ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جو شخص قرآن پڑھتا ہو اور اس میں ماہر ہو تو وہ بڑی عزت والے فرشتوں اور پیغمبروں کے ساتھ ہو گا اور جو شخص اٹک اٹک کر پریشانی کے ساتھ پڑھے تو اسے دہرا ثواب ملے گا“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر القرآن 79 (4937)، صحیح مسلم/المسافرین 38 (798)، سنن الترمذی/فضائل القرآن 13 (2904)، ن الکبری / فضائل القرآن (8045، 8046)، سنن ابن ماجہ/الأدب 52 (3779)، (تحفة الأشراف: 16102)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/48، 94، 98، 110، 170، 192، 239، 266)، سنن الدارمی/فضائل القرآن 11 (3411) (صحیح)»
Aishah reported the Prophet ﷺ as saying: One who is skilled in the Quran is associated with the noble, upright recording angels, and he who falters when he recites the Quran and finds it difficult for him will have a double reward.
USC-MSA web (English) Reference: Book 8 , Number 1449
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (4937) صحيح مسلم (897)
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3779
´تلاوت قرآن کے ثواب کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص قرآن کے پڑھنے میں ماہر ہو، وہ معزز اور نیک سفراء (فرشتوں) کے ساتھ ہو گا، اور جو شخص قرآن کو اٹک اٹک کر پڑھتا ہو اور اسے پڑھنے میں مشقت ہوتی ہو تو اس کو دو گنا ثواب ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3779]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) قرآن کے ماہر سے مراد حافظ اور تجوید کے ساتھ پڑھنے والا قاری یا عالم باعمل ہے۔
(2) جو شخص تجوید کے ساتھ روانی سے نہیں پڑھ سکتا، اس کے باوجود شوق سے پڑھتا ہے، اور پڑھنے میں جو مشقت ہوتی ہے اسے برداشت کرتا ہے، اس کے لیے دگنا ثواب ہے۔ اس میں ان معمر حضرات کے لیے بڑی خوشخبری ہے جن کی زبان موٹی ہو جاتی ہے تو وہ کوشش کے باوجود صحت مخارج اور صفات حروف کا لحاظ رکھ کر الفاظ ادا نہیں کر سکتے، لہذا وہ تلاوت ترک نہ کریں بلکہ یہ عمل صالح جاری رکھیں۔
(3) خلوص نیت کے ساتھ ادا کیا ہوا ناقص عمل بھی اللہ تعالی ٰ کو بہت پیارا ہے، جب وہ عمل نقص کے بغیر ادا کرنا ممکن نہ ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3779
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2904
´قرآن کے قاری کی فضیلت کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور قرآن پڑھنے میں مہارت رکھتا ہے وہ بزرگ پاکباز فرشتوں کے ساتھ ہو گا، اور جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور بڑی مشکل سے پڑھ پاتا ہے، پڑھنا اسے بہت شاق گزرتا ہے تو اسے دہرا اجر ملے گا“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2904]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: قرآن پڑھنے میں مہارت رکھنے والا ہو یعنی حافظ قرآن ہونے کے ساتھ قرآن کو تجوید اور اچھی آواز سے پڑھنے والا ہو، ایسا شخص نیکو کار بزرگ فرشتوں کے ساتھ ہو گا، اور جو مشقت کے ساتھ اٹک اٹک کر پڑھتا ہے اور اسے قرآن پڑھنے کا ذوق وشوق ہے تو اسے اس مشقت کی وجہ سے دگنا اجر ملے گا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2904
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1862
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے قرآن مجید میں مہارت پیدا کرلی، (اور اس کی بنا پر قرآن کو بے تکلف رواں پڑھنے لگا) وہ معزز اور فرمانبردار فرشتوں کے ساتھ ہوگا۔ اور جو انسان قرآن مجید پڑھتا ہے اور(مہارت نہ ہونے کی وجہ سے زحمت اور مشقت کے ساتھ) اس میں اٹکتا ہے اور دشواری محسوس کرتا ہے اس کو دو اجر ملیں گے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:1862]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) اَلْمَاهِرُ بِالْقُرْآن: جو قرآن مجید کے لفظ اور پڑھنے میں ماہر اور پختہ ہو۔ حفظ و اتقان کی وجہ سے قراءت کرنے میں لکنت اور زحمت نہیں ہوتی۔ (2) اَلسَّفَرَةُ الْكِرَامُ الْبَرَرَةُ: سفرة، سافر کی جمع ہے مسافر، رسول اور ایلچی کو کہتے ہیں یا لکھنے والے اور اس سے مراد فرشتے ہیں۔ (3) اَلكِرَامُ: كريم کی جمع ہے، معزز و محترم، اَلْبَرَرَةِ، بَارٌّ کی جمع ہے خوب کار وفادار اور اطاعت شعار۔ (4) يَتَتَعْتَعُ فِيْهِ: اس میں اٹکتا ہے، توقف کرتا ہے، عدم مہارت کی بنا پر روانی پیدا نہیں ہوتی۔ فوائد ومسائل: اللہ تعالیٰ کے جو بندے قرآن کو اللہ کا کلام یقین کرتے ہوئے اس سے شغف و تعلق رکھتے ہیں اگر کثرت تلاوت اور اس کے اہتمام کی وجہ سے اس میں مہارت حاصل کر کے بے تکلف رواں پڑھتے ہیں، اس کے مطالب و معانی پر غور و فکر کرتے ہیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو معزز و محترم حامل وحی فرشتوں کی رفاقت و معیت کی سعادت حاصل ہو گی لیکن جو بندے ایمان کے تقاضے کی بنا پر قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں لیکن صلاحیت ومہارت کی کمی کی وجہ سے تکلف کے ساتھ اٹک اٹک کر پڑھتے ہیں اور اجرو ثواب کے حصول کی خاطر، پڑھنے میں زحمت و مشقت برداشت کرتے ہیں ان کو بھی دل برداشتہ یا شکستہ دل ہونے کی ضرورت نہیں ہے ان کو تلاوت کے اجرو ثواب کے ساتھ زحمت و مشقت اٹھانے کا الگ ثواب ملتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1862
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4937
4937. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”اس شخص کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اور وہ اس کا حافظ بھی ہے، مکرم اور نیک لکھنے والے (فرشتوں) جیسی ہے اور جو شخص قرآن مجید بار بار پڑھتا ہے اور وہ اس کے لیے دشوار ہے تو اسے دو گنا ثواب ملے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4937]
حدیث حاشیہ: بعض لوگوں کی زبانوں پر الفاظ قرآن پاک جلدی نہیں چڑھتے اور ان کو باربار مشق کی ضرورت پڑتی ہے۔ ان ہی کے لئے دوگنا ثواب ہے کیونکہ وہ کافی مشقت کے بعد قراءت قرآن میں کامیاب ہوتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4937
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4937
4937. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”اس شخص کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اور وہ اس کا حافظ بھی ہے، مکرم اور نیک لکھنے والے (فرشتوں) جیسی ہے اور جو شخص قرآن مجید بار بار پڑھتا ہے اور وہ اس کے لیے دشوار ہے تو اسے دو گنا ثواب ملے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4937]
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک روایت میں ہے کہ قرآن مجید کا ماہر قیامت کے دن مکرم، نیک اور لکھنے والے فرشتوں کے ساتھ ہو گا۔ (صحیح مسلم، صلاہ المسافرین، حدیث: 1862(798) 2۔ قرآن کے ماہر سے مراد وہ حافظ قرآن جو قرآن مجید کو صحیح طور پر پڑھتا ہے اور دوران تلاوت میں کوئی دشواری اور مشکل محسوس نہیں کرتا، اورجو شخص قرآن کی تلاوت کرنے میں دقت محسوس کرتا ہے، اس کے با وجود پڑھتا رہتا ہے اسے دوگنا اجر ملے گا۔ ایک اجر تلاوت کرنے کا اوردوسرا اس میں تکلیف اٹھانے کا لیکن وہ ماہر قرآن کے مرتبے اور مقام کو نہیں پہنچ سکے گا کیونکہ اس کی شان ہی الگ ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس معنی کو زیادہ واضح او راجح قرار دیا ہے۔ (فتح الباري: 885/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4937