سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابي داود تفصیلات

سنن ابي داود
کتاب: وتر کے فروعی احکام و مسائل
Prayer (Kitab Al-Salat): Detailed Injunctions about Witr
22. باب أُنْزِلَ الْقُرْآنُ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ
22. باب: قرآن مجید کے سات حرف پر نازل ہونے کا بیان۔
Chapter: ’Allah Revealed The Qur’an According To Seven Ahruf’.
حدیث نمبر: 1477
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا همام بن يحيى، عن قتادة، عن يحيى بن يعمر، عن سليمان بن صرد الخزاعي، عن ابي بن كعب، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" يا ابي، إني اقرئت القرآن، فقيل لي: على حرف او حرفين؟، فقال الملك الذي معي: قل: على حرفين، قلت: على حرفين، فقيل لي: على حرفين او ثلاثة؟، فقال الملك الذي معي: قل: على ثلاثة، قلت: على ثلاثة، حتى بلغ سبعة احرف، ثم قال: ليس منها إلا شاف كاف، إن قلت سميعا عليما عزيزا حكيما ما لم تختم آية عذاب برحمة، او آية رحمة بعذاب".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ صُرَدٍ الْخُزَاعِيِّ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أُبَيُّ، إِنِّي أُقْرِئْتُ الْقُرْآنَ، فَقِيلَ لِي: عَلَى حَرْفٍ أَوْ حَرْفَيْنِ؟، فَقَالَ الْمَلَكُ الَّذِي مَعِي: قُلْ: عَلَى حَرْفَيْنِ، قُلْتُ: عَلَى حَرْفَيْنِ، فَقِيلَ لِي: عَلَى حَرْفَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةٍ؟، فَقَالَ الْمَلَكُ الَّذِي مَعِي: قُلْ: عَلَى ثَلَاثَةٍ، قُلْتُ: عَلَى ثَلَاثَةٍ، حَتَّى بَلَغَ سَبْعَةَ أَحْرُفٍ، ثُمَّ قَالَ: لَيْسَ مِنْهَا إِلَّا شَافٍ كَافٍ، إِنْ قُلْتَ سَمِيعًا عَلِيمًا عَزِيزًا حَكِيمًا مَا لَمْ تَخْتِمْ آيَةَ عَذَابٍ بِرَحْمَةٍ، أَوْ آيَةَ رَحْمَةٍ بِعَذَابٍ".
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابی! مجھے قرآن پڑھایا گیا، پھر مجھ سے پوچھا گیا: ایک حرف پر یا دو حرف پر؟ میرے ساتھ جو فرشتہ تھا، اس نے کہا: کہو: دو حرف پر، میں نے کہا: دو حرف پر، پھر مجھ سے پوچھا گیا: دو حرف پر یا تین حرف پر؟ اس فرشتے نے جو میرے ساتھ تھا، کہا: کہو: تین حرف پر، چنانچہ میں نے کہا: تین حرف پر، اسی طرح معاملہ سات حروف تک پہنچا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان میں سے ہر ایک حرف شافی اور کافی ہے، چا ہے تم «سميعا عليما» کہو یا «عزيزا حكيما» جب تک تم عذاب کی آیت کو رحمت پر اور رحمت کی آیت کو عذاب پر ختم نہ کرو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابوداود، (تحفة الأشراف:25)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5 /124، 127، 128) (صحیح)» ‏‏‏‏

Ubayy bin Kab reported: The Prophet ﷺ said: "Ubayy, I was asked to recite the Quran and I was asked: 'In one mode or two modes?' The angel that accompanied me said: 'Say, in two modes', I said: 'In two modes', I was asked again: 'In two or three modes'. The matter reached up to seven modes. He then said: 'Each mode is sufficiently health-giving, whether you utter 'all-hearing and all-knowing' or instead 'all-powerful and all-wise'. This is valid until you finish the verse indicating punishment on mercy and finish the verse indicating mercy on punishment. "
USC-MSA web (English) Reference: Book 8 , Number 1472


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
قتادة عنعن ولحديثه شاهد صحيح دون قوله: ”سميعًا عليمًا،عزيزًا حكيمًا“
تعديلات:
وحديث المشكوة (2215) صحيح بالشواهد
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 59

   سنن النسائى الصغرى941أبي بن كعبأنزل القرآن على سبعة أحرف كلهن شاف كاف
   سنن النسائى الصغرى942أبي بن كعببلغ سبعة أحرف كل حرف شاف كاف
   صحيح مسلم1904أبي بن كعباقرأه على سبعة أحرف لك بكل ردة رددتكها مسألة تسألنيها فقلت اللهم اغفر لأمتي اللهم اغفر لأمتي وأخرت الثالثة
   صحيح مسلم1906أبي بن كعبالله يأمرك أن تقرأ أمتك القرآن على حرف أسأل الله معافاته ومغفرته وإن أمتي لا تطيق ذلك ثم أتاه الثانية فقال إن الله يأمرك أن تقرأ أمتك القرآن على حرفين فقال أسأل الله معافاته ومغفرته وإن أمتي لا تطيق ذلك ثم جاءه الثالثة فقال إن الله يأمرك أن تقرأ أمتك القر
   جامع الترمذي2944أبي بن كعبالقرآن أنزل على سبعة أحرف
   سنن أبي داود1477أبي بن كعببلغ سبعة أحرف ليس منها إلا شاف كاف إن قلت سميعا عليما عزيزا
   سنن أبي داود1478أبي بن كعبتقرئ أمتك على سبعة أحرف أيما حرف قرءوا عليه فقد أصابوا
   المعجم الصغير للطبراني1077أبي بن كعباقرأ القرآن على سبعة

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1477 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1477  
1477. اردو حاشیہ: یہ روایت شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک صحیح ہے۔ تاہم اواخر آیات میں صفات الٰہیہ میں تغیر کی رخصت صرف رسول اللہ ﷺ ہی کو حاصل تھی۔ امت میں سے کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔ رسول اللہﷺ سے ثابت شدہ متواتر قراءت کا التزام واجب ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1477   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 942  
´قرآن سے متعلق جامع باب۔`
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا تو میرے دل میں کوئی خلش پیدا نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ میں نے ایک آیت پڑھی، اور دوسرے شخص نے اسے میری قرآت کے خلاف پڑھا، تو میں نے کہا: مجھے یہ آیت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی ہے، تو دوسرے نے بھی کہا: مجھے بھی یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی پڑھائی ہے، بالآخر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور میں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! آپ نے مجھے یہ آیت اس اس طرح پڑھائی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اور دوسرے شخص نے کہا: کیا آپ نے مجھے ایسے ایسے نہیں پڑھایا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! جبرائیل اور میکائیل علیہما السلام دونوں میرے پاس آئے، جبرائیل میرے داہنے اور میکائیل میرے بائیں طرف بیٹھے، جبرائیل علیہ السلام نے کہا: آپ قرآن ایک حرف پر پڑھا کریں، تو میکائیل نے کہا: آپ اسے (اللہ سے) زیادہ کرا دیجئیے یہاں تک کہ وہ سات حرفوں تک پہنچے، (اور کہا کہ) ہر حرف شافی و کافی ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 942]
942 ۔ اردو حاشیہ: جب بھی کسی مسئلے میں اختلاف ہو جائے تواللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرنا چاہیے، یعنی قرآن و سنت سے رہنمائی لینی چاہیے، اپنے اجتہادات اور قیاس آرائیاں نہیں کرنی چاہئیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 942   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1904  
حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ میں مسجد میں تھا کہ ایک آدمی آ کر نماز پڑھنے لگا اور اس نے ایسی قراءت کی جو میرے لئے غیر مانوس اور اجنبی تھی۔ پھر ایک اور آدمی آیا، اس نے ایسے انداز سے قراءت کی جو پہلے آدمی سے جدا تھی، جب ہم سب نماز سے فارغ ہوئے تو ہم سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو میں نے عرض کیا، اس نے ایسے لہجے اور انداز سے قراءت کی جو میرے لئے غیر مانوس اور اجنبی تھی،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1904]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
سُقِطَ فِيْ نَفْسِيْ مِنَ التَّكْذِيْبِ وَلَا إِذْ كُنْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ:
جب آپﷺ نے دونوں آدمیوں کی قراءت کی تحسین فرمائی تو میرے دل میں شیطان نے آپﷺ کی تکذیب کا اس شدت اور زور سے وسوسہ پیدا کیا کہ اتنا شدید وسوسہ جاہلیت کے دور میں بھی میرے دل میں پیدا نہیں ہوا تھا۔
(2)
ضَرَبَ فِيْ صَدْرِيْ:
(جب آپﷺ نے میرے چہرے سے میرے دل کی کیفیت بھانپ لی،
تو میرے دل سے شیطانی وسوسے اور حق کے بارے میں اس کے پیدا کردہ شک و شبہ کو دور کرنے کے لیے)

میرے سینہ پر ہاتھ مارا،
تاکہ مجھے اطمینان اور تسکین حاصل ہو جائے۔
(3)
فَفِضْتُ عَرَقاً:
تو میں اللہ کے ڈر اور خوف سے پسینہ سے شرابور ہو گیا،
اور میری تمام حیرت اور پریشانی ختم ہو گئی اور میرا دل آپﷺ کی حقانیت پر جم گیا۔
(4)
مَسْأَلَةٌ تَسْأَلُنِيْهَا:
اپنی ہر عرض اور ہر درخواست پر ایک ایک دعا مانگ سکتے ہو،
جس کی قبولیت قطعی اور یقینی ہے،
آپﷺ نے تین دفعہ درخواست کی تھی۔
اس لیے دو دفعہ اپنی امت کے لیے مغفرت کی دعا کی اور تیسری عرض کی دعا کو قیامت کے لیے شفاعت کبریٰ کے لیے محفوظ کر لیا۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث میں پہلی دفعہ کو نظرانداز کر دیا گیا ہے کیونکہ اس میں جبریل علیہ السلام آئے تھے اور بعد میں آپﷺ کے سوال کرنے پر،
جا کر پوچھ کر آتے رہے ہیں،
آگے اس دفعہ کو شمار کیا گیا تو چوتھی دفعہ آنے کا تذکرہ کیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1904   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.