وحدثني، عن مالك، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، انه" كان يصلي يوم الفطر قبل الصلاة في المسجد" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ" كَانَ يُصَلِّي يَوْمَ الْفِطْرِ قَبْلَ الصَّلَاةِ فِي الْمَسْجِدِ"
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ وہ نفل پڑھتے تھے قبل نماز عید کے مسجد میں۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه البيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 1932، والشافعي فى الاُم برقم: 249/7، شركة الحروف نمبر: 402، فواد عبدالباقي نمبر: 10 - كِتَابُ الْعِيدَيْنِ-ح: 12»
قال مالك: مضت السنة التي لا اختلاف فيها عندنا، في وقت الفطر والاضحى، ان الإمام يخرج من منزله قدر ما يبلغ مصلاه، وقد حلت الصلاة قَالَ مَالِكٌ: مَضَتِ السُّنَّةُ الَّتِي لَا اخْتِلَافَ فِيهَا عِنْدَنَا، فِي وَقْتِ الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى، أَنَّ الْإِمَامَ يَخْرُجُ مِنْ مَنْزِلِهِ قَدْرَ مَا يَبْلُغُ مُصَلَّاهُ، وَقَدْ حَلَّتِ الصَّلَاةُ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: وہ سنت جس میں ہمارے نزدیک اختلاف نہیں ہے یہ کہ امام عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے لیے اس وقت گھر سے نکلے کہ عیدگاہ تک پہنچتے پہنچتے نماز کا وقت آجائے۔
وسئل مالك عن رجل صلى مع الإمام، هل له ان ينصرف قبل ان يسمع الخطبة؟ فقال: لا ينصرف حتى ينصرف الإمام وَسُئِلَ مَالِكٌ عَنْ رَجُلٍ صَلَّى مَعَ الْإِمَامِ، هَلْ لَهُ أَنْ يَنْصَرِفَ قَبْلَ أَنْ يَسْمَعَ الْخُطْبَةَ؟ فَقَالَ: لَا يَنْصَرِفُ حَتَّى يَنْصَرِفَ الْإِمَامُ
امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ جس شخص نے نماز پڑھ لی عید الفطر کی امام کے ساتھ تو کیا وہ خطبہ سنے بغیر آ سکتا ہے؟ تو کہا: اس کو جائز نہیں ہے کہ قبل خطبہ سننے کے چلا آئے بلکہ جب امام لوٹے تو وہ بھی لوٹے۔