وحدثني، عن مالك، عن نافع، انه" راى صفية بنت ابي عبيد امراة عبد الله بن عمر تنزع خمارها وتمسح على راسها بالماء" . ونافع يومئذ صغير. وسئل مالك، عن المسح على العمامة والخمار فقال: لا ينبغي ان يمسح الرجل ولا المراة على عمامة ولا خمار، وليمسحا على رءوسهما. وسئل مالك، عن رجل توضا فنسي ان يمسح على راسه حتى جف وضوءه، قال: ارى ان يمسح براسه وإن كان قد صلى ان يعيد الصلاةوَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّهُ" رَأَى صَفِيَّةَ بِنْتَ أَبِي عُبَيْدٍ امْرَأَةَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ تَنْزِعُ خِمَارَهَا وَتَمْسَحُ عَلَى رَأْسِهَا بِالْمَاءِ" . وَنَافِعٌ يَوْمَئِذٍ صَغِيرٌ. وَسُئِلَ مَالِك، عَنِ الْمَسْحِ عَلَى الْعِمَامَةِ وَالْخِمَارِ فَقَالَ: لَا يَنْبَغِي أَنْ يَمْسَحَ الرَّجُلُ وَلَا الْمَرْأَةُ عَلَى عِمَامَةٍ وَلَا خِمَارٍ، وَلْيَمْسَحَا عَلَى رُءُوسِهِمَا. وَسُئِلَ مَالِك، عَنْ رَجُلٍ تَوَضَّأَ فَنَسِيَ أَنْ يَمْسَحَ عَلَى رَأْسِهِ حَتَّى جَفَّ وَضُوءُهُ، قَالَ: أَرَى أَنْ يَمْسَحَ بِرَأْسِهِ وَإِنْ كَانَ قَدْ صَلَّى أَنْ يُعِيدَ الصَّلَاةَ
نافع سے روایت ہے کہ انہوں نے دیکھا صفیہ کو جو بیوی تھیں سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی۔ اُتارتی تھیں اس کپڑے کو جس سے سر ڈھانپتے ہیں اور مسح کرتی تھیں اپنے سر پر پانی سے۔ اور نافع اس وقت نا بالغ تھے۔ امام مالک رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ مسح کے متعلق اوپر عمامہ کے یا سر بندھن کے، تو کہا: مرد کو عمامہ پر اور عورت کو سر بندھن پر مسح درست نہیں ہے، بلکہ مسح کرنا سر پر لازم ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ سے سوال ہوا اس شخص کے بارے میں جس نے وضو کیا اور سر کا مسح بھول گیا، یہاں تک کہ اعضائے وضو خشک ہو گئے۔ تو جواب دیا: مسح کرے اپنے سر پر اور جو نماز پڑھ لی ہو اس کا اعادہ کرے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 286، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 51، شركة الحروف نمبر: 63، فواد عبدالباقي نمبر: 2 - كِتَابُ الطَّهَارَةِ-ح: 40»