمران بن حصين: يا ابا نجيد، إنكم لتحدثوننا باحاديث ما نجد لها اصلا في القرآن، فغضب عمران، وقال للرجل: اوجدتم في كل اربعين درهما درهم، ومن كل كذا وكذا شاة شاة، ومن كل كذا وكذا بعيرا كذا وكذا اوجدتم هذا في القرآن، قال: لا، قال: فعن من اخذتم هذا؟ اخذتموه عنا واخذناه عن نبي الله صلى الله عليه وسلم، وذكر اشياء نحو هذا. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا صُرَدُ بْنُ أَبِي الْمَنَازِلِ، قَالَ: سَمِعْتُ حَبِيبًا الْمَالِكِيَّ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ: يَا أَبَا نُجَيْدٍ، إِنَّكُمْ لَتُحَدِّثُونَنَا بِأَحَادِيثَ مَا نَجِدُ لَهَا أَصْلًا فِي الْقُرْآنِ، فَغَضِبَ عِمْرَانُ، وَقَالَ لِلرَّجُلِ: أَوَجَدْتُمْ فِي كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمٌ، وَمِنْ كُلِّ كَذَا وَكَذَا شَاةً شَاةٌ، وَمِنْ كُلِّ كَذَا وَكَذَا بَعِيرًا كَذَا وَكَذَا أَوَجَدْتُمْ هَذَا فِي الْقُرْآنِ، قَالَ: لَا، قَالَ: فَعَنْ مَنْ أَخَذْتُمْ هَذَا؟ أَخَذْتُمُوهُ عَنَّا وَأَخَذْنَاهُ عَنْ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرَ أَشْيَاءَ نَحْوَ هَذَا.
حبیب مالکی کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے کہا: ابونجید! آپ ہم لوگوں سے بعض ایسی حدیثیں بیان کرتے ہیں جن کی کوئی اصل ہمیں قرآن میں نہیں ملتی، عمران رضی اللہ عنہ غضب ناک ہو گئے، اور اس شخص سے یوں گویا ہوئے: کیا قرآن میں تمہیں یہ ملتا ہے کہ ہر چالیس درہم میں ایک درہم (زکاۃ) ہے یا اتنی اتنی بکریوں میں ایک بکری زکاۃ ہے یا اتنے اونٹوں میں ایک اونٹ زکاۃ ہے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ نے پوچھا: پھر تم نے یہ کہاں سے لیا؟ تم نے ہم سے لیا اور ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے، اس کے بعد ایسی ہی چند اور باتیں ذکر کیں ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی بہت سے دینی مسائل و احکام قرآن مجید میں نہیں ہیں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں میں بیان کئے گئے ہیں، تو جس طرح قرآن کی پیروی ضروری ہے اسی طرح حدیث کی پیروی بھی ضروری ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے «ألا إني أوتيت القرآن ومثله معه»”مجھے قرآن ملا ہے، اور اسی کے ساتھ اسی جیسا اور بھی دیا گیا ہوں“ یعنی حدیث شریف، پس حدیث قرآن ہی کی طرح لائق حجت و استناد ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 10791) (ضعیف)» (اس کے دو راوی صرد اور حبیب لین الحدیث ہیں)
Habib al-Maliki said: A man said to Imran ibn Husayn: Abu Nujayd, you narrate to us traditions whose basis we do not find in the Quran. Thereupon, Imran got angry and said to the man: Do you find in the Quran that one dirham is due on forty dirhams (as Zakat), and one goat is due on such-and-such number of goats, and one camel will be due on such-and-such number of camels? He replied: No. He said: From whom did you take it? You took it from us, from the Messenger of Allah ﷺ. He mentioned many similar things.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1556
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف صرد بن أبي المنازل و حبيب بن أبي فضلان مستوران (مجھولا الحال) و روي ابن حبان في الثقات (248/7) بسند حسن عن الحسن البصري قال: ”بينما نحن عند عمران بن حصين إذ قال له رجل: يا أبا نجيد! حدثنا بالقرآن،قال: أليس تقرأ القرآن ﴿ اقيموا الصلاة و اٰتوا الزكوة ﴾ أكنتم تعرفون مواقيتھا و ركوعھا و سجودھا و حدودھا؟ أكنت تدري كم الزكاة في الورق و الذھب والإبل والغنم و أصناف المال؟ شھدت و وعيت فرض رسول اللّٰه ﷺ الزكاة كذا و كذا،فقال الرجل: أحييتني أحياك اللّٰه أبا نجيد! قال: فما مات (ذلك) الرجل حتي صار من فقھاء المسلمين‘‘ وسنده حسن وھذا يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 62
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1561
1561. اردو حاشیہ: اس میں یہ اشارہ ہے کہ فتنہ انکار حدیث ایک قدیم فتنہ ہے جس کی ابتدا دور صحابہ ؓ کے آخر میں ہو گئی تھی۔ بلاشبہ اکثر فروعات ہمیں صحیح احادیث ہی میں ملتی ہیں۔ قرآن حکیم نے اصول ذکر کیے ہین اور کہیں کہین اہم فروع بھی۔ اس حدیث میں صحابی رسول حضرت عمران نے نہایت جامعیت اور ایجاز سے فتنہ انکار حدیث کی بیخ کنی کردی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1561