وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن الصلت بن زييد ، عن غير واحد من اهله، ان عمر بن الخطاب وجد ريح طيب وهو بالشجرة وإلى جنبه كثير بن الصلت، فقال عمر :" ممن ريح هذا الطيب؟" فقال كثير: مني يا امير المؤمنين لبدت راسي واردت ان لا احلق، فقال عمر: " فاذهب إلى شربة، فادلك راسك حتى تنقيه" ففعل كثير بن الصلت . قال مالك: الشربة حفير تكون عند اصل النخلةوَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ الصَّلْتِ بْنِ زُيَيْدٍ ، عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ وَجَدَ رِيحَ طِيبٍ وَهُوَ بِالشَّجَرَةِ وَإِلَى جَنْبِهِ كَثِيرُ بْنُ الصَّلْتِ، فَقَالَ عُمَرُ :" مِمَّنْ رِيحُ هَذَا الطِّيبِ؟" فَقَالَ كَثِيرٌ: مِنِّي يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَبَّدْتُ رَأْسِي وَأَرَدْتُ أَنْ لَا أَحْلِقَ، فَقَالَ عُمَرُ: " فَاذْهَبْ إِلَى شَرَبَةٍ، فَادْلُكْ رَأْسَكَ حَتَّى تُنْقِيَهُ" فَفَعَلَ كَثِيرُ بْنُ الصَّلْتِ . قَالَ مَالِك: الشَّرَبَةُ حَفِيرٌ تَكُونُ عِنْدَ أَصْلِ النَّخْلَةِ
حضرت صلت بن زبید سے روایت ہے کہ انہوں نے کئی اپنے عزیزوں سے سنا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو خوشبو آئی اور وہ شجرہ میں تھے، اور آپ کے پہلو میں کثیر بن صلت تھے، تو کہا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے: کس میں سے یہ خوشبو آتی ہے؟ کثیر نے کہا: مجھ میں سے۔ میں نے اپنے بال جمائے تھے کیونکہ میرا ارادہ سر منڈوانے کا نہ تھا بعد احرام کھولنے کے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: شربہ کے پاس جا اور سر کو مل کر دھو ڈال، تب ایسا کیا کثیر بن صلت نے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: شربہ اس گڑھےکو کہتے ہیں جو کھجور کے درخت کے پاس ہوتا ہے اور اس میں پانی بھرا رہتا ہے۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، انفرد به المصنف من هذا الطريق شیخ سلیم ہلالی نے کہا ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے کیونکہ اس میں ایک راوی مجہول ہے، شیخ احمد علی سلیمان نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 20»