(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا ابو معاوية، عن المسحاج بن موسى، قال: قلت لانس بن مالك حدثنا ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: كنا إذا كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في السفر، فقلنا: زالت الشمس او لم تزل،" صلى الظهر ثم ارتحل". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْمِسْحَاجِ بْنِ مُوسَى، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ حَدِّثْنَا مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: كُنَّا إِذَا كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السَّفَرِ، فَقُلْنَا: زَالَتِ الشَّمْسُ أَوْ لَمْ تَزُلْ،" صَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ ارْتَحَلَ".
مسحاج بن موسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہا: ہم سے آپ کوئی ایسی حدیث بیان کیجئے جسے آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو، انہوں نے کہا: جب ہم لوگ سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتے تو ہم کہتے: سورج ڈھل گیا یا نہیں ۱؎ تو آپ ظہر پڑھتے پھر کوچ کرتے۔
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ اگر امام کو وقت ہو جانے کا یقین ہے تو مقتدیوں کے شک کا کوئی اعتبار نہ ہو گا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 1586)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/تقصیر الصلاة 15 (1111)، 16 (1112)، صحیح مسلم/المسافرین 5 (704)، سنن النسائی/المواقیت 41 (587)، مسند احمد (3/ 113، 247، 265) (صحیح)»
Narrated Mishaj bin Musa: I asked Anas bin Malik: Narrate to us what you heard the Messenger of Allah ﷺ say. He said: When we travelled along with the Messenger of Allah ﷺ, we would say: Did the sun pass the meridian or not? But he (the Prophet) would offer the noon prayer and then proceed.
USC-MSA web (English) Reference: Book 4 , Number 1200
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن أبو معاوية الضرير صرح بالسماع عند أحمد (3/113) وله شاھد انظر الحديث الآتي (1205)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1204
1204۔ اردو حاشیہ: ➊ نماز کے اوقات کی معرفت اور اس کا وقت ہو جانا، صحت نماز کی اہم شرطوں میں سے ہے اور اس سلسلے میں امام موذن ہی ذمہ دار ہیں کسی ایک فرد کے شبے کا کوئی اعتبار نہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے جو شبہ ظاہر کیا ہے، وہ حقیقت میں شبہ ہی ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز کبھی بھی زوال سے قبل نہیں پڑھی۔ اس لئے مقتدیوں کو اپنے امام پر اعتماد کرنا چاہیے۔ ➋ اس میں یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سورج ڈھلتے ہی اول وقت میں نماز پڑھا کرتے تھے اور سفر میں بھی اسی کا اہمتام فرماتے تھے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1204
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 587
´مسافر کس وقت ظہر اور عصر کو جمع کرے؟` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سورج ڈھلنے سے پہلے سفر کرتے تو عصر تک ظہر کو مؤخر کر دیتے، پھر سواری سے نیچے اترتے اور جمع بین الصلاتین کرتے یعنی دونوں صلاتوں کو ایک ساتھ پڑھتے ۱؎، اور اگر سفر کرنے سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو ظہر پڑھ لیتے پھر سوار ہوتے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 587]
587 ۔ اردو حاشیہ: ➊مسافر اگر ظہر اور عصر اور اسی طرح مغرب اور عشاء کو جمع کرنا چاہے تو اس کی تین صورتیں ہیں: ایک جمع تقدیم ہے، یعنی ظہرکی نماز کے ساتھ عصر کو یا مغرب کے ساتھ عشاء کو جمع کر لیا جائے۔ دوسری صورت ہے جمع تاخیر، یعنی ظہر کو مؤخر کر کے عصر کے ساتھ اور مغرب کو مؤخر کر کے عشاء کے ساتھ پڑھا جائے۔ تیسری صورت جمع صوری ہے، یعنی ظہر کی نماز کو اس کے آخری وقت میں اور عصر کو اس کے اول وقت میں، اسی طرح مغرب کو اس کے آخری وقت میں اور عشاء کو اول وقت میں پڑھا جائے۔ یہ تینوں صورتیں جائز ہیں، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ساری ہی صورتیں ثابت ہیں۔ بنابریں پہلی دو صورتوں کا انکار کر کے صرف جمع صوری ہی پر اصرار کرنا، اس یسر (آسانی) کو ختم کرتا ہے جو شریعت کی طرف سے دی گئی ہے۔ ➋مذکورہ حدیث کے بارے میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس میں جمع صوری کا بیان ہے لیکن الفاظ حدیث اس کی تائید نہیں کرتے۔ اس میں ظہر کو عصر کے وقت پڑھنے کا ذکر ہے تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ آپ نے جمع تاخیر کی ہے، یعنی ظہر کو عصر کے وقت میں عصر کے ساتھ پڑھا ہے اور اس سے بھی مزید تصریح کے ساتھ الفاظ آتے ہیں، فرمایا: «أخر الظهر الی أن یدخل وقت العصر»”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کو اس حد تک مؤخر کیا کہ عصر کا وقت داخل ہو گیا۔“ دیکھیے: [صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 704] اسی طرح دیگر روایات میں آتا ہے کہ سورج ڈھلنے کے بعد آپ سفر کا آغاز فرماتے تو ظہر کے ساتھ عصر کی نماز بھی پڑھ لیتے (یعنی جمع تقدیم کر لیتے)۔ اس حدیث میں اختصار ہے جس کی وضاحت دوسری احادیث سے ہو جاتی ہے۔ اگلی احادیث میں ان ساری صورتوں کا بیان آرہا ہے، البتہ حج کے دوران عرفات میں ظہر اور عصر کو ظہر کے وقت میں پڑھنا متفق علیہ ہے اور یہ جمع تقدیم ہو گی۔ [صحیح مسلم، الحج، حدیث: 1218]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 587
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 595
´مسافر کے مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کرنے کا بیان۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ کو چلنے کی جلدی ہوتی تو ظہر کو عصر کے وقت تک مؤخر کرتے، پھر دونوں کو ایک ساتھ جمع کرتے، اور مغرب کو شفق کے ڈوب جانے تک مؤخر کرتے، اور پھر اسے اور عشاء کو ایک ساتھ جمع کرتے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 595]
595 ۔ اردو حاشیہ: اس روایت میں بھی جمع تاخیر ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 595
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1218
´دو نمازوں کو جمع کرنے کا بیان۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ فرماتے تو ظہر کو عصر کے وقت تک مؤخر کر دیتے پھر قیام فرماتے اور دونوں کو جمع کرتے، اور اگر کوچ کرنے سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو آپ ظہر پڑھ لیتے پھر سوار ہوتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مفضل مصر کے قاضی اور مستجاب لدعوات تھے، وہ فضالہ کے لڑکے ہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1218]
1218۔ اردو حاشیہ: اس حدیث سے کچھ لوگوں کا استدلال یہ ہے کہ ”جمع تقدیم“ صحیح نہیں (یعنی عصر کو ظہر کے وقت میں نہ پڑھا جائے) مگر دیگر کئی صحیح احادیث سے ”جمع تقدیم“ ثابت ہے، جیسے کہ سابقہ حدیث معاذ رضی اللہ عنہ سنن ابی داود حدیث [1208] میں گزرا ہے۔ ان مختلف احادیث کو مختلف احوال پر محمول کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1218
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 347
´مسافر اور مریض کی نماز کا بیان` سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب زوال آفتاب سے پہلے سفر کا آغاز فرماتے تو ظہر کی نماز کو عصر کی نماز تک مؤخر کر لیتے تھے۔ پھر سواری سے نیچے تشریف لاتے اور ظہر و عصر دونوں نمازوں کو اکٹھا ادا فرماتے اور جب آفتاب آغاز سفر سے پہلے زوال پذیر ہو جاتا تو پھر نماز ظہر ادا فرما کر سوار ہو کر سفر پر روانہ ہوتے۔ (بخاری و مسلم) اور حاکم کی اربعین میں سند صحیح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر و عصر کی نمازیں پڑھیں پھر سواری پر سوار ہوئے۔ ابونعیم کی ”مستخرج“ میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں ہوتے اور آفتاب زوال پذیر ہو جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر و عصر دونوں اکٹھی ادا فرما کر وہاں سے کوچ کرتے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 347»
تخریج: «أخرجه البخاري، تقصير الصلاة، باب يؤخر الظهر إلي العصر إذا ارتحل قبل أن تزيغ الشمس، حديث: 1111، ومسلم، صلاة المسافرين، باب جواز الجمع بين الصلاتين في السفر، حديث:704، وأبو نعيم في المستخرج:2 /294.»
تشریح: اس حدیث کی رو سے سفر میں ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو جمع کر کے پڑھنا جائز ثابت ہوتا ہے۔ اس میں جمع تقدیم ہو یا تاخیر دونوں طرح ثابت ہے۔ احناف جمع حقیقی کے قائل نہیں‘ جمع صوری کے قائل ہیں۔ مگر جامع ترمذی کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ جمع صوری نہیں بلکہ جمع حقیقی تھی‘ چنانچہ اس کا مفہوم ہے کہ جب آفتاب زوال پذیر ہونے سے پہلے آپ سفر پر روانہ ہوتے تو ظہر کو مؤخر کر کے عصر کے ساتھ ملا کر دونوں کو اکٹھا ادا فرماتے اور جب سورج ڈھلنے کے بعد سفر کا آغاز فرماتے تو عصر کو ظہر کے ساتھ ملا کر دونوں کو اکٹھا ادا فرماتے۔ (جامع الترمذي‘ الجمعۃ‘ حدیث:۵۵۳) امام ترمذی نے اس روایت کو حسن کہا ہے۔ اور مستخرج ابونعیم کی حدیث سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے جسے مصنف رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے۔ اور یہی بات راجح ہے۔ واللّٰہ أعلم۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 347
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1625
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ کر لیتے تو ظہر کو عصر کے وقت تک مؤخر فرماتے پھر (سواری سے) اتر کر دونوں کو جمع کر لیتے، پس اگر سورج آپ ﷺ کے کوچ کرنے سے پہلے ڈھل جاتا تو ظہر پڑھ کر سوار ہو جاتے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1625]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اگر تیز رفتاری کی ضرورت نہ ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر پڑھ کر سفر پر روانہ ہو جاتے اورعصر اپنے وقت میں پڑھتے۔ اگر تیزی مطلوب ہوتی تو پھر زوالِ آفتاب کے بعد ظہر کے ساتھ ہی عصر پڑھ لیتے جیسا کہ غزوہ تبوک کے سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1625
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1110
1110. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دوران سفر ان دونوں نمازوں، یعنی مغرب اور عشاء کو جمع کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1110]
حدیث حاشیہ: 1۔ علامہ کرمانی ؒ فرماتے ہیں: لفظ صلاۃ کے اطلاق سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان نمازوں کو ان کے ارکان، شروط اور سنن وغیرہ سمیت پڑھتے تھے اور اذان و اقامت کی حیثیت نماز کے لیے سنت کی ہے، لہٰذا اس کے لیے اذان اور اقامت کا بھی اہتمام کرتے، مطلق شے سے مراد اس کا فرد کامل ہوتا ہے۔ (فتح الباري: 750/2)(2) ہمارے نزدیک امام بخاری ؒ نے حضرت ابن عمر ؓ سے مروی حدیث کے ذریعے سے حضرت انس ؓ سے مروی حدیث کی تفسیر فرمائی ہے، کیونکہ حدیث انس ؓ میں اذان یا اقامت کا ذکر نہیں ہے، جبکہ حضرت ابن عمر ؓ سے مروی حدیث میں مغرب اور عشاء کے لیے اقامت کہنے کی صراحت ہے، چنانچہ سنن دارقطنی کی روایت میں ہے کہ حضرت عمر ؓ دوران سفر اذان نہیں دیتے تھے بلکہ اقامت کہنے کے بعد دونوں نمازوں کو ملا کر ادا کرتے تھے، یعنی ہر نماز کے لیے الگ اقامت کہتے تھے۔ (فتح الباري: 750/2)(3) اس حدیث میں یہ وضاحت نہیں کہ نماز مغرب کو کسی حد تک مؤخر کیا جائے۔ ایک روایت میں ہے کہ غروب آفتاب کے بعد سرخی غائب ہونے تک اسے مؤخر کرتے، پھر پڑاؤ کر کے مغرب اور عشاء کو ملا کر پڑھتے۔ (صحیح البخاري، الجھادوالسیر، حدیث: 3000) حضرت جابر ؓ سے مروی ایک طویل روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مزدلفہ میں ایک اذان اور دو دفعہ اقامت کے ساتھ نماز مغرب اور عشاء کو جمع کیا تھا۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2950(1218) راجح یہی ہے کہ ہر نماز کے لیے الگ الگ اقامت ہو، البتہ اذان ایک ہی کافی ہو گی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1110
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1111
1111. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب زوال آفتاب سے پہلے سفر کا آغاز کرتے تو نماز ظہر کو عصر تک مؤخر کرتے، پھر ظہر اور عصر دونوں کو ملا کر پڑھتے اور جب سورج ڈھلنے کے وقت سفر شروع کرتے تو نماز ظہر پڑھ کر اپنے سفر پر روانہ ہوتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1111]
حدیث حاشیہ: ایک روایت میں ہے کہ نماز ظہر کو اس حد تک مؤخر کرتے کہ عصر کا اول وقت شروع ہو جاتا، پھر پڑاؤ کرتے اور نماز ظہر اور عصر کو ملا کر پڑھتے۔ ایک روایت میں ہے کہ دوران سفر نماز مغرب کو بھی مؤخر کرتے، پھر غروب شفق کے بعد مغرب اور عشاء کو ملا کر پڑھتے، بہرحال امام بخاری ظہر اور عصر میں جمع تاخیر کے قائل ہیں۔ جمع تقدیم کے متعلق امام بخاری ؒ کا موقف واضح نہیں ہے۔ (فتح الباري: 752/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1111
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1112
1112. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب زوال آفتاب سے پہلے سفر شروع کرتے تو نماز ظہر کو وقت عصر تک مؤخر کرتے، پھر پڑاؤ کر کے دونوں کو جمع کر لیتے۔ اگر سفر کے آغاز سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو نماز ظہر پڑھ کر سوار ہوتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1112]
حدیث حاشیہ: اس روایت میں زوال آفتاب کے بعد سفر شروع کرنے کی صورت میں صرف نماز ظہر پڑھنے کا ذکر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دو نمازوں کو جمع کرنے کی یہ صورت ہے کہ پہلی نماز کو دوسری نماز کے وقت میں ادا کیا جاتا ہے جسے اصطلاح میں جمع تاخیر کہتے ہیں۔ امام بخاری ؒ کا رجحان بھی یہی معلوم ہوتا ہے لیکن اس روایت کو جب امام اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا ہے تو اس کے الفاظ یہ ہیں: رسول اللہ ﷺ اگر سفر میں ہوتے اور سورج ڈھل جاتا تو ظہر اور عصر کو ملا کر پڑھ لیتے پھر سفر کا آغاز کرتے۔ اس روایت کا تقاضا ہے کہ جمع تقدیم بھی جائز ہے۔ اس کی تائید ایک دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے جسے امام حاکم ؒ نے اربعین میں بیان کیا ہے کہ اگر کوچ کرنے سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو ظہر اور عصر کو جمع کرتے اور پھر سوار ہوتے۔ اسے اسحاق بن راہویہ کی روایت کے لیے بطور متابعت پیش کیا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري: 753/2) جمع تقدیم کے لیے حضرت معاذ بن جبل ؓ کی روایت بھی بطور دلیل پیش کی جاتی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ زوال آفتاب کے بعد سفر کا ارادہ فرماتے تو ظہر اور عصر کو اکٹھا ادا فرما لیتے۔ (مسند أحمد: 241/5) رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ تبوک کے موقع پر ایسا کیا تھا۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي: 163/3) حضرت انس بن مالک ؓ سے بھی اس طرح کی ایک روایت مروی ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي: 164/3) حضرت ابن عباس ؓ سے بھی اس طرح کی ایک روایت مروی ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي: 164/3) حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی پسندیدہ جگہ پر پڑاؤ کرتے تو ظہر اور عصر ملا کر پڑھ لیتے، پھر سفر کا آغاز کرتے اور اگر مناسب جگہ میسر نہ آتی تو اپنے سفر کو جاری رکھتے، پھر کسی مناسب مقام پر اتر کر ظہر اور عصر کو جمع کر کے ادا فرما لیتے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي: 163/3) اس کے تمام راوی ثقہ ہیں لیکن اس کے مرفوع ہونے میں شک ہے، تاہم امام بیہقی ؒ نے اس روایت کو بڑے جزم و وثوق کے ساتھ موقوف بھی بیان کیا ہے۔ واضح رہے کہ دوران سفر میں نمازوں کو جمع کرنے کے علاوہ بارش، بیماری یا کسی دوسری ہنگامی ضرورت کے پیش نظر بھی جمع کیا جا سکتا ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي: 169/3) الغرض نمازوں کو ناگزیر قسم کے حالات اور شدید مجبوری کی صورت میں تو جمع کیا جا سکتا ہے جیسا کہ سفر، خوف، بیماری، بارش، سخت آندھی یا کسی ہنگامی ضرورت کے وقت دو نمازیں جمع کی جاتی ہیں، تاہم شدید ضرورت کے بغیر دو نمازوں کو جمع کرنا جائز نہیں، جیسا کہ ہمارے کاروباری حضرات کا عام معمول ہے کہ وہ سستی یا کاروباری مصروفیت کی وجہ سے ایسا کر لیتے ہیں۔ یہ صحیح نہیں بلکہ سخت گناہ ہے۔ بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ عذر کے بغیر نمازوں کو جمع کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ (فتح الباري: 753/2) اس سلسلے میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ بلا عذر نمازوں کو جمع کیا تھا، حالانکہ اس روایت میں منقول عذر کی وضاحت موجود ہے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1636(705)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1112