وحدثني، عن مالك، عن ابي النضر مولى عمر بن عبيد الله، ان عائشة بنت طلحة اخبرته، انها كانت عند عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم فدخل عليها زوجها هنالك وهو عبد الله بن عبد الرحمن بن ابي بكر الصديق وهو صائم، فقالت له عائشة : ما يمنعك ان تدنو من اهلك فتقبلها وتلاعبها؟ فقال: اقبلها وانا صائم؟ قالت:" نعم" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَائِشَةَ بِنْتَ طَلْحَةَ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّهَا كَانَتْ عِنْدَ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ عَلَيْهَا زَوْجُهَا هُنَالِكَ وَهُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ وَهُوَ صَائِمٌ، فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ : مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَدْنُوَ مِنْ أَهْلِكَ فَتُقَبِّلَهَا وَتُلَاعِبَهَا؟ فَقَالَ: أُقَبِّلُهَا وَأَنَا صَائِمٌ؟ قَالَتْ:" نَعَمْ"
حضرت عائشہ بنت طلحہ سے روایت ہے کہ وہ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بیٹھی تھیں، اتنے میں اُن کے خاوند عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابی بکر صدیق (بھتیجے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے) آئے اور وہ روزہ دار تھے، تو کہا اُن سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے: تم کیوں نہیں جاتے اپنی بی بی کے پاس؟ بوسہ لو اُن کا اور کھیلو اُن سے۔ تو کہا عبداللہ نے: بوسہ لوں میں اُن کا اور میں روزہ دار ہوں؟ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہاں۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه أخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 7421، 7422، 7444، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 9486، 9490، 9522، وأخرجه الطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 3397، وأخرجه الطبراني فى «الأوسط» برقم: 8757، شركة الحروف نمبر: 599، فواد عبدالباقي نمبر: 18 - كِتَابُ الصِّيَامِ-ح: 16»