(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، في آخرين، قالوا: حدثنا يحيى بن سليم، عن إسماعيل بن كثير، عن عاصم بن لقيط بن صبرة، عن ابيه لقيط بن صبرة، قال: كنت وافد بني المنتفق او في وفد بني المنتفق إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فلما قدمنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم نصادفه في منزله وصادفنا عائشة ام المؤمنين، قال: فامرت لنا بخزيرة فصنعت لنا، قال: واتينا بقناع ولم يقل قتيبة القناع، والقناع الطبق فيه تمر، ثم جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" هل اصبتم شيئا او امر لكم بشيء؟ قال: قلنا: نعم يا رسول الله، قال: فبينا نحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم جلوس، إذ دفع الراعي غنمه إلى المراح ومعه سخلة تيعر، فقال: ما ولدت يا فلان؟ قال: بهمة، قال: فاذبح لنا مكانها شاة، ثم قال: لا تحسبن، ولم يقل لا تحسبن انا من اجلك ذبحناها لنا غنم مائة لا نريد ان تزيد، فإذا ولد الراعي بهمة ذبحنا مكانها شاة، قال: قلت: يا رسول الله، إن لي امراة وإن في لسانها شيئا يعني البذاء، قال: فطلقها إذا، قال: قلت: يا رسول الله، إن لها صحبة ولي منها ولد، قال: فمرها يقول: عظها، فإن يك فيها خير فستفعل، ولا تضرب ظعينتك كضربك اميتك، فقلت: يا رسول الله، اخبرني عن الوضوء، قال: اسبغ الوضوء وخلل بين الاصابع وبالغ في الاستنشاق، إلا ان تكون صائما". (مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، فِي آخَرِينَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ لَقِيطِ بْنِ صَبْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ لَقِيطِ بْنِ صَبْرَةَ، قَالَ: كُنْتُ وَافِدَ بَنِي الْمُنْتَفِقِ أَوْ فِي وَفْدِ بَنِي الْمُنْتَفِقِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ نُصَادِفْهُ فِي مَنْزِلِهِ وَصَادَفْنَا عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَ: فَأَمَرَتْ لَنَا بِخَزِيرَةٍ فَصُنِعَتْ لَنَا، قَالَ: وَأُتِينَا بِقِنَاعٍ وَلَمْ يَقُلْ قُتَيْبَةُ الْقِنَاعَ، وَالْقِنَاعُ الطَّبَقُ فِيهِ تَمْرٌ، ثُمَّ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" هَلْ أَصَبْتُمْ شَيْئًا أَوْ أُمِرَ لَكُمْ بِشَيْءٍ؟ قَالَ: قُلْنَا: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَبَيْنَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جُلُوسٌ، إِذْ دَفَعَ الرَّاعِي غَنَمَهُ إِلَى الْمُرَاحِ وَمَعَهُ سَخْلَةٌ تَيْعَرُ، فَقَالَ: مَا وَلَّدْتَ يَا فُلَانُ؟ قَالَ: بَهْمَةً، قَالَ: فَاذْبَحْ لَنَا مَكَانَهَا شَاةً، ثُمَّ قَالَ: لَا تَحْسِبَنَّ، وَلَمْ يَقُلْ لَا تَحْسَبَنَّ أَنَّا مِنْ أَجْلِكَ ذَبَحْنَاهَا لَنَا غَنَمٌ مِائَةٌ لَا نُرِيدُ أَنْ تَزِيدَ، فَإِذَا وَلَّدَ الرَّاعِي بَهْمَةً ذَبَحْنَا مَكَانَهَا شَاةً، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي امْرَأَةً وَإِنَّ فِي لِسَانِهَا شَيْئًا يَعْنِي الْبَذَاءَ، قَالَ: فَطَلِّقْهَا إِذًا، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لَهَا صُحْبَةً وَلِي مِنْهَا وَلَدٌ، قَالَ: فَمُرْهَا يَقُولُ: عِظْهَا، فَإِنْ يَكُ فِيهَا خَيْرٌ فَسَتَفْعَلْ، وَلَا تَضْرِبْ ظَعِينَتَكَ كَضَرْبِكَ أُمَيَّتَكَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنِي عَنِ الْوُضُوءِ، قَالَ: أَسْبِغْ الْوُضُوءَ وَخَلِّلْ بَيْنَ الْأَصَابِعِ وَبَالِغْ فِي الِاسْتِنْشَاقِ، إِلَّا أَنْ تَكُونَ صَائِمًا".
لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں بنی منتفق کے وفد کا سردار بن کر یا بنی منتفق کے وفد میں شریک ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا، جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ گھر میں نہیں ملے، ہمیں صرف ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا ملیں، انہوں نے ہمارے لیے خزیرہ ۱؎ تیار کرنے کا حکم کیا، وہ تیار کیا گیا، ہمارے سامنے تھالی لائی گئی۔ (قتیبہ نے اپنی روایت میں «قناع» کا لفظ نہیں کہا ہے، «قناع» کھجور کی لکڑی کی اس تھالی و طبق کو کہتے ہیں جس میں کھجور رکھی جاتی ہے)۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور پوچھا: ”تم لوگوں نے کچھ کھایا؟ یا تمہارے کھانے کے لیے کوئی حکم دیا گیا؟“، ہم نے جواب دیا: ہاں، اے اللہ کے رسول! ہم لوگ آپ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ یکایک چرواہا اپنی بکریاں باڑے کی طرف لے کر چلا، اس کے ساتھ ایک بکری کا بچہ تھا جو ممیا رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس سے) پوچھا: ”اے فلاں! کیا پیدا ہوا (نر یا مادہ)؟“، اس نے جواب دیا: مادہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اس کے جگہ پر ہمارے لیے ایک بکری ذبح کرو“۔ پھر (لقیط سے) فرمایا: یہ نہ سمجھنا کہ ہم نے اسے تمہارے لیے ذبح کیا ہے، بلکہ (بات یہ ہے کہ) ہمارے پاس سو بکریاں ہیں جسے ہم بڑھانا نہیں چاہتے، اس لیے جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو ہم اس کی جگہ ایک بکری ذبح کر ڈالتے ہیں۔ لقیط کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے رسول! میری ایک بیوی ہے جو زبان دراز ہے (میں کیا کروں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تب تو تم اسے طلاق دے دو“۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایک مدت تک میرا اس کا ساتھ رہا، اس سے میری اولاد بھی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اسے تم نصیحت کرو، اگر اس میں بھلائی ہے تو تمہاری اطاعت کرے گی، اور تم اپنی عورت کو اس طرح نہ مارو جس طرح اپنی لونڈی کو مارتے ہو“۔ پھر میں نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے وضو کے بارے میں بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وضو مکمل کیا کرو، انگلیوں میں خلال کرو، اور ناک میں پانی اچھی طرح پہنچاؤ الا یہ کہ تم صائم ہو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: خزیرہ ایک قسم کا کھانا ہے، اس کے بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کو کافی مقدار میں پانی میں ابالا جاتا ہے جب گوشت پک جاتا ہے تو اس میں آٹا ڈال کر اسے مزید پکایا جاتا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الطھارة 30 (38)، الصوصحیح مسلم/ 69 (788)، سنن النسائی/الطھارة 71 (87)، 92 (114)، سنن ابن ماجہ/ 44 (407)، 54 (448)، (تحفة الأشراف: 11172)، ویأتی عند المؤلف برقم (2366) و (3973)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/33)، سنن الدارمی/الطھارة 34 (732) (صحیح)»
Narrated Laqit ibn Sabirah: I was the leader of the delegation of Banu al-Muntafiq or (the narrator doubted) I was among the delegation of Banu al-Muntafiq that came to the Messenger of Allah ﷺ. When we reached the Prophet, we did not find him in his house. We found there Aishah, the Mother of the Believers. She ordered that a dish called Khazirah should be prepared for us. It was then prepared. A tray containing dates was then presented to us. (The narrator Qutaybah did not mention the word qina', tray). Then the Messenger of Allah ﷺ came. He asked: Has anything been served to you or ordered for you? We replied: Yes, Messenger of Allah. While we were sitting in the company of the Messenger of Allah ﷺ we suddenly saw that a shepherd was driving a herd of sheep to their fold. He had with him a newly-born lamb that was crying. He (the Prophet) asked him: What did it bear, O so and so? He replied: A ewe. He then said: Slaughter for us in its place a sheep. Do not think that we are slaughtering it for you. We have one hundred sheep and we do not want their number to increase. Whenever a ewe is born, we slaughter a sheep in its place. (The narrator says that the Prophet ﷺ used the word la tahsabanna, do not think). I (the narrator Laqit) then said: Messenger of Allah, I have a wife who has something (wrong) in her tongue, i. e. she is insolent. He said: Then divorce her. I said: Messenger of Allah, she had company with me and I have children from her. He said: Then ask her (to obey you). If there is something good in her, she will do so (obey); and do not beat your wife as you beat your slave-girl. I said: Messenger of Allah, tell me about ablution. He said: Perform ablution in full and make the fingers go through the beard and snuff with water well except when you are fasting.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 142
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (405، 3260) اخرجه الترمذي (788 وسنده حسن) والنسائي (114 وسنده حسن) وابن ماجه (448 وسنده حسن) وصححه ابن خزيمه (150، 168 وسندھما حسن) وانظر مقالات (2/ 202) والحديث الآتي (3973)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 142
فوائد و مسائل: ➊ مہمان کی میزبانی اس کا حق ہے اور حسب استطاعت عمدہ طور پر کی جائے۔ ➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گزران بحمد للہ بہت اچھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فقر اختیاری تھا نہ کہ اضطراری اور غنا توکل کے خلاف نہیں ہے۔ ➌ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رفتار باوقار اور تیز ہوتی تھی۔ آپ قدم اٹھا کر چلتے تھے، گویا آگے کو جھکے ہوں۔ ➍ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پسند فرماتے تھے کہ آپ کی آمدنی ایک حد تک رہے۔ ➎ مہمان یا ساتھی کے متوقع شبہات کا ازخود ازالہ کر دینا مستحب ہے۔ ➏ بیوی اگر زبان دراز ہو تو اس بنا پر وہ طلاق کی مستحق ٹھہرتی ہے۔ ➐ اگر وہ نصیحت قبول نہ کرے تو ایک حد تک جسمانی سزا بھی دی جا سکتی ہے، مگر شدید نہ ہو۔ ➑ وضو ہمیشہ مکمل کرنا چاہیے، خلال کرنا مستحب اور ناک میں پانی ڈالنا ضروری ہے۔ ➒ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے فصیح اللسان تھے۔ ➓ خزیرہ طعام کی وہ قسم ہے کہ اس میں گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے ابالے جاتے ہیں، جب وہ گل جاتا ہے تو اس پر آٹا ڈال دیتے ہیں۔ اگر گوشت کے بغیر پکایا جائے تو اسے عصیدہ کہتے ہیں، بہرحال دونوں ہی اہل عرب کی غذا ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 142
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 36
´اعضائے وضو کو اچھی اور پوری طرح دھونا ` «. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: اسبغ الوضوء، وخلل بين الاصابع، وبالغ في الاستنشاق إلا ان تكون صائما . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وضو اچھی طرح پورا کرو اور انگلیوں کا خلال کرو، ناک میں پانی اچھی طرح چڑھایا کرو مگر روزے کی حالت میں . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 36]
� لغوی تشریح: «أَسْبِغُ» «إِسْبَاغ» سے فعل امر ہے۔ «اسباغ» کے معنی ہیں: اعضائے وضو کو پوری طرح اور اچھی طرح دھونا۔ «خَلِّلُ» «تَخْلِيل» سے فعل امر ہے۔ خلال یہ ہے کہ انگلیوں کے درمیان انگلی اس طرح داخل کرے کہ دونوں انگلیوں کا درمیانی حصہ پوری طرح تر ہو جائے۔ «إِلَّا أَنْ تَكُونَ صَائِمًا» یعنی روزے دار پانی زیادہ اوپر نہ چڑھائے تاکہ کہیں پانی گلے میں نہ اتر جائے اور روزہ ٹوٹ جائے۔ روزے کے علاوہ عام حالات میں ناک کے اندرون پانی مبالغے سے چڑھانا مستحب ہے۔
فائدہ: اعضائے وضو کو اچھی اور پوری طرح دھونا چاہیے اور ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرنا چاہئیے تاکہ کہیں کوئی جگہ خشک نہ رہ جائے۔
راوی حدیث: سیدنا لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ ”لام“ کے فتحہ اور ”قاف“ کے کسرہ کے ساتھ ہے۔ «صبرة»”صاد“ کے فتحہ اور ”با“ کے کسرہ کے ساتھ ہے۔ نسب نامہ یوں ہے: لقیط بن صبرۃ بن عبداللہ بن المنتفق بن عامر العامری رضی اللہ عنہ وفد بنو منتفق کے قائد تھے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ لقیط بن عامر بن صبرہ ہیں جو ابورزین عقیلی کے نام سے مشہور ہیں۔ علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ وغیرہ کی رائے یہی ہے۔ اور ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ دو الگ الگ شخصیات ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ امام علی بن مدینی اور امام مسلم رحمہ اللہ وغیرہ کی بھی یہی رائے ہے۔ [الإصابة تهذيب]
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 36
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 87
´ناک میں پانی سڑکنے میں مبالغہ کرنے کا بیان۔` لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے وضو کے متعلق بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پوری طرح وضو کرو، اور ناک میں پانی سڑکنے (ڈالنے) میں مبالغہ کرو، اِلّا یہ کہ تم روزے سے ہو۔“[سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 87]
87۔ اردو حاشیہ: ➊ استنشاق کا مقصد ناک کی صفائی ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ناک کے آخری سرے تک پانی نہ پہنچایا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سانس کو پانی کے ساتھ زور سے کھینچا جائے، البتہ روزے کی حالت میں زیادہ زور لگانے سے خدشہ ہے کہ پانی حلق میں چلا جائے گا، لہٰذا روزے کی حالت میں احتیاط رکھے اور کم زور لگائے۔ ➋ اس سے معلوم ہوا کہ اگر استنشاق کے دوران میں پانی حلق میں چلا جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ احناف و موالک کا یہی مذہب ہے مگر امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک خطا معاف ہے اور روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ تاہم راجح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اگر سہواً یا نسیاناً استنشاق کے دوران میں پانی حلق میں چلا جائے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا کیونکہ سہو اور نسیان معاف ہے، البتہ اگر جانتے بوجھتے اشتنشاق کے دوران پانی حلق میں اتر جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 87
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 114
´انگلیوں میں خلال کرنے کا حکم۔` لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم وضو کرو تو کامل وضو کرو، اور انگلیوں کے درمیان خلال کرو۔“[سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 114]
114۔ اردو حاشیہ: ➊ خلال سے مراد یہ ہے کہ پاؤں کی انگلیوں کے درمیان ہاتھ کی چھوٹی انگلی (چھنگلیا) داخل کر کے ایسی جگہ پانی پہنچنے کو یقینی بنائے جہاں پانی نہ پہنچنے کا امکان ہو۔ ➋ خلال ہاتھ کی انگلیوں میں بھی کرنا چاہیے۔ اسی طرح ڈاڑھی کا خلال بھی مسنون ہے۔ اگرچہ ڈاڑھی کے اندر پانی پہنچانا ضروری نہیں، لیکن حتیٰ الامکان بالوں کو تر کرنا مسنون ہے۔ غرضیکہ اعضائے وضو کی جس جگہ بھی پانی لگنے کا امکان نہ ہو وہاں کوشش سے پانی پہنچایا جائے کیونکہ ایک تو یہ اسباع الوضو سے ہے اور دوسرا گناہوں کے خاتمے کا سبب بھی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 114
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2366
´روزہ دار پیاس کی وجہ سے اپنے اوپر پانی ڈالے اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کرے اس کے حکم کا بیان۔` لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ کرو سوائے اس کے کہ تم روزے سے ہو۔“[سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2366]
فوائد ومسائل: روزے کی حالت میں ناک میں دوائی نہیں ڈالی جا سکتی لیکن گردوغبار یا آٹے وغیرہ کی دھول کا اندر چلے جانا معاف ہے۔ خوشبو سونگھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ آنکھ اور کان میں دوا ڈالنا جائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2366
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث407
´ناک میں پانی چڑھانے اور ناک جھاڑنے میں مبالغہ کا بیان۔` لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے وضو کے بارے میں بتائیے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم مکمل طور پر وضو کرو، اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کرو، الا یہ کہ تم روزے سے ہو۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 407]
اردو حاشہ: (1) اسباغ وضو سےمراد یہ ہے کہ وضو اس طرح توجہ سے کیا جائےکہ دھوئے جانے والے اعضاء میں سےکسی عضو کا کوئی حصہ خشک نہ رہے اس طرح تین تین بار اعضاء کو دھونا اور مل کر دھونا یہ بھی اسباغ (وضو پورا کرنے) میں شامل ہے۔
(2)(استنشاق) كا مطلب یہ ہے کہ ناک میں پانی ڈال کر اسے اوپر تک پہنچانے کی کوشش کی جائےجس طرح سانس لیتے وقت ہوا اندر کو کھینچی جاتی ہے۔ لیکن روزے کی حالت میں اس سے پرہیز کرنا چاہیے تاکہ پانی ناک کے راستے میں حلق میں نہ چلاجائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 407
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 38
´انگلیوں کے (درمیان) خلال کا بیان۔` لقیط بن صبرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم وضو کرو تو انگلیوں کا خلال کرو“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 38]
اردو حاشہ: 1؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دونوں پیروں اور دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کے درمیان خلال کرنا واجب ہے، کیونکہ امر کا صیغہ وجوب پر دلالت کرتا ہے، اس بابت انگلیوں کے درمیان پانی پہنچنے نہ پہنچنے میں کوئی فرق نہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 38