سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابي داود تفصیلات

سنن ابي داود
کتاب: طہارت کے مسائل
Purification (Kitab Al-Taharah)
48. باب التَّسْمِيَةِ عَلَى الْوُضُوءِ
48. باب: وضو کرتے وقت بسم اللہ کہنے کا بیان۔
Chapter: Saying ’Bismillah’ While Starting Wudu’.
حدیث نمبر: 101
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا محمد بن موسى، عن يعقوب بن سلمة، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا صلاة لمن لا وضوء له، ولا وضوء لمن لم يذكر اسم الله تعالى عليه".
(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَا وُضُوءَ لَهُ، وَلَا وُضُوءَ لِمَنْ لَمْ يَذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ تَعَالَى عَلَيْهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کی نماز نہیں جس کا وضو نہیں، اور اس شخص کا وضو نہیں جس نے وضو کے شروع میں «بسم الله» نہیں کہا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/الطھارة 41 (399)، (تحفة الأشراف: 13476)، سنن الترمذی/الطہارة 20 (25)، سنن النسائی/الطہارة 62 (78)، مسند احمد (2/418) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Abu Hurairah: The Messenger of Allah ﷺ said: The prayer of a person who does not perform ablution is not valid, and the ablution of a person who does not mention the name of Allah (in the beginning) is not valid.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 101


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
مشكوة المصابيح (403)
وللحديث شواهد منها ما أخرجه ابن ماجه (397) وسنده حسن

   سنن أبي داود101عبد الرحمن بن صخرلا صلاة لمن لا وضوء له لا وضوء لمن لم يذكر اسم الله عليه
   سنن ابن ماجه399عبد الرحمن بن صخرلا صلاة لمن لا وضوء له لا وضوء لمن لم يذكر اسم الله عليه
   بلوغ المرام46عبد الرحمن بن صخر‏‏‏‏لا وضوء لمن لم يذكر اسم الله عليه

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 101 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 101  
فوائد و مسائل:
➊ وضو کے شروع میں «بسم الله» کہنا واجب ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا: «بسم الله» کہتے ہوئے وضو کرو۔ [سنن النسائي، الطهارة، حديث: 78]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ «بسم الله» کے علاوہ الفاظ سے وضو کی ابتداء کرنا درست نہیں ہے۔ جو حضرات «بسم الله» کے سوا کوئی دوسرے الفاظ کہنے کو درست خیال کرتے ہیں تو یہ بلا دلیل اور مذکورہ حدیث کے خلاف ہے۔
➋ اگر «بسم الله» بھول گئی اور وضو کے دوران میں یاد آئی تو فوراً پڑھ لے، تاہم وضو دوبارہ کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ بھول چوک معاف ہے۔
➌ وضو اور غسل میں نیت بھی لازم ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 101   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 46  
´وضو کے آغاز میں بسم اللہ پڑھنا`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ‏‏‏‏لا وضوء لمن لم يذكر اسم الله عليه . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: وضو کا آغاز کرتے وقت جس نے پہلے «بسم الله» نہ پڑھی اس کا کوئی وضو نہیں . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 46]
فوائد و مسائل:
«لَا وُضُوءَ» یہ عبارت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ «بِسم الله» کا پڑھنا وضو کے لئے رکن یا شرط ہے کیونکہ ظاہر عبارت سے کمال کی نفی نہیں بلکہ صحت اور وجود کی نفی مراد ہے جیسا کہ لائے نفی جنس سے یہی مراد ہوتا ہے۔ لیکن امام احمد رحمه الله اس کی بابت فرماتے ہیں کہ اس کے متعلق کوئی چیز ثابت نہیں، البتہ اس کے مختلف طرق اور کثیر شواہد کی بنا پر حافظ ابن صلاح، ابن کثیر اور علامہ عراقی رحمها الله وغیرہ نے اسے حسن کہا ہے۔ عصر حاضر کے عظیم محقق علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے حسن قرار دیا ہے، لہٰذا اسے پڑھنا سنت ہے، اس لیے ہر وضو کرنے والے کو وضو کی ابتدا میں «بسم الله» پڑھ لینی چاہئے۔
➋ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک وضو کے آغاز میں بسم اللہ پڑھنا مسنون ہے۔ داود ظاہری کے نزدیک وضو کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا واجب ہے۔ اسحاق بن راہویہ کا قول ہے کہ جس نے عمداً بسم اللہ نہ پڑھی اس کا وضو نہیں ہوا اور یہی بات راجح ہے۔

راویٔ حدیث: سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سعید بن زید بن عمرو بن نفیل العدوی القرشی ہیں۔ ان کی کنیت ابوالاعور ہے۔ ان دس خوش قسمت ترین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہیں جنہیں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زبان سے دنیا ہی میں جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ یہ قدیم الاسلام صحابی ہیں۔ ان کی زوجیت میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا تھیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دائرہ اسلام میں آنے کا ذریعہ اور سبب یہی خاوند بیوی بنے۔ معرکہ بدر کے علاوہ باقی تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ 51 ہجری میں وفات پائی اور بقیع کے قبرستان میں دفن ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 46   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.