حدثني مالك، عن يحيى بن سعيد، عن سعيد بن المسيب، انه سمعه يقول: لما صدر عمر بن الخطاب، من منى اناخ بالابطح ثم كوم كومة بطحاء ثم طرح عليها رداءه. واستلقى. ثم مد يديه إلى السماء فقال: «اللهم كبرت سني، وضعفت قوتي، وانتشرت رعيتي، فاقبضني إليك غير مضيع، ولا مفرط» ثم قدم المدينة فخطب الناس. فقال: «ايها الناس قد سنت لكم السنن. وفرضت لكم الفرائض. وتركتم على الواضحة. إلا ان تضلوا بالناس يمينا وشمالا» . وضرب بإحدى يديه على الاخرى". ثم قال: «إياكم ان تهلكوا عن آية الرجم» . ان يقول قائل لا نجد حدين في كتاب الله. فقد رجم رسول الله صلى الله عليه وسلم ورجمنا. والذي نفسي بيده، لولا ان يقول الناس: زاد عمر بن الخطاب في كتاب الله تعالى لكتبتها - الشيخ والشيخة فارجموهما البتة - فإنا قد قراناهاحَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ: لَمَّا صَدَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، مِنْ مِنًى أَنَاخَ بِالْأَبْطَحِ ثُمَّ كَوَّمَ كَوْمَةً بَطْحَاءَ ثُمَّ طَرَحَ عَلَيْهَا رِدَاءَهُ. وَاسْتَلْقَى. ثُمَّ مَدَّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ فَقَالَ: «اللَّهُمَّ كَبِرَتْ سِنِّي، وَضَعُفَتْ قُوَّتِي، وَانْتَشَرَتْ رَعِيَّتِي، فَاقْبِضْنِي إِلَيْكَ غَيْرَ مُضَيِّعٍ، وَلَا مُفَرِّطٍ» ثُمَّ قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَخَطَبَ النَّاسَ. فَقَالَ: «أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ سُنَّتْ لَكُمُ السُّنَنُ. وَفُرِضَتْ لَكُمُ الْفَرَائِضُ. وَتُرِكْتُمْ عَلَى الْوَاضِحَةِ. إِلَّا أَنْ تَضِلُّوا بِالنَّاسِ يَمِينًا وَشِمَالًا» . وَضَرَبَ بِإِحْدَى يَدَيْهِ عَلَى الْأُخْرَى". ثُمَّ قَالَ: «إِيَّاكُمْ أَنْ تَهْلِكُوا عَنْ آيَةِ الرَّجْمِ» . أَنْ يَقُولَ قَائِلٌ لَا نَجِدُ حَدَّيْنِ فِي كِتَابِ اللَّهِ. فَقَدْ رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا. وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْلَا أَنْ يَقُولَ النَّاسُ: زَادَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى لَكَتَبْتُهَا - الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ فَارْجُمُوهُمَا أَلْبَتَّةَ - فَإِنَّا قَدْ قَرَأْنَاهَا
حضرت سعید بن مسیّب سے روایت ہے کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ لوٹے منیٰ سے (یہ حج آخری تھا ۲۳ ہجری میں) تو آپ رضی اللہ عنہ نے اونٹ کو بٹھایا ابطح (ایک مقام ہے قریب مکّہ کے جس کو محصب بھی کہتے ہیں) میں، اور ایک طرف کنکریوں کا ڈھیر لگا کر چادر کو اپنے اوپر ڈال دیا اور چت لیٹے (ان کنکریوں کا تکیہ بنایا)، پھر دونوں ہاتھ اٹھائے آسمان کی طرف اور فرمایا: اے پروردگار! بہت عمر ہوئی میری، اور گھٹ گئی قوت میری، اور پھیل گئی رعیت میری (یعنی ملکوں ملکوں خلافت اور حکومت پھیل گئی، دور دراز تک لوگ رعایا ہو گئے)، اب اٹھا لے مجھ کو اپنی طرف اس حال میں کہ تیرے احکام کو ضائع نہ کروں، اور عبادت میں کوتاہی نہ کروں۔ پھر مدینہ میں تشریف لائے اور لوگوں کو خطبہ سنایا، فرمایا: اے لوگوں! جتنے طریقے تھے سب کھل گئے، اور جتنے فرائض تھے سب مقرر ہوگئے، اور ڈالے گئے تم صاف سیدھی راہ پر، مگر ایسا نہ ہو کہ تم بہک جاؤ دائیں بائیں۔ اور ایک ہاتھ کو دوسرے پر مارا، پھر فرمایا: نہ یہ ہو کہ تم بھول جاؤ رجم کی آیت کو، کوئی یہ کہنے لگے ہم دو حدوں کو اللہ کی کتاب میں نہیں پاتے، دیکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا ہے، اور ہم نے بھی بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رجم کیا ہے، قسم اس ذات پاک کی جس کے اختیار میں میری جان ہے، اگر لوگ یہ نہ کہتے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بڑھا دیا کتاب اللہ میں، تو میں اس آیت کو قرآن میں لکھوا دیتا «الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ فَارْجُمُوهُمَا أَلْبَتَّةَ» یعنی: ”محصن مرد اور محصنہ عورت جب زنا کریں تو سنگسار کرو ان کو۔“ ہم نے اس آیت کو پڑھا ہے۔ (پھر پڑھنا اس کا موقوف ہوگیا، لیکن حکم باقی ہے قیامت تک)۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه الترمذي فى «جامعه» برقم: 1431، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16920، 16921، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 5048، وأحمد فى «مسنده» برقم: 249، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 29374، فواد عبدالباقي نمبر: 41 - كِتَابُ الْحُدُودِ-ح: 10»
سعید بن مسیّب نے کہا کہ پھر ذی الحجہ کا مہینہ نہ گزرا تھا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ قتل کئے گئے۔ (فیروز مجوسی کے ہاتھ سے، اللہ جل جلالہُ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی دعاء کو قبول فرمایا اور ان کو درجہ شہادت عطاء کیا)۔