(مرفوع) حدثنا ابو معمر عبد الله بن عمرو، حدثنا عبد الوارث، حدثنا محمد بن إسحاق، عن محمد بن جعفر، عن ابن عبد الله بن انيس،عن ابيه، قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى خالد بن سفيان الهذلي وكان نحو عرنة، وعرفات، فقال:" اذهب فاقتله"، قال: فرايته وحضرت صلاة العصر، فقلت: إني لاخاف ان يكون بيني وبينه ما إن اؤخر الصلاة، فانطلقت امشي وانا اصلي اومئ إيماء نحوه، فلما دنوت منه، قال لي: من انت؟ قلت: رجل من العرب بلغني انك تجمع لهذا الرجل فجئتك في ذاك، قال: إني لفي ذاك، فمشيت معه ساعة حتى إذا امكنني علوته بسيفي حتى برد. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ ابْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُنَيْسٍ،عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَالِدِ بْنِ سُفْيَانَ الْهُذَلِيِّ وَكَانَ نَحْوَ عُرَنَةَ، وَعَرَفَاتٍ، فَقَالَ:" اذْهَبْ فَاقْتُلْهُ"، قَالَ: فَرَأَيْتُهُ وَحَضَرَتْ صَلَاةُ الْعَصْرِ، فَقُلْتُ: إِنِّي لأَخَافُ أَنْ يَكُونَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ مَا إِنْ أُؤَخِّرِ الصَّلَاةَ، فَانْطَلَقْتُ أَمْشِي وَأَنَا أُصَلِّي أُومِئُ إِيمَاءً نَحْوَهُ، فَلَمَّا دَنَوْتُ مِنْهُ، قَالَ لِي: مَنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ: رَجُلٌ مِنَ الْعَرَبِ بَلَغَنِي أَنَّكَ تَجْمَعُ لِهَذَا الرَّجُلِ فَجِئْتُكَ فِي ذَاكَ، قَالَ: إِنِّي لَفِي ذَاكَ، فَمَشَيْتُ مَعَهُ سَاعَةً حَتَّى إِذَا أَمْكَنَنِي عَلَوْتُهُ بِسَيْفِي حَتَّى بَرَدَ.
عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن سفیان ہذلی کی طرف بھیجا اور وہ عرنہ و عرفات کی جانب تھا تو فرمایا: ”جاؤ اور اسے قتل کر دو“، عبداللہ کہتے ہیں: میں نے اسے دیکھ لیا عصر کا وقت ہو گیا تھا تو میں نے (اپنے جی میں) کہا اگر میں رک کر نماز میں لگتا ہوں تو اس کے اور میرے درمیان فاصلہ ہو جائے گا، چنانچہ میں اشاروں سے نماز پڑھتے ہوئے مسلسل اس کی جانب چلتا رہا، جب میں اس کے قریب پہنچا تو اس نے مجھ سے پوچھا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: عرب کا ایک شخص، مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس شخص (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مقابلے) کے لیے تم (لوگوں کو) جمع کر رہے ہو ۱؎ تو میں اسی سلسلے میں تمہارے پاس آیا ہوں، اس نے کہا: ہاں میں اسی کوشش میں ہوں، چنانچہ میں تھوڑی دیر اس کے ساتھ چلتا رہا، جب مجھے مناسب موقع مل گیا تو میں نے اس پر تلوار سے وار کر دیا اور وہ ٹھنڈا ہو گیا۔
وضاحت: ۱؎: یہ ذومعنی کلام ہے لیکن اللہ کا دشمن خالد بن سفیان ہذلی، عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کے اس توریہ کو سمجھ نہیں سکا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5146)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/496) (حسن)» (اس کے راوی ابن عبد اللہ بن انیس لین الحدیث ہیں، لیکن اس حدیث کی تصحیح ابن خزیمہ (982) اور ابن حبان (591) نے کی ہے، اور ابن حجر نے حسن کہا ہے (فتح الباری2/437)، البانی نے بھی اسے صحیح ابی داود میں رکھا ہے (1135/م) نیز ملاحظہ ہو: (الصحیحة 3293)
Narrated Abdullah bin Unais: The Messenger of Allah ﷺ sent me to Khalid bin Sufyan al-Hudhail. This was towards 'Uranah and Arafat. He (the Prophet) said: Go and kill him. I saw him when the time of the afternoon prayer had come. I said: I am afraid if a fight takes place between me and him (Khalid bin Sufyan), that might delay the prayer. I proceeded walking towards him while I was praying by making a sign. When I reached near him, he said to me: Who are you ? I replied: A man from the Arabs; it came to me that you were gathering (any army) for this man (i. e. Prophet). Hence I came to you in connection with this matter. He said: I am (engaged) in this (work). I then walked along with him for a while ; when it became convenient for me, I dominated him with my sword until he became cold (dead).
USC-MSA web (English) Reference: Book 4 , Number 1244
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: حسن صححه ابن خزيمة (983 وسنده حسن، 982) ابن إسحاق صرح بالسماع وابن عبد الله بن أنيس إسمه عبد الله، انظر دلائل النبوة للبيھقي (4/42) وھو حسن الحديث
بعثني رسول الله إلى خالد بن سفيان الهذلي وكان نحو عرنة وعرفات فقال اذهب فاقتله قال فرأيته وحضرت صلاة العصر فقلت إني لأخاف أن يكون بيني وبينه ما إن أؤخر الصلاة فانطلقت أمشي وأنا أصلي أومئ إيماء نحوه فلما دنوت منه قال لي من أنت قلت رجل من العرب بلغني أنك تج
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1249
1249. اردو حاشیہ: ➊ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اس کی سند کو حسن کہا ہے۔ دیکھیے: [كتاب الخوف، باب صلاة الطالب والمطلوب راكبا وايماء] اور اس سے معلوم ہوا کہ دوران جنگ میں اگر صورت حال سنگین ہو جائے اور نماز کے لئے جمع ہونے کی مذکورہ بالا کوئی بھی صورت ممکن نہ ہو تو مجاہدین اشارے سے نماز پڑھ سکتے ہیں۔ ➋ جنگ میں دشمن کے سامنے حیلہ اور توریہ سے کام لینا جائز ہے، یہ جھوٹ کی ذیل میں نہیں آتا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1249